تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     01-06-2024

چاہِ یوسف سے صدا

سابق وزیراعظم‘ آج کے چیئرمین سینیٹ اور چند روزہ قائم مقام صدرِ پاکستان جناب یوسف رضا گیلانی باذوق آدمی ہیں۔ وہ مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے جرنلزم میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ ہر صاحبِ ذوق جب پسِ دیوارِ زنداں جاتا ہے تو وہاں سے رہائی پر اپنے ساتھ اپنی کوئی چھوٹی بڑی تصنیف ضرور لاتا ہے۔ جناب یوسف رضا گیلانی جیل کی یادگار کے طور پر اپنی ایک خود نوشت ساتھ لائے تھے۔ اس کتاب کو پڑھے لکھے سیاستدانوں میں ہی نہیں‘ ادب و سیاست سے دلچسپی رکھنے والے قارئین میں بھی بہت پذیرائی ملی تھی۔ ان کی خود نوشت کا ٹائٹل ہے ''چاہِ یوسف سے صدا‘‘۔ کتاب کے آغاز میں گیلانی صاحب نے جو اشعار تحریر کیے ان کے ایک ایک لفظ سے قفس میں قید طائر کی آزادی کے لیے تڑپ جھلکتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا‘ حدِ نگاہ سے آگے دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا‘ عقیدوں اور یقینوں سے آگے سوچنا بھی جرم ہے
'کیوں‘ بھی کہنا جرم ہے 'کیا‘ بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی اجازت تو ہے مگر
زندگی کے لیے 'کچھ اور بھی‘ درکار ہے
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست!
اے خداوندانِ ایوانِ عقائد
زندگی کے نام پر بس اک اجازت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے
آج گیلانی صاحب آزاد دنیا میں اپنے بیان کردہ تمام جرائم کے بخوشی ''مرتکب‘‘ ہو رہے ہیں اور ایک قیدی کی زندگی کیلئے کچھ ''اور بھی درکار‘‘ کو اسی طرح بھول گئے ہیں جیسے حضرت یوسفؑ کی جیل کا ساتھی کئی برس تک ان سے کئے ہوئے وعدے کو بھولا رہا۔
پہلے نیب میں تین ماہ تک کے جسمانی ریمانڈ کا قانون ہوا کرتا تھا جسے پی ڈی ایم والی اسمبلی نے بدل کر صرف 14دن کر دیا تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ یوسف رضا گیلانی جیسا آزادی کا متوالا اور قیدیوں کے حقوق کا رکھوالا نیب ریمانڈ کو ایک بار پھر 14روز سے بڑھا کر 40روز ''بقلم خود‘‘ کیسے کر سکتا ہے؟ اس سے بڑی حیرت ناک بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں جن جماعتوں نے نیب کے قوانین میں جو ترمیم کی تھی آج وہی جماعتیں کسی فوری ضرورت کی بنا پر اپنے ہی لکھے پر خطِ تنسیخ کیوں پھیر رہی ہیں؟ اس پر مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام قائدینِ کرام مہر بلب ہیں مگر ہمارے دوست اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق اپنے لبوں کو مصلحت کے تالے نہ لگا سکے۔ انہوں نے نیب کے 40روزہ ریمانڈ کے قانون کو نہایت افسوسناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ مختلف سویلین اور غیر سویلین آمروں نے اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔قائمقام صدر نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ الیکشن ٹریبونل آرڈیننس بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کی منظوری کے بغیر الیکشن کمیشن جس ریٹائرڈ جج کو چاہے اسے ''مسندِ انصاف‘‘ پر بٹھا دے۔ ہماری معلومات کے مطابق اس آرڈیننس کے ذریعے پہلی مرتبہ عدلیہ سے اختیار لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے۔
اُدھر وزیراعظم شہباز شریف بھی ان دنوں افہام کی نہیں انتقام کی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ دو تین روز قبل تلخ نوائی میں انہوں نے تمام حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ انہوں نے ججز کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں ویسے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جیسے ماضی میں جسٹس شوکت صدیقی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ میاں صاحب کے ان غیرمحتاط ریمارکس پر سپریم کورٹ کے فاضل ججز نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں ہیں۔ اگر وزیراعظم کو لگتا ہے کہ یہاں کوئی کالی بھیڑیں ہیں تو ان کے خلاف ریفرنس لے آئیں۔ ہمارے سیاستدان قید خانے میں یا ''آزاد دنیا‘‘ میں اگر بولنے سے پہلے اپنی بات کو تول بھی لیا کریں تو بہت سے مصائب سے وہ بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور ملک بھی۔ جناب وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا کہ ''خوشحالی اور ترقی نہ آئی تو کوئی جج ہوگا نہ سیاستدان‘‘۔ ہمارے حکمرانوں کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ خوشحالی آسمانوں سے من و سلویٰ کی شکل میں تو نہیں اُترے گی اس کے لیے سازگار حالات کا ہونا بھی از بسکہ ضروری ہے۔ سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو خوشحالی کیسے آئے گی۔
دوسری طرف اگر ملکی معیشت کی بات کی جائے تو ان دنوں متحدہ عرب امارات کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ہمارے حکمران گزشتہ کئی برس سے جب بھی سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کے دورے سے واپس آتے ہیں تو بہت بڑی سرمایہ کاری کی توقع قائم کر لیتے ہیں‘ مگر عملاً کچھ بھی نہیں ہوتا اور ساری امیدوں پر اوس پڑ جاتی ہے ۔ ہمارے حکمران یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے عرب ہمیں بھائی اُمید تو دلاتے ہیں مگر سرمایہ کاری کی طرف کیوں نہیں آتے؟ ہمارے ان دوستوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ جس ملک میں امن و استقرار نہ ہوگا‘ جہاں سیاسی افراتفری ہو گی‘ جہاں افراد ہی نہیں ادارے بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں گے وہاں کون سرمایہ کاری کرے گا؟دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سعودی دوست خوب سوچ سمجھ کر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ وہ وہاں سرمایہ لگاتے ہیں جہاں سے بہت بڑا اور فوری منافع یقینی ہو۔ ہم اُن سے زراعت اور معدنیات میں انویسٹمنٹ کی بات کرتے ہیں۔ ان شعبوں سے فوری طور پر کوئی بڑا منافع ممکن نہیں۔ سعودی عرب کی آرامکو کمپنی اور ابوظہبی نے مل کر انڈیا میں ایک میگا ریفائنری کے لیے 44بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہم نے جو منصوبے اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کئے ان کی فزیبلٹی میں بھی کئی سقم بتائے جاتے ہیں۔
ہمارا ایٹمی قوت ہونا یقینا ایک بڑی کامیابی ہے۔ فضا میں بھیجا جانے والا دوسرا پاکستانی سیٹلائٹ بھی ایک اور سنگِ میل عبور کرنے کے مترادف ہے مگر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہماری اس وقت دنیا کے سامنے کیا تصویر ہے۔ جگہ جگہ گرمی کی شدت سے تڑپتے ہوئے شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق تقریباً چالیس فیصد ملکی آبادی خطِ غربت سے نیچے نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ حکمران اور سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں۔
اُدھر مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت ہتکِ عزت بل صوبائی اسمبلی سے منظور کروا چکی ہے۔ ورکنگ جرنلسٹس اور انگریزی و اردو اخبارات کے ایڈیٹرز کی تنظیمیں اس بل کو جمہوریت دشمن قرار دے چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا کل تک میڈیا و عدلیہ کی جس شاخ پر بسیرا تھا‘ آج وہ ''باغباں‘‘ بنتے ہی نجانے اس شاخ کو کاٹنے پر کیوں تلی ہوئی ہے؟یوں لگتا ہے کہ حکمران دانستہ یا نادانستہ جمہوری و شخصی آزادیوں کا ایک ایک دروازہ اپنے ہاتھوں سے بند کرتے اور بگٹٹ آمریت کی بند گلی کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ یہ تو ترقیٔ معکوس ہے۔ 28مئی کو میاں شہباز شریف نے جو کہا تھا کہ خوشحالی نہ آئی تو کوئی جج ہوگا نہ سیاستدان‘ اس قول میں یوں تبدیلی کر لیجئے کہ سیاسی استحکام کے بغیر خوشحالی کا آنا ممکن نہ ہوگا۔
قید خانے آج بھی موجود ہیں اور چاہِ یوسف سے صدا بھی آ رہی ہے مگر نہ جانے کیوں صاحبِ کتاب جناب یوسف رضا گیلانی کو یہ شعر سنائی نہیں دے رہا:
سانس لینے کی اجازت تو ہے مگر
زندگی کے لیے 'کچھ اور بھی‘ درکار ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved