معاشروں کو تباہ کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کوئی نیا رجحان نہیں‘ تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ حکمرانوں‘ عسکریت پسند جتھوں اور مختلف گروہوں نے اپنی طاقت و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ہمیشہ معیشتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ قدیم زمانے میں شہروں کو فتح کرنے والے فاتحین اکثر یہی حکمت عملی اپناتے تھے۔ وہ لوٹ مار کرتے‘ کھیتی باڑی اور تجارت کو تباہ کرتے اور مقامی آبادی کو اتنا کمزور کر دیتے کہ وہ مزاحمت کی طاقت نہ رکھتی۔ اس طرح فاتحین نہ صرف وسائل پر قبضہ جماتے بلکہ مفتوحہ علاقے کے عوام کو زیرِ نگیں رکھنے کو بھی ایک مؤثر طریقہ کار سمجھتے تھے۔ قرونِ وسطیٰ میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ قبائلی لڑائیوں اور سلطنتوں کے عروج و زوال کے دوران معیشت کو تباہ کرنا ایک عام بات تھی۔ مسلح جتھے فصلوں کو جلا دیتے‘ کاریگروں کے ہنر کو ختم کر دیتے اور تجارتی راستوں کو مسدود کر دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کا معیارِ زندگی گر جاتا‘ تجارت کم ہو جاتی اور حکومتوں کی آمدنی کم ہو جاتی۔ اس طرح کمزور حکومتوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جاتا۔ آج کی جدید دنیا میں بھی یہ حربے مختلف انداز سے جاری ہیں۔ مخالف قوتیں اور دہشت گرد تنظیمیں اسی حکمت عملی کو مختلف انداز میں استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر محض اتفاقیہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ گہری سازش اور بدخواہ قوتیں سرگرم ہیں جو پاکستان کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اہم پیشرفت اور سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز بدخواہ قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہا‘ اس لیے چینی باشندوں کو نشانہ بنا کر دراصل دیگر سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دینے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے پُرامن ملک نہیں۔ ان چھپے ہوئے دشمنوں کا قلع قمع نہایت ضروری ہے کیونکہ ان بدخواہوں کا سدباب کیے بغیر ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
26مارچ کو بشام میں چینی انجینئرز پر حملے کی کڑیاں افغانستان سے جا ملتی ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور پولیس نے یکم اپریل کو بشام خودکش دھماکے کی رپورٹ جوائنٹ کمیٹی کو پیش کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ خودکش دھماکے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔ سکیورٹی فورسز نے اپریل کے آخر میں حملے میں ملوث چار دہشت گردوں کو گرفتار کیا جن کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے ثابت ہوا۔ حملے کے پیچھے‘ ظاہر ہے گھنائونی سازش ہے‘ جس کا مقصد پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے پاکستان نے افغان عبوری حکومت کے سامنے شواہد رکھتے ہوئے دو مطالبات کیے؛ یا تو افغان حکومت ٹی ٹی پی کا خود ٹرائل کرے یا پھر دہشت گردی میں ملوث افراد کو پاکستان کے حوالے کر دے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے دونوں مطالبات نہ صرف جائز ہیں بلکہ ان میں ہمسائیگی اور انصاف کے تقاضوں کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا افغان طالبان اپنی سرزمین پر موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے افراد کو پاکستان کے حوالے کریں گے؟
انہی سطور میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان ایک طویل تاریخی رشتہ ہے۔ دونوں گروہ پشتون قبائل سے تعلق رکھتے ہیں‘ جو افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ان گروہوں نے ایک دوسرے کی حمایت کی اور نائن الیون کے بعد ٹی ٹی پی کے کئی جنگجو افغان طالبان کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ نظریاتی طور پر بھی دونوں گروہوں میں مماثلت پائی جاتی ہے‘ کیونکہ وہ ایک ہی طرزِ حکومت کے قیام کے خواہشمند ہیں۔ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں۔ افغان طالبان حکومت چلانے کے چیلنجزسے نبرد آزما ہیں۔ وہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اپنی حکومت کو تسلیم کیا جانا اور معاشی امداد چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے ایما پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو انہیں داخلی انتشار کے چیلنج کا سامنا ہو گا‘ جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں کیونکہ داخلی انتشار ان کی حکومت کو مزید کمزور کر دے گا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغان طالبان میں اندرونی سطح پر ٹی ٹی پی کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ کچھ طالبان رہنما پاکستان کے تحفظات کا ادراک رکھتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے کے حامی ہیں جبکہ کچھ زیادہ سخت گیر ہیں اور پاکستان کے ساتھ تعاون سے گریزاں ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں بیک وقت معاشی و سکیورٹی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ معیشت اور سکیورٹی لازم ملزوم ہیں‘ جس طرح پُرامن ریاست کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا ہے‘ اسی طرح مضبوط ریاست کے تصور کے بغیر سکیورٹی کے چیلنجز پر قابو پانا بھی مشکل ہے‘ لہٰذا ہمیں دونوں محاذوں پر جامع حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ بدخواہوں کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ بد امنی کی فضا قائم کرکے ہمیں ترقی کی راہ سے دور کر دیں‘ لہٰذا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ترقی کے لیے پُرامن ماحول ضروری ہے‘ ہمیں معاشی ترقی کا سفر جاری رکھنا ہو گا کیونکہ معاشی لحاظ سے مضبوط ریاست ہی دہشت گردی کا صحیح معنوں میں مقابلہ کر سکتی ہے۔
تہذیبِ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ امن و خوشحالی کا حصول انسانیت کا سب سے بڑا خواب رہا ہے‘ لیکن یہ خواب صرف مضبوط ریاست اور پُرسکون معاشرے کے قیام ہی سے پورا ہو سکتا ہے۔ ایک مضبوط ریاست پُرسکون معاشرے کے بغیر ایک خوبصورت قفس ہے‘ جبکہ پُرسکون معاشرہ مضبوط ریاست کے بغیر بکھرے ہوئے موتیوں کی مانند ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ مضبوط ریاست اور پُرسکون معاشرے کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں ہے۔ یورپ کی مثال لیجیے‘ جہاں مضبوط حکومتوں اور پُرسکون معاشروں نے مل کر صنعتی انقلاب برپا کیا اور دنیا کو ترقی کی نئی راہیں دکھائیں۔ اسی طرح ایشیائی ممالک میں بھی جہاں مضبوط حکومتوں نے پُرسکون ماحول فراہم کیا‘ وہاں تیز رفتار ترقی ہوئی۔ اس کے برعکس کمزور ریاستوں اور انتشار کے شکار معاشروں میں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن جاتی ہیں۔ جرائم‘ فساد اور عدم استحکام عام ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں نہ تو معاشرہ ترقی کر پاتا ہے اور نہ ہی ریاست بیرونی خطرات کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری یہ جنگ آسان نہیں کیونکہ ہمارا واسطہ ایسے دشمن سے ہے جو چھپ کر حملہ کرتا ہے‘ بے گناہوں کو نشانہ بناتا ہے اور دہشت پھیلا کر لوگوں کا حوصلہ پست کرنا چاہتا ہے۔ ایسے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت چوکس رہنے اور جان کی بازی لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے اس امتحان میں پورا اترے ہیں۔ وہ دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بنا رہے اور ملک کی سالمیت کی حفاظت کر رہے ہیں۔ سکیورٹی ادارے مسلسل شدت پسند عناصر کے تعاقب میں ہیں‘ خفیہ معلومات پر روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز ہو رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی آپریشن میں اتوار کے روز پشاور میں دو فوجی جوانوں نے شہادت کو گلے لگایا۔ سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کی بدولت دہشت گرد اپنے مذموم ارادوں کو عملی شکل نہ دے سکے۔ ایسے انٹیلی جنس آپریشن روزانہ کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں‘ اس لیے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ اگرچہ طویل ہے مگر اس جنگ کے بعد روشن صبح ہماری منتظر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved