یہ باتیں جو آپ روزانہ سنتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا‘ کوئی ان پر دھیان نہیں دیتا۔ پہلے تو اس قبیل کی سمجھ داری کے حامل حکمرانوں سے یہ پوچھا جائے کہ دنیا کا کوئی ملک تو بتائیں جو تاریخ میں دیوالیہ ہوا ہو؟ کوئی ملک اگر داخلی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کی وجہ سے بیرونی قرضے وقت پر ادا نہیں کر سکتا تو قرض خواہ ادارے اور ملک کوئی فوج کشی نہیں کرتے‘ اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں اور ادائیگی میں تنگی کے بجائے سہولت دیتے ہیں۔ یہ بھی گزارش کرنا ضروری ہے کہ آخر آپ نے ابھی تک کون سی حکومتی یا اقتضادی اصلاحات کی ہیں جن کی وجہ سے ہم ''دیوالیہ‘‘ ہونے سے بچ گئے ہیں؟ سوائے نوکر شاہی میں اپنے بندوں کو اہم عہدوں پر فٹ کرنے‘ مخلص فرمانبرداروں کو نوازنے اور پیشہ ور سرکاری افسران کو کونے میں لگانے کے علاوہ ہم نے تو کوئی اصلاحات نہیں دیکھیں۔ قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں‘ ریاستیں طاقتور یا کمزور ہوتی ہیں‘ مگر دیوالیہ ہونے کی باتیں ہمارے ملک کے بارے میں صرف حکمران سیاستدان اور ان کے کارندے ہی کرتے ہیں۔
ریاسست کی تعمیر وترقی اور اس کا بگاڑ اور زوال اصل میں حکومتوں کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ معاشرہ سب انسانوں‘ شہریوں‘ دیہاتیوں اور سب جغرافیائی اکائیوں اور لسانی گروہوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسے بھی ریاست کی طرح حکومتیں سنبھالتی‘ سنوارتی یا تباہ کرتی ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کی حکومتیں چند مخصوص سیاسی خاندانوں اور ان کے سرپرستوں کے ہاتھ میں رہی ہیں‘ جن کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ہمیں ہمت نہیں۔ یہ وہ ملک نہیں جو ہم نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں دیکھا تھا۔ گزشتہ کالم میں اس دور کے کچھ سیاستدانوں اور اپنے چند مشاہدات کا ذکر کیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اس کے تین کرداروں‘ سیاسی اور دیگر وغیرہ کا سب کو معلوم ہے‘ مگر ان میں سے ایک کے بارے میں آج بھی بات کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ کیوں؟ ''بت تراش‘‘ بہت مضبوط ہیں‘ اور حکمرانوں کی گدیوں اور اگلی نسل تک منتقلی کے لیے جو ضروری سیاسی اور معاشی بندوبست کیے گئے ہیں‘ ان کی طاقت کا اگر کسی کو اندازہ نہیں تو آٹھ فروری اور اس کے بعد ملک میں حکومت سازی‘ عہدوں کی تقسیم اور عدالتوں اور احتساب کے اداروں کے بارے میں بدلتے قوانین پر نظر ڈال لیں۔
وطن عزیز کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ عزیز کا لفظ ارادتاً استعمال کرتا ہوں کہ اس کے بغیر ہم کیا ہیں‘ اور ہمارا کیا ہو گا؟ ہم کہیں اور جا سکنے کی استطاعت کے باوجود اس خاک پاک میں آسودہ ہیں۔ لیکن افسوس کہ حکومتیں صرف آج نہیں‘ گزشتہ پچپن سالوں سے جن کے ہاتھ میں رہی ہیں‘ انہوں نے وہی کام کیا ہے جو ہم پرائمری سکول کی کتاب میں ایک احمق کی کہانی میں پڑھتے تھے کہ جو شاخ پر بیٹھ کر اسی درخت کو تنے سے کاٹ رہا تھا۔ یہ اب ایک شاخ کی بات نہیں‘ ڈر ہے کہ پورے درخت کا معاملہ ہے۔ حکومت کا نظام تو پہلے ہی بگڑ چکا تھا‘ جب غلام محمد‘ اسکندر مرزا اور اُس وقت کی عدالت عظمیٰ نے پارلیمان کی تحلیل اور آئین بن جانے کے بعد اس کے نفاذ اور اس کے مطابق انتخابات کرانے میں گٹھ جوڑ کیا تھا۔ اداروں کے درمیان آئینی اختیارات کی تقسیم‘ حدود وقیود اور عوامی نمائندگی کے اصول پامال ہو چکے تھے۔ ہم ہر نئی آنے والی حکومت کی طرف دیکھنے لگے کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں لیکن سب نے خوب فنکاریاں دکھائیں۔ سب انقلاب کی باتیں کرتے رہے‘ ہماری اور ملک کی تقدیر بدلنے کے داعی رہے‘ خوش حالی اور ترقی کے خواب دکھاتے رہے‘ جب رخصت ہوئے تو سرکاری فائلوں میں بند کاغذوں اور کچھ لوگوں کے دل میں اس وقت کے جبر اور خوف کی چھپی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ ہمارے دل میں اب وہ نرمی نہیں رہی کہ لوگوں اور ملک کے دکھوں پر اس طرح آنسو بہائیں‘ جو کچھ تاریک ادوار میں بہائے تھے۔ اب آپ کی طرح ظلم دیکھنے اور برداشت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب تو تختِ لاہور نے نیا فرمان جاری کر دیا ہے کہ بہتر ہے کہ آپ خموش رہیں‘ کوئی ایسی بات نہ کریں جس کا ثبوت آپ کے پاس نہ ہو۔ ہم نے تو کبھی بھی شواہد اکٹھے کیے بغیر کوئی بات کبھی کی ہے نہ لکھی ہے‘ لیکن آپ خود سیانے ہیں۔ بتائیں کہ ملک میں تیار گندم کی فصل کاٹنے کے وقت یہ پنتیس لاکھ ٹن گندم کی درآمد کے لیے ہم کہاں سے ثبوت حاصل کریں؟ بات تو یہ ہے کہ گزشتہ ادوار اور موجودہ حکومتوں کی کارکردگی کے ثبوت ہمارے گندم کے کھیتوں کی طرح‘ سب کے سامنے ہیں۔ حکمران چاہتے ہیں کہ ان کی من مانیوں کے سامنے سب خموش رہیں‘ صرف وہی زبان کھولیں جو ان کی تعریف کریں۔
ہماری حکومتوں کے دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ یہ زبان بندی ہی ہے۔ آزادی کے بعد ریاست کو مضبوط کرنے اور قوم سازی کے نام پر جوکھیل اس ملک میں کھیلا گیا‘ اس کے ہر سیزن کے اختتام پر جب کھلاڑی میدان سے رخصت ہوئے‘ تو ہمیں فسطائیت اور خفیہ خزانوں کے آثار ملے۔ جب کبھی حکومت تبدیل ہوتی تو اپنے دیہات میں اکثر پرانے لوگ ملنے آتے اور سوال کرتے کہ بتائیں جو نیا بادشاہ آیا ہے‘ وہ انصاف قائم کرے گا‘ چوری ختم ہو گی‘ لوگ امن سے رہیں گے؟ آج کے زمانے میں وہ پرانے لوگ اور ان کی وہ باتیں جب یاد کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم صرف ایک ہی وقت کی لپیٹ میں ہیں‘ جو تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کی وجہ آپ کو بھی معلوم ہے‘ مگر مضمون کی تشریح کے لیے بتائے دیتا ہوں۔ کئی ادوار میں تو حکومت بنانے کے عمل میں عوام کو شامل ہی نہیں کیا گیا‘ کہ عام لوگوں کو کیا پتا کہ قابل‘ مخلص اور ایماندار نمائندے کون ہوتے ہیں۔ اچھی حکومت کو چلانے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے جب ایسے لوگ ریاست کے اداروں میں موجود ہیں تو جمہوریت کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی بیانیہ عام تھا اور ہے‘ کہ عوام کو تو کوئی بھی بے وقوف بنا کر ان کا ووٹ لے سکتا ہے۔ اس لیے ''ریاست بچائو‘‘ سیاست تو آنی جانی چیز ہے۔
مغرب اور مشرق کے جن ممالک نے حکومت کو عوامی رائے کے مطابق چلانے کا راز پا لیا‘ وہ ترقی کی منازل طے کر چکے ہیں۔ عوامی رائے کا مطلب پاپولزم نہیں ہے‘ جو مفت آٹا‘ لیپ ٹاپ اور دیگر لیپا پوتیوں کی صورت نظر آتا ہے‘ بلکہ عوام کے ووٹ‘ نہ کہ طاقت کے کھوٹ سے حکومت قائم ہوتی ہے۔ قانون کی حکمرانی‘ آزاد عدلیہ اور میڈیا کی حقیقی آزادی جوابدہ اور ذمہ دار حکومت کو ممکن بناتے ہیں۔ ہم نے اس نوع کے حکومتی درخت کی سب شاخیں اپنے اپنے مخصوص مفادات کے تقاضوں کے تحت کاٹ کر سستے تنوروں کو چلانے کے لیے جلا ڈالی ہیں۔ حکومتیں جس انداز میں بنتی‘ گرتی اور بگڑتی رہی ہیں‘ اس سے ریاست‘ معاشرہ اور ہم سب مجموعی طور پر کمزور ہوئے ہیں۔ لاہور سے تازہ بیان ہی دیکھ لیں کہ کاشتکار سے گندم اس لیے نہیں خریدی کہ اس میں گھپلے ہوتے تھے۔ اب کیا کہیں کہ جب ان کے مطابق یہ گھپلے ہوتے تھے تو پنجاب میں حکومتیں کس کی تھیں؟ ابھی تک ان گھپلوں میں ملوث ذمہ داروں کا تعین ہوا ہے‘ یا کسی کو سزا ملی ہے تو ہمیں پتا نہیں۔ ہر طرف‘ ہر شہر‘ ہر گائوں اور ہر ضلع میں حکومتوں کی کارکردگی کا دیوالیہ پن دل میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ یہ حکومتیں نہ ہماری تھیں نہ اب ہیں‘ جن کی ہیں‘ وہ جانیں اور ان کا کام۔ ہم اپنی گواہی دیتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved