پاکستانی ریاست میں دھینگا مشتی ایک بار پھر عروج پر ہے۔ تاریخ سے اپنے اپنے مطلب اور معانی نکالے جا رہے ہیں۔ پھبتیاں کسی جا رہی ہیں‘ طعنے دیے جا رہے ہیں لیکن سبق حاصل کرنے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو دھمکایا جا رہا ہے۔ ادھورا سچ بولنے کو کمال سمجھ لیا گیا ہے۔ پورا سچ کوئی بول رہا ہے نہ سننے پر آمادہ۔ کہیں شیخ مجیب الرحمن کو ہیرو بنایا جا رہا ہے تو کہیں ذوالفقار علی بھٹو کے گُن گائے جا رہے ہیں۔ اپنے حریفوں کو یحییٰ خان بنایا جا رہا ہے۔ عمران خان اور اُن کے اندھا دھند پیروکار حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی اشاعت کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ اس کے تحت مقدمات چلانے کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت بنا رہے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب اور وجوہات کی تلاش پر مامور کیا جانے والا یہ کمیشن ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد قائم کیا تھا۔ اس کی سربراہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن کر رہے تھے جبکہ دوسرے دو ارکان میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شیخ انوار الحق اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس طفیل علی عبدالرحمن شامل تھے۔ بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) الطاف قادر کو اس کمیشن کا ملٹری ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا۔ اس نے شبانہ روز محنت کے بعد جو رپورٹ مرتب کی تھی اُسے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے شائع کیا‘ نہ جنرل ضیاء الحق نے۔ محمد خان جونیجو کو اس کی توفیق ہوئی‘ نہ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان میں سے کسی کو۔ جن جرنیلوں پر مقدمات چلانے کی سفارش کی گئی تھی‘ وہ آزاد پھرتے رہے۔ دنیا سے رخصت ہوئے تو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کر دیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اس رپورٹ کے مندرجات بھارت میں چھپے تو یہاں بھی اسے عام کر دیا گیا۔ یہ رپورٹ بڑے سائز کے 545 صفحات پر مشتمل ایک کتاب کی صورت میں لاہور ہی کے ایک اشاعتی ادارے نے شائع کر رکھی ہے۔ عمران خان صاحب کو اپنے دورِ اقتدار میں اس کی یاد نہیں آئی‘ انہوں نے اس کا مطالعہ کر کے کوئی اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب جبکہ وہ حوالۂ زنداں ہیں‘ اس رپورٹ کی یاد ستا رہی ہے۔ کاش کہ اُس کمیشن کی سفارشات کا جائزہ بروقت لیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو شاید ہم اپنے نظم اجتماعی کو متوازن بنانے میں کامیاب ہو جاتے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے قریباً سارے کردار اب قصۂ ماضی بن چکے‘ وہ منوں مٹی کے نیچے سو رہے ہیں‘ اور ہمارے رہنما ہیں کہ کرید‘ پڑتال کا قومی فریضہ انجام دینے بیٹھ گئے ہیں۔
جنرل یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو اس سانحے کے تین ایسے کردار ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہوتا تو اسے ٹالا جا سکتا تھا۔ اگر جنرل یحییٰ خان اقتدار نہ سنبھالتے‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کی قومی اسمبلی کو 1962ء کے دستور میں ترامیم کر کے اسے 1956ء کے دستور کا قالب عطا کرنے دیتے تو تاریخ مختلف ہوتی۔ اقتدار سنبھال لیا تھا تو دستور سازی کے چکر میں نہ پڑتے‘ 1956ء کا دستور بحال کر کے انتخابات کرا دیتے تو بھی معاملہ مختلف ہوتا‘ یہاں تک کہ اپنی قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ کرتے تو بھی وہ کچھ نہ ہوتا جو بعد میں ہوا اور بحیثیت قوم ہمارے ماتھے پر کلنک کا ایسا ٹیکہ لگ گیا‘ جو مٹائے نہیں مٹ رہا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا ایوانِ اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد ایک مجلس میں ایڈیٹر ''نوائے وقت‘‘ مجید نظامی مرحوم سے ٹاکرا ہو گیا۔ روزنامہ نوائے وقت 1962ء کے دستور کا سخت ناقد تھا۔ ایوب خان کے مسلط کردہ صدارتی نظام اور بالواسطہ انتخابات کی جگہ پارلیمانی نظام اور بالغ رائے دہی کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔ اس اخبار کے اداریے حزبِ اختلاف کی آواز تھے۔ مجیب‘ بھٹو کشمکش زوروں پر تھی۔ ایوب خان نے نظامی صاحب سے طنزیہ کہا: دیکھ لی اپنی جمہوریت؟ انہوں نے تُرت جواب دیا: میری جمہوریت نہیں‘ یہ تو آپ کی آمریت کا تسلسل ہے۔ اگر آپ دستور کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کو اقتدار منتقل کرتے تو پھر یہ سوال مجھ سے کر سکتے تھے۔ آپ نے تو اپنے ہی دستور کو سبوتاژ کر کے مارشل لاء لگا دیا‘ اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا‘ میری جمہوریت سے جواب طلب کیسے کر سکتے ہیں آپ؟ فیلڈ مارشل اس پر کھسیانے ہو کر ر ہ گئے۔ اگر شیخ مجیب الرحمن ایوب خان کی بلائی ہوئی گول میز کانفرنس کو ناکام نہ بناتے‘ بھارت کے ساتھ ساز باز نہ کرتے اور دستور سازی میں تمام صوبوں کو شریک کرنے پر آمادہ ہوتے تو یحییٰ خان کو فوجی کارروائی کی جرأت نہ ہوتی۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو آئین سازی اور حکومت سازی کے درمیان تفریق پر زور دیتے‘ اکثریتی پارٹی کا اقتدار پر حق تسلیم کر لیتے‘ اس سے اختلاف کو دستوری نکات تک محدود رکھتے تو بھی حالات وہاں نہ جاتے جہاں چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے اقتدار پر اپنا حق اس طرح جتایا کہ دستور سازی ماند پڑ گئی اور یہ تاثر گہرا ہو گیا کہ شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سقوط ڈھاکہ ان تینوں کرداروں کی اجتماعی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اگر کوئی چوتھا کردار ہے تو وہ مسز اندرا گاندھی کا ہے‘ اگر بھارت اچھے ہمسایے کی طرح غیر جانبدار رہتا‘ پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہ کرتا‘ پہلے سازش اور بعد ازاں ننگی جارحیت کا مرتکب نہ ہوتا تو بھی آج نقشہ مختلف ہوتا۔
سارک کے اختتامی اجلاس کی کوریج کے لیے جب مجھے ڈھاکہ جانے کا موقع ملا تو بنگلہ دیش کے سابق صدر مشتاق خوندکر سے بھی ملاقات نصیب ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب اندرا گاندھی قتل ہوئیں تو ''بنگلہ دیش آبزرور‘‘ (ڈھاکہ کا ممتاز ترین انگریزی اخبار جو پہلے ''پاکستان آبزرور‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا) کے صفحہ اول پر تین تصاویر چھاپی گئی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی... کہ تینوں کو غیر فطری موت نصیب ہوئی تھی۔ خوندکر صاحب کا کہنا تھا کہ یہ اخبار چند ہی لمحوں میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔ سارا دن لوگ اس کی کاپی ڈھونڈتے رہے۔ گویا ڈھاکہ کے باسیوں نے زبانِ خاموش سے گواہی دے دی تھی کہ اُن کے پاکستان کا خون کس کس کی گردن پر ہے۔
عمران خان کے بعض کوتاہ اندیش مداحوں کو انہیں شیخ مجیب الرحمن بنانے کا شوق چرایا ہوا ہے‘ وہ بیرون ملک بیٹھ کر اُن کا ایکس (ٹویٹر) اکائونٹ چلا رہے ہیں یا اندرون ملک موجود ہیں‘ انہیں اپنے اوپر نہیں تو اپنے لیڈر ہی پر رحم کھانا چاہیے۔ عمران خان شیخ مجیب بنیں نہ ذوالفقار علی بھٹو‘ وہ عمران خان رہیں۔ اگر واقعی اونچا ہونا چاہتے ہیں تو نیلسن منڈیلا بن جائیں۔ اپنی قوم کو جوڑیں‘ یک جان کریں۔ منڈیلا نے برسوں قید کاٹ کر بھی اپنے آپ کو نفرت اور انتقام کے جذبات سے آلودہ نہیں ہونے دیا تھا۔ گوروں اور کالوں کو ایک ساتھ بٹھا کر جنوبی افریقہ کو توانائی عطا کر دی تھی‘ عمران خان بھی پاکستانی قوم اور اس کے اداروں کو یک جان کریں‘ انہیں دستور کے دائرے میں رہنے پر مجبور کریں۔ شیخ مجیب الرحمن کو اُن کی اپنی فوج نے ہلاک کر ڈالا تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو عدلیہ کے ہاتھوں تختۂ دار پر لٹکنا پڑا تھا۔ اگر وہ دونوں ضد پر نہ اڑتے تو غیر فطری انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ انہوں نے جس اقتدار کی خاطر جمہوری اصول قربان کر دیے تھے‘ بالآخر وہی جان لیوا ثابت ہوا۔ آج اُن کے حامی جو بھی دعوے کرتے رہیں‘ جو بھی گن گاتے رہیں اور اپنے مخالفوں کا جو بھی نام دھرتے رہیں‘ وہ عبرت انگیز انجام کا لگا ہوا داغ نہیں دھو سکتے۔ عمران خان صاحب آگے بڑھیے‘ تاریخ کو بدل دیجیے‘ نئی تاریخ رقم کیجیے‘ سیاست کا ''ورلڈ کپ‘‘ جیت لیجیے ؎
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
''ہم‘‘ وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved