ایک بات کی مجھے خوشی ہے کہ آخرکار پاکستانی بیورو کریٹس نے بھی اپنی یادداشتیں لکھنا شروع کر دی ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں جن بیورو کریٹس نے اپنی زندگی کے تجربات شیئر کیے ہیں ان میں سابق وفاقی سیکرٹری طارق محمود کی کتاب 'دام خیال‘ اور سابق سیکرٹری ریلوے شکیل درانی کی کتاب The Frontier Stations پڑھنے کے لائق ہے۔ اس اہم خود نوشت کا اردو ترجمہ صدیق پراچہ نے کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ چند دن پہلے ایک اور کتاب مارکیٹ میں آئی ہے‘ جو صدر زرداری کے پچھلے دورِ صدارت کے بڑے قریبی بیورو کریٹ سلمان فاررقی نے My Dear Jinnah کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں آپ کو سابق حکمرانوں‘ خصوصاً جنرل ضیا‘ محمد خان جونیجو‘ غلام مصطفی جتوئی‘ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور آصف زرداری کے ادوارِ حکومت سے متعلق بہت سی باتیں ملتی ہیں۔ اب مجھے جس خود نوشت کا شدت سے انتظار ہے وہ بطور وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کی لکھی ہوئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ چند دنوں تک وہ کتاب بھی بک سٹالز پر دستیاب ہو گی۔
مجھے اس کتاب کا کم از کم 24 برس سے انتظار ہے۔ سعید مہدی بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور بہت سے ایسے تاریخی واقعات کے عینی شاہد ہیں جنہوں نے پاکستانی سیاست اور حکمرانوں کی قسمت کے فیصلے کیے۔ وہ 12اکتوبر 1999ء کی دوپہر وزیراعظم ہاؤس میں موجود تھے جب وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا اور جس فیصلے کے نتیجے میں دس سال کیلئے ایوانِ اقتدار میں پرویز مشرف متمکن ہو گئے اور نواز شریف کو پہلے جیل اور پھر سعودی عرب جانا پڑ گیا۔ خود سعید مہدی بھی دو سال قید میں رہے۔ یہ کسی بیوروکریٹ کیلئے ایک نیا تجربہ تھا کہ اتنے اہم عہدے پر ہوتے ہوئے اسے ایسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جیل کے ان دو سالوں کی کہانی یقینا اس کتاب کو مزید جدت بخشے گی کہ اس دوران ان پر اور ان کے خاندان پر کیا گزری۔ سب سے اہم یہ کہ بارہ اکتوبر کی دوپہر کو ایسا کیا ہوا تھا کہ ملک کی تاریخ ہی بدل گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل جب سپریم کورٹ میں لگی تو سعید مہدی اس کے بھی عینی شاہد ہیں کیونکہ وہ اس وقت راولپنڈی میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ ان کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ یہ ہے کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت وہ جیل میں موجود تھے۔ آج بھٹو کی پھانسی کے شاید وہ آخری عینی شاہد ہیں۔ ان کے علاوہ جو باقی افسران اور اہلکار وہاں مختلف حیثیتوں میں موجود تھے‘ وہ سب فوت ہو چکے‘ جن میں بریگیڈیئر راحت لطیف‘ کرنل رفیع الدین‘ ایس ایس پی جہانزیب برکی اور سپرنٹنڈنٹ راولپنڈی جیل یار محمد شامل ہیں۔ سعید مہدی نے بھٹو کی پھانسی کا اپنی آنکھوں دیکھا منظر اپنی خود نوشت میں بیان کیا ہے جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کہ سعید مہدی کے علاوہ پنڈی جیل کا جونیئر عملہ بھی ابھی حیات ہو؛ تاہم بڑے افسران‘ ان کے علاوہ‘ سب فوت ہو چکے ہیں۔ لہٰذا سعید مہدی The Last Witness بچے ہیں‘ جو متعدد اہم مواقع پر موجود تھے۔
جب نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو جنرل ضیا نے رہا کیا تو اس وقت بھی سعید مہدی وہاں موجود تھے اور جو کچھ وہاں ہوا‘ وہ سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ جو ان کی کتاب کا حصہ ہے۔ جب 10اپریل 1986ء کو بینظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد لاہور ایئر پورٹ پر اُتری تھیں اور لاکھوں کے مجمع نے ان کا استقبال کیا تھا‘ سعید مہدی اس وقت کمشنر لاہور تھے اور ایئر پورٹ پر بینظیر بھٹو کو ریسیو کرنے والے سعید مہدی ہی تھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب بھٹو کو پھانسی ہو رہی تھی تو سعید مہدی پھانسی گھاٹ پر موجود تھے۔ بینظیر اور نصرت بھٹو کو رہا کیا جا رہا تھا‘ تب بھی وہ وہاں موجود تھے اور بھٹو کی بیٹی جب لاہور ایئرپورٹ پر اُتریں تو وہ کمشنر لاہور کی حیثیت سے اُن کو ریسو کر رہے تھے۔ سعید مہدی ہی بطور کمشنر بینظیر بھٹو کو لاہور ایئر پورٹ سے مینارِ پاکستان لے کر گئے تھے۔ ایک اور اہم تاریخی واقعہ جس کے وہ عینی شاہد ہیں‘ وہ 1988ء میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی سے پہلے صدر ضیا کا ایک پیغام تھا جو وہ وزیراعظم کو دینے گئے تھے۔ حیران کن طور پر صدر ضیا نے کسی سیاسی بندے کے بجائے ایک بیورو کریٹ کا انتخاب کیا تھا کہ وزیراعظم جونیجو کو ان کا پیغام پہنچائیں‘ اور پھر حکومت اور اسمبلیاں توڑی گئیں۔ وہ صدر ضیا کا جونیجو کے لیے آخری پیغام ثابت ہوا۔ اس آخری میسج کی تفصیلات بھی انکشافات سے بھرپور اس کتاب کا حصہ ہیں۔
وہ اہم واقعہ‘ جس نے پرویز مشرف اور نواز شریف کی تقدیر بدل دی تھی‘ وہ کارگل آپریشن کا فیصلہ تھا۔ آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ جنرل مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کو اعتماد میں لیا تھا یا خود ہی جنگ شروع کرکے سارا ملبہ نواز شریف پر ڈال دیا۔ سعید مہدی کے لیے یہ باب بہت اہم ہے کہ سول سرونٹ کے طور پر یہ ان کی آخری بڑی تقرری تھی‘ جو ان کے جیل جانے کا سبب بنی اور پھر انہوں نے زندگی کا مشکل ترین دور گزارا۔ اس طرح نواز شریف حکومت کے اُن دو برسوں کے واقعات بھی کتاب میں شامل ہیں کہ کیسے پرویز مشرف آرمی چیف بنے‘ جنہوں نے بعد ازاں نواز شریف کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائیں۔ 12اکتوبر کے بعد سعید مہدی دو سال تک مختلف جیلوں میں قید رہے‘ جن میں 45 دن کی قیدِ تنہائی بھی شامل ہے۔
اس کتاب کا جو سب سے افسردہ کر دینے والا باب ہے‘ وہ سعید مہدی کی قید سے متعلق ہے۔ سعید مہدی‘ جو ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے‘ ان کو اس بات کا 24سال بعد بھی شدید دکھ اور گلہ ہے کہ اُن مشکل دنوں میں ان کے بہت سے قریبی دوستوں نے نہ صرف ان سے دوری اختیار کر لی بلکہ ایسا رویہ رکھا جیسے وہ انہیں جانتے ہی نہ ہوں۔ جو لوگ سعید مہدی کو قریب سے جانتے ہیں‘ انہیں علم ہے کہ وہ جب بھی بڑے عہدوں پر رہے‘ کوئی دوست یا رشتہ دار کام لے کر آیا تو انہوں نے انکار نہیں کیا۔ ان کا مزاج ہی ایسا تھا۔ ان کے پاس کوئی بھی بندہ کام لے کر گیا تو انہوں نے آؤٹ آف دی وے جا کر وہ کام کرائے۔ لیکن جب وہ جیل میں تھے تو ان لوگوں میں سے کوئی بھی ان کے گھر‘ ان کے بچوں سے ملنے یا ان کی خبرگیری کو نہ گیا کہ آیا انہیں کوئی مدد تو درکار نہیں‘ یا یہ کہ ان کے دن کیسے گزر رہے ہیں‘ وہ کس حالت میں ہیں۔ جن لوگوں کا عید‘ تہوار پر مبارکباد دینے کا رش لگا رہتا تھا‘ وہ لوگ بھی غائب ہو گئے۔ عید کے دن بھی کوئی ان کے بچوں سے ملنے نہ گیا کہ اب سعید مہدی ان کے کسی کام کے نہ تھے۔ اور پھر کون جنرل مشرف کو ناراض کرے؟ کوئی رشتہ دار یا دوست اس مشکل وقت میں سامنے نہ آیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب وہ اہم عہدوں پر تھے تو انہیں یاد نہیں پڑتا کہ ان کا کوئی دوست یا رشتہ دار کوئی کام لے کر آیا ہو اور انہوں نے وہ کام نہ کیا ہو۔
اس بات پر وہ شدید افسردہ اور غمزدہ ہیں کہ لوگ آپ سے تعلق اس وقت تک رکھتے ہیں جب تک آپ انہیں فائدہ دے سکتے ہیں۔ آپ مشکل میں پڑ جائیں تو آپ کے بچوں کو کوئی عید مبارک کہنے تک نہیں آتا۔ وقت بھی کیسے بدل جاتا ہے اور بہت سے گہرے زخم آپ کے بدن اور روح پر چھوڑ جاتا ہے۔ سعید مہدی آج بھی وہ زخم اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں کہ جن دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے سب کچھ کیا‘ وہ عید کے دن بھی ان کے بچوں کو ملنے نہ آئے کہ اب سعید مہدی ختم ہو چکا تھا۔ وقت بھی دل پر لگے ان زخموں کو نہیں بھر سکا۔ 24 برس بعد بھی سعید مہدی کے زخم ہرے ہیں کہ کیسے اپنے دوست اور رشتہ دار ہی انہیں اور ان کے بچوں کو اکیلا چھوڑ گئے تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved