بھائی جی (والد گرامی جناب محمد زکی کیفی) کے انتقال کو کئی ماہ گزر چکے تھے جب میری امی نے مجھے بلایا۔ وہ ان کے نہایت غم و اندوہ کے‘ ہجر کے دن تھے۔ اور کیسے نہ ہوتے ''کاشانۂ زکی‘‘ کے ہر کمرے‘ ہر کھڑکی اور ہر دیوار پر میرے والدین کے خواب کندہ تھے۔ کرائے کے گھروں میں مشکل اور آسانی‘ تنگی اور فراوانی کے ساتھ‘ صبر شکر سے بیس سال گزارنے کے بعد یہ گھر نصیب ہوا تھا‘ جس کی ایک ایک اینٹ دونوں کے خون پسینے سے بنی تھی۔ تو ایسا ساتھی بچھڑ جانے کے بعد اسی گھر میں ہر نیا دن ایک پرانی یاد تازہ کرنے کے لیے آتا تھا۔ امی کہنے لگیں ''سعود ! تمہیں یاد ہے‘ ایک بار تم نے اپنے بھائی جی سے شدید گرمیوں میں دو چیزوں کی فرمائش کی تھی۔ چھجے والا ہیٹ اور دھوپ کا سیاہ چشمہ۔ ہیٹ کو تو تمہارے بھائی جی نے منع کر دیا تھا لیکن دس بارہ دن بعد سیاہ چشمہ تمہیں خرید کر لا دیا تھا۔ پتا ہے دس بارہ دن کیوں لگے تھے انہیں؟ ان کے پاس پیسے نہیں تھے کہ تمہاری فرمائش پوری کر سکتے۔ ان کے پاس پیسے اور تمہارے پاس چشمہ ایک ساتھ آئے تھے‘‘۔
مجھے اچھی طرح وہ سیاہ چشمہ یاد تھا۔ اس کے ملنے کی خوشی بھی یاد تھی۔ یہ بھی یاد آ گیا کہ دس پندرہ دن شوق پورا کرنے کے بعد وہ چشمہ شاید ٹوٹ گیا تھا۔ یہ بھی پتا تھا کہ وہ دور مالی مشکلات کا تھا لیکن یہ پتا نہیں تھا کہ جب میں نے اپنے والد سے یہ فرمائش کی تو وہ دن ان پر اتنے سخت تھے۔ اس وقت وہ چشمہ ایک یا دو روپے یا شاید اس سے بھی کم کا تھا‘ لیکن بھائی جی کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے۔ سمن آباد موڑ پر ''کاشانۂ زکی‘‘ بنوانے میں وہ مقروض ہو گئے تھے۔ بڑا کنبہ تھا اور مسلسل مہمان داری۔ بچے ہاتھ بٹانے کے قابل نہیں تھے اور ساری ذمہ داری انہی کے سر تھی۔ ہم سب چھوٹے بڑے بچے ان دنوں حالات کو سمجھتے تھے اور کسی چیز کی فرمائش نہیں کیا کرتے تھے۔ اس دن امی نے یہ بات بتائی تو دل میں خنجر سا اُتر گیا۔ میں نے یہ فرمائش کی ہی کیوں؟
میں بھاری بستہ گلے میں لٹکائے‘ ہاتھ میں تختی جھلاتا اُردو نگر‘ سمن آباد موڑ کے گھر سے نکلتا‘ ملتان روڈ پار کرتا‘ کونے پر جسٹس سجاد (سابق سینیٹروسیم سجاد کے والد) کی کوٹھی کے سامنے سے گزرتا‘ اداکارہ شمیم آرا کا گھر تیزی سے عبور کرتا کہ ان کے جسیم اونچے کتے سے ہمیشہ ڈر لگتا تھا۔ آگے گلی کا وہ موڑ آتا جہاں اب ایک پٹرول پمپ ہے۔ وہاں میرے سکول کا ایک اور بچہ میرا انتظار کر رہا ہوتا تھا‘ اس کے والدین نے اسے تنہا نہ جانے کی ہدایت کی ہوئی تھی۔ اس موڑ پر ہم ایک سے دو ہمسفر ہو جاتے تھے۔ میں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اسے کنکھیوں سے دیکھتا جاتا۔ دھوپ سے بچائو کے چھجے دار خاکی ہیٹ اور سیاہ چشمے کے ساتھ وہ بڑا شاندار لگتا تھا۔ کیسا لگتا ہوگا یہ ہیٹ اور چشمہ پہن کر؟ دھوپ اور گرمی تو بالکل نہیں لگتی ہو گی۔ چہرے پر ایک تو ہیٹ کی چھائوں پھر سیاہ چشمہ۔ ہم باتیں کرتے طارق ماڈل سکول تک پہنچ جاتے۔ گلی کی طرف مڑتے اور اطہر شاہ خان جیدی کو آتے جاتے دیکھتے‘ جو اس وقت لاہور ہی میں رہا کرتے تھے۔ یہ سارا علاقہ اُس وقت صوفی تبسم‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ ڈاکٹر اسماعیل بھٹی‘ اے حمید‘ زکی کیفی‘ اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ جیسے لوگوں سے مزین تھا۔ سکول میں پانی کے کولر کا کیا سوال تھا۔ ایک سرکاری نلکا تھا جس سے سبھی تازہ پانی پی لیا کرتے تھے۔ دو بجے کے قریب سکول سے واپسی ہوتی تو سورج کا قہر عروج پر ہوتا تھا۔ ہم دونوں واپس بھی اکٹھے آتے۔ میں کنکھیوں سے لچکدار چھجے دار فلیٹ ہیٹ اور سنہری کمانی والے چشمے کو دیکھتا جاتا‘ گہرے سیاہ شیشوں کے پیچھے سے اس کی آنکھیں دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ ہماری ساری باتیں گرمیوں کی چھٹیوں سے متعلق ہوتی تھیں۔اگلے مہینے چھٹیاں ہو جائیں گی۔ میں تو چھٹیوں میں خوب سویا‘ خوب کھیلا کروں گا۔ تم چھٹیو ں میں کیا کروگے؟ اچھا! اپنے امی ابو کے ساتھ مری جائوگے؟ واہ زبردست! کیا ساری چھٹیاں وہیں گزارو گے؟
سارا سال ان گرمیو ں کی چھٹیوں کا انتظار رہتا تھا۔ چھٹیاں سردیوں کی بھی ہوا کرتی تھیں لیکن پندرہ دن کی۔ یہ ڈھائی مہینے والی عیاشی اس میں نہیں تھی۔ اس وقت ہمیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ برفباری کے علاقوں میں طویل چھٹیاں سردیوں میں ہوا کرتی ہیں۔ ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ جون‘ جولائی ہی میں پورے ملک کے بچے لمبی تان کر سوتے ہیں‘ کھیلا کرتے ہیں اور کہانیاں پڑھا کرتے ہیں۔ طے تھا کہ چھٹیوں میں اگر کچھ پڑھنا ہے تو نسطور جن‘ لندھور پہلوان‘ عمرو عیارکی کہانیاں۔ ننھے راج کمار کے کارنامے۔ (اب یہ کہانیاں کون پڑھتا ہو گا؟) رہا وہ کام جو گھر پر کرنے کے لیے ملا ہے‘ تو آخری دس بارہ دن محنت کرکے کر لیں گے۔ (اور یہ آخری دس بارہ دن کبھی نہیں آتے تھے)۔ چھٹیاں ختم ہونے میں دس بارہ دن رہ جاتے تو ایک طرف سکول کے دوستوں سے ملنے کا اشتیاق ہوتا تو دوسری طرف سکول کا سہم۔ یہ مبالغہ نہیں کہ اس وقت زندگی میں گرمیوں کی چھٹیوں سے زیادہ خوشی اور انتظار کسی اور چیز کا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور خوشی بھی جُڑ جاتی تھی۔ کراچی کیلئے ٹرین کا سفر‘ جس کیلئے دن گنے جانے لگتے تھے۔ یا پھر انہی دنوں میں کراچی کے ہم عمر دوستوں کی آمد۔ یہ سب مزے انہی تپش انگیز صبحوں‘ ہونکتی دوپہروں اور گر م بخارات اٹھاتی شاموں سے منسلک تھے۔ ان چھٹیوں کے معمول ذہن سے نہیں اترتے۔ کرکٹ‘ کنچے‘ گلی ڈنڈا‘ پٹھو گرم‘کیڑی کاڑا‘ رومال پکڑائی‘ ڈی ڈی‘ کوڑا جمال شاہی‘ برف پانی معمول کے کھیل تھے یا پھر گڈیاں اڑانا۔ پتنگ بازی میں میری حیثیت تماشائی کی ہوا کرتی تھی۔ پٹاخے والی پستول ذرا مہنگا شوق تھا لیکن کبھی کبھی شامل ہو جایا کرتا تھا۔ سرخ اینٹوں کے صحن میں شام ڈھلے چھڑکائو کرنا میری ذمہ داری تھی اور چارپائیاں بچھا کر ان پر سفید براق بستر بچھانا بہنوں کی۔ کھلے آسمان تلے سونا اب بڑے شہروں میں تو بالکل متروک ہو چکا ہے لیکن وہ وقت کیسے بھول سکتا ہے جب رات گئے تھک کر کھلی چھت پر ٹھنڈے بستر پر لیٹتا تو آسمان بھی نزدیک آ جاتا۔ ستاروں کے جھرمٹ کلام کرنے لگتے تھے اور کچھ ستارے آنکھوں کے اشارے سے پاس بلاتے تھے۔ میں قطب ستارے کا تعین کرتا۔ اور پھر دبِ اکبر کا۔ یہ عربوں کا بڑا ریچھ تھا یا بنات النعش یا لاطینیوں کا ارسا میجر (Ursa Major) یا ہندوئوں کا سپت رشی۔ جو بھی تھا‘ اس سے گفتگو ہر رات ہوتی تھی۔ میں اور ستارے باتیں کرتے کرتے سو جاتے تھے۔ (کیا کہیں آج بھی وہ بچہ ہو گا جو ستاروں سے باتیں کرتا سو جاتا ہے؟)
کچھ دن پہلے میں گھر کی طرف آ رہا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہو چکا تھا۔ ایک سکول سے چھوٹی چھوٹی بچیاں ستاروں کے جھرمٹوں کی شکل میں نکل رہی تھیں۔ عنقریب ہونے والی چھٹیوں کی بات ہر زبان پر تھی۔ ہر بچی کے رخسار گرمی اور چھٹیوں کی خبر سے تمتمائے ہوئے تھے۔ وہ چہک رہی تھیں۔ یہ چہچہے ایسے تھے جس پر دنیا بھر کے خوبصورت معصوم پرندوں کی چہکار قربان ہے۔ 25 مئی پنجاب کے سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں۔ سندھ میں یہ چھٹیاں یکم جون سے ہو رہی ہیں۔ کے پی کے متعلقہ علاقوں میں پہلے ہی چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں اور بلوچستان میں بھی 15 مئی سے چھٹیاں ہیں۔ ان بچوں کی خوشی کے دن شروع ہو رہے ہیں تو اپنی غرقاب چھٹیاں‘ اپنی تہِ آب خوشیاں یاد آنے لگی ہیں۔
زمانہ بدل گیا ہے۔ سکول اور نصاب بدل گئے ہیں۔ رہن سہن اور چلن بدل گیا ہے۔ سواریاں بدل گئی ہیں۔ ایسے میں دو بچوں کو سخت گرمی میں بستے لٹکائے‘ تختی جھلاتے سکول سے پیدل واپس آتے دیکھتا ہوں۔ ان میں سے ایک کے سر پر چھجے دار ہیٹ ہے اور آنکھوں پر سیاہ چشمہ۔ ان کے گال دھوپ اور چھٹیوں کی خبر سے گلال ہو رہے ہیں۔ میں ذرا قریب ہو کر ان کی باتیں سنتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ گرمیوں کی چھٹیوں کی خوشی نہیں بدلی۔ یہ خوشی بدل بھی نہیں سکتی کہ اس کا کوئی بدل ہے ہی نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved