میاں نواز شریف دوبارہ مسلم لیگ (ن) کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور چاہتے تو از خود بھی پارٹی کی صدارت سنبھال سکتے تھے‘ لیکن جمہوریت کا راستہ اختیار کیا گیا۔ نواز شریف کا دوبارہ پارٹی کی سربراہی سنبھالنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں بنے لیکن پارٹی کے ذریعے حکومتی معاملات پر نظر رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پارٹی کی سربراہی ملنے سے وہ بندھے ہوئے ہاتھ کھل گئے ہیں جن کے بندھے ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت اب تک اتنی متحرک اور سرگرم نہیں ہو سکی جتنا اسے اب تک ہو جانا چاہیے تھا۔ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ حکمرانی کی کرسی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہوتی ہے۔ پارٹی کی سربراہی کو بھی اسی زمرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود نواز شریف نے یہ ذمہ داری دلیری کے ساتھ قبول کی ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کچھ ڈلیور کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خود وزیر اعظم نہیں لیکن باقی سارے معاملات تقریباً ویسی ہی پوزیشن اور ویسی ہی صورتحال میں آ گئے ہیں‘ جہاں 2017ء میں سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ ایک بار پھر معاملات وہیں سے شروع ہو سکتے ہیں جہاں پارٹی صدارت سے علیحدہ ہونے کے وقت چھوڑے گئے تھے۔ ایک طرح سے نواز شریف ایک طرح سے چوتھی بار ہی وزیر اعظم بن گئے ہیں‘ چنانچہ وہ جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ اب ان کے ہاتھ کھلے ہیں۔ پارٹی صدر بننے کے بعد ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار کرنا ہے۔ کیا وہ اس بجٹ میں عوام کا خیال رکھ پائیں گے‘ انہیں کچھ ریلیف فراہم کر سکیں گے۔ وہ عوام جن سے ہر دور میں ہر حکومت نے قربانیاں تو مانگیں‘ ان کے ساتھ کیے گئے وعدے کبھی پورے نہیں کیے۔
چند روز میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جانے والا ہے اور لوگ حقیقتاً فکرمند ہیں کہ کیا ہو گا۔ عوام کی فکر مندی کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ مہنگائی بے تحاشا بڑھ چکی ہے‘ اتنی زیادہ کہ عام آدمی کے لیے تن و جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی فیصلوں کے نتیجے میں اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ گئیں تو کیا ہو گا؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کی خواہاں ہے جبکہ آئی ایم ایف اپنے قرض کے طور پر دیے گئے پیسوں کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کڑی شرائط عائد کر رہا ہے‘ جیسے بجلی‘ گیس اور پٹرول مہنگا کرنا‘ ٹیکس نیٹ وسیع کرنا اور اس جیسے دوسرے اقدامات جن سے ریونیو حاصل ہو۔ اب چونکہ ایسے اقدامات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر عام آدمی ہی ہوتا ہے تو ماضی کے تجربات کی روشنی میں لوگ ابھی سے خوفزدہ ہیں کہ پتا نہیں کون کون سی شرائط عائد ہوں اور پتا نہیں حکومت ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیا کیا کر دے اور یہ سب کچھ کرنے پر عام آدمی کو جانے کیا اور کتنا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ کہیں سے مزید قرض لینے کی گنجائش باقی نہیں۔ ان حالات میں حکمران پریشان ہیں یا نہیں‘ عوام بہت زیادہ پریشان ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں‘ کدھر جائیں۔
کچھ عرصہ پہلے بنائی گئی کفایت شعاری کمیٹی نے حال ہی میں اپنی سفارشات پیش کی ہیں‘ جن میں کہا گیا ہے کہ گریڈ ایک سے 16 تک کی 70 ہزار اسامیوں کا خاتمہ کر دیا جائے جو پچھلے کئی برسوں سے خالی پڑی ہیں۔ وفاقی حکومت کے80 سے زائد اداروں کی اوور ہالنگ‘ ادغام یا خاتمے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ میرے خیال میں ایسے اقدامات کا نتیجہ بے روزگاری میں اضافے کی شکل میں نکلے گا جس سے مالی مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ اصل مسئلہ سفارشات مرتب کرنا نہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کرنا یا کرانا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک سابقہ کمیٹی نے بھی کفایت شعاری کے ایسے جامع اقدامات کی سفارش کی تھی جنہیں اگر نافذ کر دیا جاتا تو زرِ تلافی کی مد میں 200 ارب روپے‘ ترقیاتی کاموں کے ضمن میں 200 ارب روپے‘ سول حکومت کے اخراجات میں 55 ارب روپے‘ خزانے کا ایک کھاتہ بنانے سے 60 تا 70 ارب روپے‘ ماحولیاتی تحفظ کی مد میں 100 ارب روپے‘ ریاستی کنٹرول میں چلنے والے کاروباری اداروں کے ضمن میں 174 ارب روپے اور غیرجنگی نوعیت کے دفاعی اخراجات کی مد میں 15 ارب روپے بچائے جا سکتے تھے‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کو سامنے رکھیں تو ابھی سے یہ پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ حال ہی میں پیش کردہ سفارشات کا بھی نتیجہ ویسا ہی نکلے گا جیسا پہلی کمیٹی کی سفارشات کا نکلا تھا۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ ہر حکومت اور ہر حکمران عوام سے قربانیاں طلب کرتا ہے اور تابناک مستقبل کے خواب دکھاتا ہے۔ لوگ قربانیاں دیتے دیتے اور سہانے خواب دیکھتے دیکھتے تھک چکے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکمرانوں کی جانب سے ان کے ساتھ درد مندی کا جو اظہار کیا جاتا ہے‘ اس کا کیا مطلب‘ مقصد ہوا کہ ان کی پریشانیاں اور مسائل تو بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ارشاد جالندھری صاحب کا ایک شعر یاد آتا ہے:
خاک تیری درد مندی خاک تیرا یہ خلوص
تو نے گر مجھے سراہا میرے مر جانے کے بعد
پہلے حوصلہ کچھ قائم تھا‘ لیکن کورونا کے بعد کی مسلسل کساد بازاری میں یہ حوصلے اب جواب دیتے جا رہے ہیں۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دہائیوں کی قربانیوں کے بعد ان کے ہاتھ کیا آیا‘ انہیں کیا ملا؟ آئندہ بجٹ کی منصوبہ بندی میں عام آدمی کی اشک شوئی کے لیے بھی کچھ ٹھوس ہونا چاہیے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں تو اضافہ ہونا ہی چاہیے‘ مہنگائی کا گراف نیچے لانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پٹرول‘ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں دباؤ ڈالا جا رہا ہے‘ لیکن میرے خیال میں اگر ان تینوں یوٹیلٹیز کے نرخوں کو ایک سال کے لیے اسی پوزیشن پر فریز کر دیا جائے‘ جہاں یہ اس وقت ہیں تو اگلے سال اسی مہینے اور اسی تاریخ تک مہنگائی کا گراف خود بخود نیچے آ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ صرف تین شعبوں پر بھرپور توجہ دی جائے تو ایک سال میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ یہ تین شعبے ہیں؛ زراعت‘ صنعت کی ترقی اور سمگلنگ کی روک تھام۔ زراعت کی ترقی ہمیں خوراک میں خود کفیل بنائے گی جس کے نتیجے میں وہ ڈالر بچیں گے جو ہر سال خوراک درآمد کرنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ صنعت کی ترقی برآمدات میں اضافے کا سبب بنے گی‘ جبکہ سمگلنگ کی روک تھام نہ صرف خوراک بلکہ ڈالرز کے غیر قانونی طور پر ڈرین آؤٹ کو بھی روکے گی۔ کیا مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب صدر حکومت کی توجہ ان معاملات کی طرف مبذول کر سکیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved