گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے کچھ طلبہ پچھلے روز منصورہ آئے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے ان کو خوش آمدید کہا اور کالج (حال یونیورسٹی) کے حال احوال پوچھے۔ انہوں نے کچھ حالات بتائے اور پھر کہنے لگے: ہم مختلف شخصیات سے مل رہے ہیں جو جی سی میں پڑھے ہوئے ہیں‘ اسی تناظر میں آپ سے بھی کچھ سوال پوچھنے ہیں۔ ان کے سوال و جواب کی نشست خاصی طویل اور دلچسپ رہی۔ میں نے ان کے سوالوں کے جواب میں جو کچھ عرض کیا اس میں سے چند باتیں یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔ میں نے گورنمنٹ کالج میں 1965ء سے 1967ء تک بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ وہ دور بڑا یادگار تھا۔
گورنمنٹ کالج میں ستمبر 1965ء میں داخلہ ہوا تو اسی روز پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی۔ رات کو بلیک آؤٹ تھا۔ کلاسیں شروع ہونے میں ابھی چند دن باقی تھے۔ میں لاہور سے سرکاری بس (جی ٹی ایس) میں گائوں کی طرف روانہ ہوا اور رات کے ساڑھے نو بجے لالہ موسیٰ پہنچا۔ لالہ موسیٰ میں ہمارے گائوں سے تعلق رکھنے والے ایک دوست احمد دین صاحب نے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک نئے محلے میں اپنا گھر بنایا ہوا تھا اور فیملی کے ہمراہ وہاں رہتے تھے۔ میں ان کے ہاں پہنچا۔ انہوں نے وی آئی پی انداز میں آئوبھگت کی۔ موصوف کا یہ پروٹوکول میرے بزرگوں سے تعلقات کی وجہ سے تھا۔ ان کو پلاٹ خریدنے کے لیے والد محترم نے قرض دیا تھا اور تعمیر میں بھی تعاون کیا تھا۔ ان کی والدہ میری پھوپھی جان کی ہر کام میں معاونت کیا کرتی تھیں۔ ویسے وہ گائوں میں ذاتی طور پر دایہ (Mid-wife) کے طور پر کام کرتی تھیں۔ گائوں کے اکثر بچے ان کو بے بے نیامت (اماں نعمت بی بی) کہہ کر پکارتے تھے۔ بے بے نیامت دو مرتبہ بیوہ ہوئی تھیں مگر ان کی اولاد‘ دو بیٹے ایک ہی خاوند سے تھے۔ بڑے احمد دین اور چھوٹے محمد دین تھے‘ جو ایک ڈاکخانے میں ملازم تھے۔
اس رات مجھے بہت جلدی تھی کہ گھر پہنچوں مگر احمد دین اور ان کے اہلِ خانہ‘ سب بضد تھے کہ ہمارے ''غریب خانے‘‘ پہ رات گزارو۔ میں نے عرض کیا: جنگی صورت حال کی وجہ سے گھر والے بہت پریشان ہوں گے ورنہ آپ کے ''دولت خانے‘‘ پر رات گزارنے میں مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اب رات کے دس بج چکے تھے اور گائوں کی طرف جانے کے لیے اس وقت کوئی سواری دستیاب نہیں تھی۔ سب اہلِ خانہ کی طرح احمد دین صاحب نے بھی بڑی محبت اور اصرار کے ساتھ کہا کہ آج رات ہمارے پاس گزارو۔ میں نے بتایا کہ11بجے لالہ موسیٰ سے سرگودھا جانے والی ٹرین میں مجھے چلے جانا ہے‘ کیونکہ گھر والے جنگ کی وجہ سے میرے بارے میں بہت فکرمند ہوں گے۔
میرے گھر پہنچنے کے اصرار پر احمد دین صاحب میرے ساتھ مقررہ وقت پر ریلوے سٹیشن پہنچے۔ میں نے انہیں خداحافظ کہا مگر وہ بولے کہ مجھے اکیلے نہیں جانے دیں گے۔ چنانچہ موصوف میرے ساتھ ہی گائوں کی طرف ٹرین سے روانہ ہوئے۔ لالہ موسیٰ سے ہمارے سٹیشن تک پندرہ بیس منٹ لگتے تھے۔ ہم تقریباً ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچے کیونکہ ٹرین کافی لیٹ ہو گئی تھی۔ میرے والدین اور پھوپھی جان اپنے اپنے بستروں پر لیٹے‘ ابھی تک جاگ رہے تھے۔ ہمارے پہنچنے پر سب گھر والے بہت خوش ہوئے اور احمد دین صاحب کو بھی سب نے دعائیں دیں۔ کیا دور تھا اور کیا مخلص احباب تھے! اللہ ان سب کو بہترین اجر عطا فرمائے۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میری والدہ محترمہ دعا کر رہی تھیں ''اے اللہ! میرے بیٹے کو زندہ و سلامت آج ہی رات گھر پہنچا دیں‘‘۔ والدہ پورے یقین کے ساتھ دعا مانگ رہی تھیں مگر باقی اہلِ خانہ سوچ رہے تھے کہ یہ آج کیسے ممکن ہو گا؟ بہرحال اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے۔ ایک حدیث قدسی پاک میں رسولِ رحمتﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ فرماتا ہے: میں اپنے بندے سے اس کے میرے بارے میں گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں... (صحیح مسلم)
اس موقع پر مجھے وہ واقعہ یاد آیا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی دعائوں کا حوالہ ملتا ہے۔ واقعہ اسرائیلی روایات میں سے ہے‘ تاہم اسلامی تعلیمات کے بھی عین مطابق ہے۔ روایت یہ ہے کہ ایک بار موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر پہنچے تو ربّ کائنات نے فرمایا ''موسیٰ! ذرا سنبھل کر بات کرنا‘‘۔ آپ علیہ السلام نے عرض کیا ''یاربّ! میں تو کئی سالوں سے آپ کے دربار میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہ بات اس سے قبل تو آپ نے کبھی نہیں فرمائی ‘‘۔ اللہ کی طرف سے جواب آیا: ''اس سے قبل جب تو میرے پاس آیا کرتا تھا تو تیری ماں دامن پھیلا کر مجھ سے دعائیں مانگتی تھی کہ اے اللہ! میرا موسیٰ تیرے دربار میں آ رہا ہے‘ اس سے کوئی لغزش ہو جائے تو معاف فرما دینا۔اب تمہاری ماں دنیا سے جا چکی ہے اور دعائوں کا وہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے‘‘۔
میری والدہ مرحومہ ایک سادہ لوح دیہاتی خاتون تھیں۔ آپ کی تعلیم صرف قرآن مجید ناظرہ اور چند مخصوص سورتوں کے حفظ تک محدود تھی۔ فرض عبادات میں کبھی کوتاہی نہ کی مگر خدمتِ خلق میں ان کا کردار قابلِ رشک تھا۔ میری جنتِ ارضی کو اللہ تعالیٰ اپنی جنتوں میں اعلیٰ مقام بخشے‘ آمین۔ مرحومہ مہمان نوازی‘ خوش اخلاقی اور عفوودرگزر کی بہترین مثال تھیں۔ ان کی دعائیں اکثر قبول ہوتی تھیں۔ میں جب سکول کی دوسری جماعت میں اول آیا تھا تو والدہ مرحومہ نے یہ خبر سنتے ہی مجھے دعا دی کہ اے پیارے بیٹے! اللہ تجھے ہمیشہ اول پوزیشن ہی عطا فرماتا رہے۔ یہ انہی کی دعا تھی جو میرے حق میں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ میں نے زندگی میں کئی مشکل مراحل میں محسوس کیا کہ اللہ کی نصرت ایسے طریقے سے میرے شاملِ حال ہوتی رہی کہ اس کی کوئی توجیہ سوائے اس کے میری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ یہ میری والدہ کی دعائوں کا صدقہ ہوتا تھا۔ اس حوالے سے کئی واقعات ہیں۔
گائوں میں پہلی بار ریڈیو بھی اسی جنگ کے دوران متعارف ہوا تھا۔ ہمارے بزرگ ریڈیو سے صرف خبریں سنا کرتے تھے یا اس دور میں جہادی ترانے۔ دیگر پروگراموں کے لیے نوجوان چھپ چھپا کر ہی موقع ڈھونڈتے تھے مگر میں ان میں شامل نہیں تھا۔ کچھ دنوں کے بعد کالج کھلنے کی تاریخ آ گئی اور جنگ بھی کسی حد تک کنٹرول ہو گئی۔ اب مجھے لاہور جانا تھا جو میرے لیے نئی جگہ نہیں تھی۔ میں ایف اے کے دو سالوں میں لاہور کے چپے چپے سے اور وہاں کی اکثر معروف شخصیات سے پوری طرح واقف ہو چکا تھا۔ عزیز واقارب سے مل کر ان کی دعائیں سمیٹیں اور لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔ سفر بخیر مکمل ہوا۔ کالج میں پہنچا تو کلاسیں شروع ہو چکی تھیں اس لیے کالج میں ہر کلاس میں حاضری دی اور مختلف نئے ہم جماعت ساتھیوں سے پہلے ہی روز شناسائی اور تعارف ہو گیا۔ کچھ ساتھی تو اسلامیہ کالج ہی سے میرے ساتھ پڑھ کر یہاں آئے تھے اور بیشتر نئے ساتھی تھے۔
ان عزیز طلبہ سے کافی طویل باتیں ہوئیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے کے حالات و واقعات کی طویل داستان ہے جو ان شاء اللہ موقع ملا تو اپنی آپ بیتی میں بیان کروں گا۔ طلبہ نے کئی پوائنٹس نوٹ کیے اور کہا کہ کبھی آپ کالج میں تشریف لائیں۔ میں نے کہا: موقع ملا تو ان شاء اللہ آئوں گا۔ طلبہ سے میں نے پوچھا کہ کالج کی مسجد کا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہاں باقاعدہ نماز باجماعت ہوتی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب میں کالج میں داخل ہوا تھا تومسجد کی جگہ پر ایک چبوترا سا تھا جس پر ہم نماز پڑھا کرتے تھے۔ بعد میں اللہ کے فضل سے یہاں مسجد تعمیر ہو گئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved