1971ء کا سانحہ پاکستان میں ایسا ہاتھی بن چکا ہے جو اندھوں میں گھِر گیا تھا۔ ہر اندھا اپنے ''علم‘‘ کے مطابق بتا رہا تھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ جو اندھا ہاتھی کی ٹانگ کو ٹٹول رہا تھا اس کے رائے تھی کہ ہاتھی ستون کی شکل کا ہوتا ہے۔ جو ہاتھی کے کانوں کو چھو رہا تھا‘ اس کے نزدیک ہاتھی بڑے سائز کے دستی پنکھے کی طرح تھا۔ جس کے ہاتھ میں سونڈ تھی وہ کہتا تھا کہ ہاتھی پائپ کی طرح ہوتا ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ کلامِ اقبال بن کر رہ گیا ہے۔ اقبال کے پورے کلام کو‘ پوری آئیڈیالوجی کو‘ پورے نظام کو نہ پڑھا جاتا ہے نہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مولوی اپنے مطلب کے اشعار نکال لیتا ہے۔ کامریڈ وہ اشعار پیش کرتا ہے جو اسے راس آتے ہیں۔ 1971ء کے حادثے سے بھی سب اپنے اپنے مطلب کے اجزا اخذ کرتے ہیں۔ کچھ بنگالیوں کو مجرم ثابت کرتے ہیں‘ کچھ بھارت کو‘ کچھ پاکستان کی طویل آمریت کو۔ کچھ سارا الزام یحییٰ خان پر لگاتے ہیں اور کچھ جنرل نیازی پر ملبہ ڈالتے ہیں جوڈراپ سین کے وقت وہاں موجود تھا۔
اس فکری انتشار کی وجہ بدنیتی کم ہے اور جہالت زیادہ! جہالت سے ہماری مراد ناخواندگی نہیں! اس سے مراد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مکمل تاریخ سے ناواقفیت ہے! ہر سانحے اور ہر واقعہ کی پشت پر دو قسم کے اسباب ہوتے ہیں۔ اصل اسباب! اور فوری اسباب! اصل اسباب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے 24 برسوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ٹویٹ کرنے والوں اور اس پر اعتراض کرنے والوں میں سے کتنے اس تاریخ سے واقف ہیں جو 24 برسوں پر محیط ہے؟ کم! شاید بہت کم! یحییٰ خان‘ بھٹو‘ شیخ مجیب الرحمن‘ جنرل نیازی‘ مکتی باہنی اور 25 مارچ کا ایکشن‘ ان سب کا تعلق اصل اسباب سے نہیں بلکہ فوری اسباب سے تھا! 1970ء کے الیکشن سے پہلے بھی صاف نظر آرہا تھا کہ دونوں حصوں کا اکٹھا رہنا نا ممکنات میں سے تھا۔ آج کے پاکستان کے ایک الیکشن کو اور اس کے عواقب کو 1971ء کے واقعہ سے تشبیہ دینا ایک لایعنی تسہیل (over simplification) سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان سے زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوئیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسمبلی کے اجلاس کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا حماقت تھی۔ مگر شیخ مجیب الرحمن مدبر اور سٹیٹس مین ہوتے تو قتل و غارت کو روکتے‘ آئینی جدو جہد کرتے۔مکتی باہنی اور بھارتی مداخلت جیسے سہارے نہ ڈھونڈتے۔
1971ء کی مثال اس لیے بھی غلط ہے کہ اس سانحہ سے پہلے ملک پر 13 سال تک آمریت کا دور دورہ رہا جبکہ 2024ء کے الیکشن سے پہلے‘ نام نہاد سہی‘ جمہوری حکومتوں کا دور رہا ہے۔ اس جمہوری عہد میں تقریباً چار سال عمران خان کی اپنی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ بات سب مانتے ہیں کہ چار برسوں کی یہ حکومت عسکری ستونوں پر قائم رہی۔ تحریک انصاف خود بھی انکار نہیں کر سکتی کہ اسمبلیوں میں حاضری سے لے کر بِل پاس کروانے تک کے لیے ''مدد‘‘ طلب کی جاتی تھی۔ یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ 'پس پردہ‘ کون اسمبلی چلاتا رہا۔
آج ہر شخص پوچھ رہا ہے کہ سیاست میں اور سیاسی حکومتوں میں مداخلت کا خاتمہ کس طرح ہو گا؟ اس کا جواب بچہ بھی جانتا ہے۔ایک فاتر العقل انسان بھی اس کا حل بتا سکتا ہے۔ جب آپ کے قلب کے دستے رات کے اندھیروں میں جا جا کر ملاقاتیں کریں گے اور مدد طلب کریں گے تو طاقت آپ کے ہاتھ میں کس طرح آسکتی ہے؟ جس دن سارے سیاستدان‘ سو فیصد سیاستدان‘ فیصلہ کریں گے اور عہد کریں گے کہ وہ خارجی مدد طلب کریں گے نہ کوئی خارجی حکم مانیں گے تو اُس دن اصل طاقت ان کے ہاتھوں میں ہو گی۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک آمرانہ حکومتوں کو خود سیاستدانوں نے مضبوط کیا۔ ایک سیاستدان ہی تھا جس نے ایوب خان کو امیر المومنین بننے کا مشورہ دیا۔ ضیا الحق کی مجلسِ شوریٰ میں جو لوگ شامل تھے وہ آج بھی آپ کو نمایاں پوزیشنوں پرنظر آئیں گے۔ کوئی عسکری حکمران دکھاوے کی جمہوری حکومت کے بغیر نہیں چل سکتا اور یہ دکھاوے کی جمہوری حکومتیں سیاستدانوں کی مدد کے بغیر نہیں بن سکتیں۔ ظفر اللہ جمالی اور چودھری شجاعت حسین وزیراعظم بننے سے انکار کر دیتے! فتح جنگ کے حلقے سے شوکت عزیز کو کیا سیاستدانوں نے نہیں منتخب کرایا! کیا وہ ایک سیاستدان نہیں تھا جو ببانگِ دہل کہتاپھرتا تھا کہ دس بار وردی میں کامیاب کراؤں گا؟ بھٹو کو پھانسی دلوانے میں ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے سربراہ نے کلیدی کردار نہیں ادا کیا تھا؟ مسلم لیگ(ن) کے دو اہم ستون رات کے اندھیرے میں کس کو جا جا کر ملتے تھے؟ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں! کتنی شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ایوب خان کو خوش کرنے کے لیے مادرِ ملت فاطمہ جناح کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ دشنام طرازی بھی کرتے رہے۔ 2013ء سے لے کر 2022ء تک خود عمران خان کن طاقتوں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے؟ اس دوران ''مداخلت‘‘ انہیں فائدہ پہنچا رہی تھی اس لیے مداخلت نظر ہی نہ آئی۔
آج تحریک انصاف کہتی ہے کہ مذاکرات اس سے کریں گے جس کے ہاتھ میں طاقت ہے! کیا اس مؤقف سے تحریک انصاف غیر سیاسی طاقتوں کو مزید طاقتور نہیں کر رہی؟ آج اگر عمران خان کڑوا گھونٹ بھر کر یہ اعلان کر دیں کہ غیرسیاسی طاقتوں کا کوئی رول نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ملک سیاستدانوں نے بنایا تھا اور سیاستدان ہی چلائیں گے اور یہ کہ وہ صرف سیاستدانوں ہی سے بات کریں گے! تو وہ ایک نئی تاریخ بنائیں گے اور ایک ایسے پروسیس کا آغاز کریں گے جو حقیقی جمہوریت پر منتج ہو گا۔ مگر اس کام کے لیے اخلاقی جرأت چاہیے۔ ضد اور منتقم مزاجی نہیں!!
پس نوشت۔ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے میں ہمارا جواب نہیں۔ جائدادیں بیچنے اور خریدنے والے ملکی پالیسیوں سے زچ ہو کر دبئی کا رخ کر چکے ہیں۔ کارخانے لگانے والے بنگلہ دیش‘ ویتنام اور ملائیشیا جا چکے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ رہے سہے سرمایہ کاروں کا گلا گھونٹنے کے لیے بان کی کھردری‘ موٹی رسیاں بُنی جا رہی ہیں۔ حکومت رئیل اسٹیٹ بیچنے اور خریدنے والوں پر لگا ہوا ٹیکس مزید بڑھانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار! صنعت و حرفت تو پہلے ہی تباہ ہو چکی۔ مُڑ جڑ کر رئیل اسٹیٹ ہی بچی تھی سرمایہ کاری کے لیے اور روپے کی گردش کے لیے‘ اس کے سامنے بھی ''عقل مند‘‘ نوکر شاہی بند باندھ رہی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ جائے گا۔ کسی غریب اور مڈل کلاسیے کے لیے تو پلاٹ خرید نا اور اپنی چھت بنانا پہلے ہی انتہائی مشکل ہے۔ ٹیکسوں کے بڑھنے سے اَپر کلاس کے لیے بھی رئیل اسٹیٹ میں کاروبار کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ حکومتوں کا کام کاروبار کو آسان کرنا ہے مگر ہماری حکومتیں کاروبار کو قتل کرنے کی ماہر ہیں۔ نیت یہ ہے کہ ٹیکس بڑھا کر خزانے کو بھرا جائے۔ ارے بھائی اتنا زیادہ ٹیکس بیچنے اور خریدنے والے پر لگائیں گے تو بیچے گا کون اور خریدے گا کون اور خزانے میں کیا جائے گا؟ عقل مند تاجر منافع کم رکھتا ہے تاکہ گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ آپ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس کم کیجیے۔ اس کی خرید و فروخت کو عذاب مت بنائیے۔ جائیداد زیادہ بکے گی اور زیادہ خریدی جائے گی تو ٹیکس سے حاصل ہونے والی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔ کاش عقل کو بازار سے خریدا جا سکتا!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved