جون کے مہینے میں ملک میں نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ ماہِ جون شروع ہو چکا ہے اور نیا بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔ ان سٹیک ہولڈرز میں عوام براہِ راست شامل نہیں۔اکثر حکومتیں بجٹ پیش کرنے کے بعد اسے عوامی بجٹ کا نام دے دیتی ہیں لیکن عوامی ردِعمل سے ایسا کم ہی محسوس ہوا ہے کہ وہ بجٹ عوام کی نمائندگی کرتا ہو۔ شنید ہے کہ آئندہ بجٹ میں بھی عوام کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے ان پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کی تیاری ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے سے زیادہ آمدن حاصل ہو سکے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ ٹیکس لگانے سے ملکی ترقی کا راستہ رُک جاتا ہے۔ یقینا یہ ٹیکس آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ پر لگائے جا رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ جس ملک کو بھی فنڈز مہیا کرتا ہے وہاں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اُس ملک کے غریبوں کا ہمدرد ہے اور غربت کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ جن ملکوں نے بھی آئی ایم ایف پروگرام لیے ہیں‘ وہاں زیادہ ٹیکس لگانے سے معاشی ترقی برُی طرح متاثر ہوئی ہے۔ ارجنٹائن اب تک تقریباً 22مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام لے چکا ہے۔ ابتدائی پروگرامز میں ٹیکس نہیں لگائے جاتے تھے لیکن 2013ء سے آئی ایم ایف نے ٹیکس بڑھانا شروع کئے ہیں جس کے نتیجے میں 2020ء میں ارجنٹائن کی شرح نمو تقریباً 10فیصد گر گئی۔ اسی طرح جمیکا نے 2016ء میں پاکستان کی طرح آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کیا اور آئی ایم ایف کی شرائط پر ٹیکسز بڑھائے۔ نتیجتاً 2020ء میں اس کی شرح نمو تقریباً ساڑھے نو فیصد گر گئی۔ تیونس نے بھی 11آئی ایم ایف پروگرامز لیے۔ 2016ء میں چار سالہ ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلیٹی پروگرام لیا۔ تیونس کو توقع تھی کہ اس سے معاشی ترقی میں اضافہ ہو گا اور نوکریاں پیدا ہوں گی لیکن جب چار سال بعد آئی ایم ایف فسیلیٹی ختم ہوئی تو وہاں بے روزگاری 15فیصد سے بڑھ کر تقریباً 20فیصد ہو چکی تھی۔ یونان بھی کئی سالوں سے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے۔یونان نے 2010ء میں دوارب ڈالرز کا آئی ایم ایف پیکیج لیا اور آئی ایم ایف کے مطالبے پر سیلز ٹیکس تقریباً پانچ فیصد بڑھایا دیا گیا۔ نتیجتاً اگلے سال یعنی 2011ء میں یونان کی شرح نمو تقریباً دس فیصد گر گئی۔
پاکستان کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف پٹرولیم مصنوعات پر تقریباً 18فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگانے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے اور امکان یہی ہے کہ یہ ٹیکس لگا دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو شرح نمو میں مطلوبہ اضافہ ہونا مشکل ہے بلکہ ممکن ہے کہ نئے آئی ایم ایف پروگرام کے خاتمے پر شرح نمو مزید کم ہو جائے۔ ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آ سکتا ہے۔ کاروباری منافع کم ہو سکتا ہے۔ تنخواہوں میں کمی ہو سکتی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت نئے مالی سال میں شرح نموبڑھا کر 3.6فیصد تک لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کیلئے اے پی سی سی(سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی) نے 30کھرب روپے بجٹ کی منظوری بھی دے دی ہے۔ حکومت کا 12کھرب 21ارب روپے کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام بھی اسی میں شامل ہے۔ زراعت میں شرح نمو کا ہدف دو فیصد‘ خدمات میں 4.1فیصد اور صنعتی شعبے میں 4.4فیصد رکھا گیا ہے۔ زبانی جمع خرچ میں شرح نمو اور ترقیاتی اخراجات بڑھانا آسان ہے جبکہ حقیقت میں اسے حاصل کرنا مشکل۔ رواں مالی سال کیلئے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ بجٹ 950ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد میں کم کرکے 717 ارب روپے کر دیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رواں مالی سال میں فنڈز کا انتظام نہیں کیا جا سکا تو آئندہ مالی سال میں ایسے کیا اقدامات کیے جائیں گے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ بجٹ میں 30فیصد اضافہ ہو سکے؟اس حوالے سے حکومت کو اپنی منصوبہ بندی واضح کرنی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے بجٹ میں ملکی آمدن بڑھانے کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ حکومتی اخراجات میں کمی لائی جائے اور بیرونی سرمایہ کاری کے راستے ہموار کئے جائیں۔ صرف ٹیکس لگا دینے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ عوام پہلے ہی اپنی بساط سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ایک پاکستانی خاندان نے رواں مالی سال کے دوران کم از کم تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہ ٹیکس کہاں اور کیسے خرچ ہوا‘ اس بارے میں عام شہری کو کوئی معلومات نہیں ہیں۔ آٹا‘ چاول‘ دال‘ چینی‘ گھی‘ پٹرول‘ پانی‘ گیس‘ بجلی سمیت تمام اشیائے ضروریہ پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اگر اسی رفتار سے نئے ٹیکس لگتے رہے تو عین ممکن ہے کہ آئندہ مالی سال میں ہر خاندان کو کم از کم تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے بدلے عوام کو کیا سہولت دی جاتی ہے‘ بجٹ میں یہ نہیں بتایا جاتا۔
اس وقت اصل مسئلہ ٹیکس اکٹھا کرنا نہیں بلکہ حکومتی اخراجات اور کرپشن میں کمی نہ ہونا ہے۔ وزیراعظم نے اگلے روز عوامی خرچے پر ''ہوم گرون اکنامک ڈویلپمنٹ پلان‘‘ نامی کمیٹی میں مزید آٹھ معاشی ماہرین شامل کر لیے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے قبل جو ماہرین اس کمیٹی میں شامل تھے اُن کے مشوروں نے ملک کو کتنا فائدہ پہنچایا؟ دوسری طرف کرپشن کی صورتحال یہ ہے کہ ایف بی آر لاہور آفس میں مبینہ طور پر ٹیکس چوری کرانے کی سہولت فراہم کرنے کے عوض ملنے والی کروڑوں روپوں کی ''سپیڈ منی‘‘ کی تقسیم پر ایف بی آر ملازمین اور افسران کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ماضی میں بھی اس قسم کی خبروں پر سخت ایکشن دیکھنے میں نہیں آئے اور اب بھی ان افسران کو سزا دینے کی بجائے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ انہیں کہیں اور ٹرانسفر کر دیا جائے گا‘ جیسا ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اپنا احتساب بھی کرے۔ اسی صورت میں عوام دوست بجٹ پیش کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کی طرف سے بجٹ میں کچھ مثبت اقدامات بھی کیے گئے ہیں جس سے غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کمی آنے کی امید ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں ایس ڈی جی کے فنڈ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ اس رقم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ رواں مالی سال میں اس مد میں تقریباً 61 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ پر براہِ راست مزید ٹیکس لگانے سے بھی حکومت نے اختلاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر ایکسچینج ریٹ پر بھی حکومت نے آئی ایم ایف سے اختلاف کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق آئندہ مالی سال کے اختتام پر ڈالر کی قیمت میں تقریباً 45روپے اضافہ ہونا چاہیے جو تقریباً 16 فیصد بنتا ہے‘ جبکہ حکومت کے مطابق 10 سے 15 روپے کا فرق آ سکتا ہے جو کہ تقریباً چار فیصد بنتا ہے۔ حکومت نے قرضوں کی ادائیگی اور دیگر حساب کتاب کیلئے نئے مالی سال میں ڈالر کی قیمت تقریباً 295روپے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر پچھلے سال کے اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو یہ ڈالر ریٹ حقیقت سے زیادہ قریب ہے۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے اختتام پر بھی ڈالر ریٹ 300روپے ہونے کی پیشگوئی کی تھی جبکہ اصل ریٹ 278روپے ہے۔ قرضوں کے بوجھ اور ڈالرز کی قلت کے باوجود حکومت ڈالر ریٹ کو مستحکم رکھنے کیلئے پُر امید ہے۔ حکومت ایسا کر پاتی ہے یا نہیں‘ اس بارے قبل از وقت کوئی دعویٰ کرنا مناسب نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved