53برس پہلے‘ شیخ مجیب الرحمن نے ہم سے اپنا راستہ الگ کر لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو دنیا سے رخصت ہوئے 46سال ہو گئے۔ اتنا وقت گزر جانے کے بعد‘ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ہماری یادداشت سے محو ہو جاتے۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا۔ دونوں زیرِ بحث ہیں اور عصری سیاست میں حوالہ ہیں۔ ان میں ایسا کیا خاص ہے کہ بھلائے نہیں بھولتے؟
28 مئی کو 'یومِ تکبیر‘ کی نسبت سے‘ منجانب حکومتِ وقت‘ اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حکومت (ن) لیگ کی ہے۔ اس اشتہار میں وزیراعظم صاحب کے ساتھ دو شخصیات کی تصاویر ہیں۔ ایک نواز شریف اور دوسرے ذوالفقار علی بھٹو۔یہ انہونی کیسے ہوئی کہ (ن) لیگ کی حکومت میں بھٹو کو یاد کیا جا رہا ہے۔ وہ کہ جس کا نام سن کر خون کھول اٹھتا تھا‘ آج دل اس کے لیے تحسین کے گیت گا رہا ہے۔ یہ عجوبہ کیسے ہو گیا؟
سقوطِ ڈھاکہ کو 53برس گزر گئے۔ اتنے عرصے کے بعد بھی شیخ مجیب الرحمن سرخیوں میں ہیں۔ بنگلہ دیش میں وہ عصری سیاست کا حوالہ نہیں ہیں مگر ہمارے ہاں ہیں‘ جن سے ناتے توڑے نصف صدی بیت چکی۔ شیخ مجیب الرحمن کیوں ابھی تک حوالہ ہیں؟ ان کے بارے میں یہ بحث کیوں زندہ ہے کہ وہ غدار تھے یا نہیں؟ تاریخ کیا ہمیں کچھ سمجھانا چاہتی ہے اور ہم سمجھنے پر آمادہ نہیں؟ جو تاریخ کو سنجیدہ نہیں لیتے‘ ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟
یہ اِس صدی کی پہلی دہائی تھی جب (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ دونوں کو یہ احساس ہوا کہ اہلِ سیاست کو آمریت کے خلاف ہم نوا ہو نا چاہیے۔ 'میثاقِ جمہوریت‘ اس دور کی یاد گار ہے۔ ہماری تاریخ میں یہ کوئی انہونی نہیں تھی۔ آمریتوں کے خلاف اہلِ سیاست‘ اس سے پہلے بھی اتحاد کرتے رہے تھے۔ بالغ نظر سیاستدان اس حقیقت سے آگاہ رہے ہیں کہ سیاسی عمل کو آگے بڑھنا ہے تو اس کے لیے جمہوریت ناگزیر ہے۔ سب کو مل کر جمہوریت کو لانا چاہیے اور اس کے بعد‘ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نظریات اور سیاسی لائحہ عمل کو عوام کے سامنے پیش کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اختلاف کو بھی بیان کریں اور پھر یہ فیصلہ عوام کریں کہ انہیں کس کو حقِ اقتدار دینا ہے۔
ایوب خان صاحب کے خلاف اسی اصول پر اتحاد بنا۔ یہ وہ دور تھا جب نظریاتی اختلاف اپنے عروج پر تھا۔ اس اختلاف نے سیاست کو کفر و اسلام کا معرکہ بنا دیا تھا۔ اس کے باوصف سیاستدان آمریت کے خلاف متحد تھے۔ یہی نہیں‘ مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں نے انتخابی اتحاد بھی بنائے۔ گویا اس پر اتفاق کیا کہ وہ مل کر حکومت سازی کریں گے۔ پرویز مشرف کے خلاف جو اتحاد بنا اس میں (ن) لیگ‘ تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام شامل تھیں۔
اس لیے جب (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے 'میثاقِ جمہوریت‘ پر اتفاق کیا تو سیاسی لوگوں کے لیے اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں تھی۔ نواز شریف صاحب اور بینظیر بھٹو صاحبہ‘ دونوں نے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اور ماضی کی تلخیوں کو عصری سیاست کا حصہ بنانے سے گریز کیا۔ یہی نہیں‘ کم از کم ماضی کی حد تک دونوں نے ایک دوسرے کے اچھے کاموں کا اعتراف کیا۔ اس میں (ن) لیگ نے زیادہ وسعت نظری دکھائی۔ مریم نواز صاحبہ گڑھی خدا بخش گئیں اور انہوں نے کھلے دل کے ساتھ بینظیر بھٹو صاحبہ کی تحسین کی۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھٹو صاحب کے کردار کی تحسین کی گئی۔ میں جس اشتہار کا ذکر کر رہا ہوں‘ یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
نواز شریف صاحب اب جنرل ضیا الحق صاحب کا نام نہیں لیتے لیکن ان کی جماعت کی حکومت میں بھٹو صاحب کے ایک کارنامے کی تحسین کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ بیتے واقعات اور شخصیات کے بارے میں ہمارے خیالات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ تاریخ کا جبر ہے۔ اگر کسی کے نامۂ اعمال میں کوئی اچھی بات رقم ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ ہم اس کے اعتراف پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک سبق شیخ مجیب الرحمن کی ذات میں بھی ہے۔
شیخ مجیب الرحمن‘ تاریخ کے اس تصور کے مطابق‘ جسے ریاست مانتی چلی آئی ہے‘ ایک وِلن ہیں۔ ان پر یہ الزام رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے انہوں نے بھارت سے گٹھ جوڑ کیا۔ تاریخ کی اس تعبیر کو وہ لوگ بھی مانتے ہیں جو ریاست کے تصورِ تاریخ سے فی الجملہ اختلاف رکھتے ہیں۔ جیسے جماعت اسلامی کا نقطہ نظر یہی ہے۔ یہ لوگ مجیب‘ بھٹو اور یحییٰ کو یکساں طور پر سقوطِ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
چند برس پہلے‘شیخ مجیب الرحمن کے اس کردار پر نئی بحث شروع ہوئی۔ اس کا آغاز تب ہوا جب نواز شریف صاحب پرویز مشرف صاحب کے زیرِ عتاب تھے۔ 2016ء میں‘ بلند تر آہنگ کے ساتھ‘ اس کی صدائے بازگشت گونجی۔ اس وقت سے زیرِ لب یہ کہا جانے لگا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کو ریاست کی مقتدرہ نے علیحدگی کی طرف دھکیلا‘ درآں حالیکہ وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔ اس طرح ان پر 'غدار‘ کے الزا م پر بھی سوالات اٹھائے گئے اور یہ کہا گیا کہ جب عوام نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا تو اقتدار اُن کو منتقل کر دیا جانا چاہیے تھا۔ اب یہ بحث تحریک انصاف اور عمران خان صاحب اٹھا رہے ہیں اور تاریخ کی اس تعبیر کو چیلنج کر رہے ہیں جوشیخ مجیب الرحمن کو غدار قرار دیتی ہے۔ آج حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ وہ رپورٹ‘ جو بھارت سے شائع ہوئی مگر پاکستان کی کوئی حکومت اسے آج تک منظرِ عام پر نہ لا سکی۔ شیخ مجیب الرحمن کے اس مسلسل ذکر میں بھی کیا تاریخ کاکوئی سبق پوشیدہ ہے؟
جی ہاں! وہ سبق یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ جب کسی فرد کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر عدالتوں اور سزاؤں سے اس کی سیاست کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی عصبیت کا توڑ متبادل سیاسی عصبیت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری مقتدرہ یہ بات نہیں جان سکی اور نہ سیاسی جماعتیں۔ شیخ مجیب الرحمن کا ذکر اگر آج پھر ہونے لگا ہے تو اس کا سبب یہی ہے۔
میں یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ تحریک انصاف کے دفتر پر حملے اور اسے سربمہر کرنے میں کیا حکمت تھی؟ یہی سچ ہو گا کہ یہ دفتر ایک ایسی عمارت میں قائم تھا جو ناجائز تجاوزات میں شمار ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کتنے لوگ یہ بات ماننے کو تیار ہیں؟ کیا یہی وقت تھا کہ اس باب میں قانون کی حکمرانی کا عَلم اٹھایا جاتا؟؟ اگر سیاسی بصیرت سے محرومی بھی‘ واقعات کے سوئے فہم کے ساتھ جمع ہو جائے تو پھر چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے بحرانوں میں بدل جاتے ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن کا موضوعِ بحث بننا کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے سامنے دو راستے ہیں: ہم چاہیں تو اسی حل کو اختیار کریں جو 1971ء میں اپنایا گیا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اہلِ سیاست معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ عمران خان صاحب کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ پیغام دیا جائے کہ وہ جاری سیاسی عمل کا حصہ بنیں اور اہلِ سیاست سے مذاکرات کریں۔ یہ پیغام وہی دے سکتا ہے جو وسیع تر قومی مفاد میں سوچتا ہو اور جو گروہی مفادات سے بلند ہو کر اس عَلم کو اٹھا لے۔ ریاست کو بھی سوچنا ہو گا کہ جب کوئی خود کو شیخ مجیب الرحمن سمجھنے لگے تو پھر ریاست کے پاس کیا راستہ ہوتا ہے؟ وہ راستہ تو یقینا نہیں ہونا چاہیے جو 1971ء میں اپنایا گیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved