جب ایک غلطی کو دہرایا جائے تو وہ بڑی غلطی یعنی بلنڈر بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ غلطی کرنے والے کو انحراف کا ہی احساس نہیں اور یا یہ کہ وہ خود کشی کرنے پر تلا ہوا ہے اور جب غلطی پوری قوم سے سرزد ہو اور اس کی تکرار بھی وہ قوم کرے تو صورت حال اور بھی گمبھیر ہو جاتی ہے۔ تو آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم نے کن کن قومی غلطیوں کو دہرایا ہے۔
1965ء کے آغاز میں صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت اور صدر ایوب آمنے سامنے تھے۔1962ء کے آئین کے مطابق الیکشن سے پہلے صدر کو اپنا عہدہ چھوڑ کر اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنا تھا‘ تاکہ الیکشن شفاف اور آزادانہ ہو۔ ایوب خان کو ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے نتائج ''حسبِ منشا‘‘ نہیں آئیں گے ؛ چنانچہ آئین میں ترمیم کی گئی۔ مشرقی پاکستان میں مارشل لاء کی واضح مخالفت تھی ‘لہٰذا مادرِ ملت کے لیے ووٹرز کی ہمدردی نمایاں تھی۔ شیخ مجیب الرحمن خود محترمہ فاطمہ جناح کے بڑے سپورٹر تھے۔ الیکشن میں دھاندلی کرکے ایوب خان کو جتوایا گیا اور اس کے بعد دھاندلی کی بازگشت تقریباً ہر الیکشن میں سنی گئی۔ ماسوائے 1970ء کے انتخابات کے۔1965ء کے صدارتی الیکشن میں کی گئی دھاندلی سے مشرقی پاکستان میں یہ احساس عام ہوا کہ عوامی ووٹ کی عزت نہیں‘ اصل فیصلے بالا بالا ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بو دیا گیا جو چھ سال میں تناور درخت بن گیا لیکن الیکشن میں دھاندلی کا بلنڈر جاری رہا۔
سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے کہ بادی النظر میں 1970ء کے الیکشن ہمارے سب سے شفاف اور آزادانہ انتخابات تھے لیکن ماسوائے خان عبدالولی خان‘ مغربی پاکستان کے کسی بڑے لیڈر نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان اُس وقت آبادی کے لحاظ سے مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔ اگر ہماری سوچ ذرا بھی جمہوری ہوتی تو ہم اکثریت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کر دیتے لیکن ہم نے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور ملک دولخت ہو گیا۔ مگر اس سے بھی بدتر امر یہ ہے کہ بعد میں بھی ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ تقریباً ہر الیکشن کے بعد لگا اور مشرقی پاکستان میں کی گئی غلطی اب بلنڈر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس سے قومی یکجہتی کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔1958ء میں ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو مغربی پاکستان میں عوام نے مسرت کا اظہار کیا جبکہ مشرقی پاکستان میں صورتحال مختلف تھی۔ بنگالی بھائی سیاسی سوچ میں ہم سے آگے تھے۔ یہ ایوب خان کا مارشل لاء ہی تھا جس کی وجہ سے حکومتی اختیارات مرکز کو شفٹ ہوئے اور مرکز مغربی پاکستان میں تھا‘ لہٰذا مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی بڑھنے لگا اور یہ وہی بنگال تھا جس نے تحریکِ پاکستان میں فعال کردار ادا کیا تھا اور یہ وہی بنگال تھا جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
اگر 1958ء کا مارشل لاء غلطی تھی تو یحییٰ خان کا مارشل لاء بلنڈر تھا۔ اور یہی بلنڈر ہم نے 1977ء اور 1999ء میں تواتر سے کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایم آر ڈی کی تحریک چلی جو سندھ کی سیاسی بے چینی کی غماز تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بلوچستان میں مرکز مخالف رجحان بڑھا۔ بطور قوم ہمیں معلوم ہے کہ مارشل لاء ہمارے مسائل کا حل نہیں مگر ہم وہ غلطی بلکہ بلنڈر دہراتے رہے۔
پاکستان میں نظریۂ ضرورت جسٹس محمد منیر نے ایجاد کیا تھا‘ لیکن اس کے بعد بھی ہم نے اس روش کو تبدیل نہیں کیا اور پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد تو اس نظریے کو مزید فروغ ملا۔ نظریۂ ضرورت صریحاً آئین شکنی ہے مگر پرویز مشرف کو تو اعلیٰ عدلیہ نے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی تفویض کر دیا تھا۔ یہ جمہوری اقدار کا قتل بھی تھا اور ہماری کوتاہ نظری کا واضح ثبوت بھی۔ اور مستزادیہ کہ ایک بڑی سیاسی جماعت نے پرویز مشرف کے مارشل لاء کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور اسی جماعت کا نعرہ ہے کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ آج وہی سیاسی جماعت ایک اور مقبول سیاسی پارٹی کی دشمنی میں پرانے حریفوں سے شیر و شکر نظر آتی ہے۔ جس پارٹی نے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ایجاد کیا تھا وہ یہ نعرہ بھول گئی ہے‘ اب یہ نعرہ اُس پارٹی کا اثاثہ بن چکا ہے جو فارم 45اور فارم 47کے تضادات اجاگر کر رہی ہے۔ یعنی کردار بدل گئے ہیں لیکن سیاست کا پرانا کھیل جاری ہے۔
یادش بخیر تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ایک بادشاہ گر (King maker)پر الزام لگا تھا کہ اس نے اپنے اثر و رسوخ سے چینی برآمد کرائی۔ نرخ بڑھ گئے‘ میڈیا میں شور مچا تو چینی درآمد کی گئی۔ اس طرح نہ صرف قومی نقصان ہوا بلکہ عوام کو خواہ مخوا پریشان کیا گیا۔ اب ہم نے وہی غلطی گندم کے ضمن میں دہرائی ہے۔ بس ڈرامے کے کردار تبدیل ہو گئے ہیں۔ یعنی اس بار بلا ضرورت گندم درآمد کی گئی۔ درآمد کنندگان نے منافع کمایا اور عام ملکی کسان اپنی گندم اونے پونے بیچنے پر مجبور ہے۔
کراچی ہمارا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں مسائل کی بھرمار ہے۔ یہاں امن و امان کی صورتحال خراب رہتی ہے۔ بھتہ خوری ایک زمانے میں عروج پر تھی۔ سٹریٹ کرائم اب بھی موجود ہے۔ ہم نے غلطی یہ کی کہ تعلیم اور صحت کے بڑے بڑے ادارے سب کراچی اور لاہور میں بنا دیے۔ شہر بہت بڑے ہو جائیں تو نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ چند سالوں میں لاہور‘ قصور‘ شیخوپورہ اور گوجرانوالہ ایک ہی شہر تصور ہوں گے اور یہ شہر کراچی سے بھی بڑا ہوگا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی والا خوبصورت لاہور آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ باغات کا یہ شہر کنکریٹ کا جنگل بن جائے گا‘ بلکہ بن چکا ہے۔ عنقریب یہاں ہر طرف ٹریفک کا رش ہوگا اور آلودگی بھی مزید بڑھے گی۔ کراچی کا بے ہنگم پھیلائو ہماری غلطی تھی اور لاہور کا کنکریٹ جنگل بن جانا ہمارا بلنڈر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاہور میں گرمی بھی سخت پڑتی ہے اور سردی بھی شدید ہوتی ہے۔
1990ء کی دہائی میں انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدے چند خاندانوں کو بہت راس آئے؛ چنانچہ ہماری لیڈر شپ نے تربیلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم مکمل نہیں کیا۔ پرائیویٹ کمپنیوں سے مہنگی بجلی خریدنا غلطی تھی تو ڈیم نہ بنانا بلنڈر تھا۔ 1960ء کی دہائی کے بعد ہمارا فیملی پلاننگ پروگرام غیر فعال ہو گیا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد فیملی پلاننگ صوبائی معاملہ ہے اور قومی محصولات میں صوبوں کو حصہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملتا ہے اور وسائل کی تقسیم میں صوبائی آبادی اہم فیکٹرہے‘ لہٰذا صوبوں کو کیا پڑی ہے کہ اپنی آبادی کم کریں؟ صوبائی خود مختاری اچھی چیز ہے لیکن 2010ء میں جس طرح بغیر کسی قومی مشاورت کے اسے لاگو کیا گیا‘ وہ بلنڈر تھا۔ صوبے نئی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار نہیں تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved