وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کے محکمے کو ختم کر دیا جائے۔ وجہ؟ کرپشن اور نااہلی!یہ ایک درست فیصلہ ہے! مگر سوال یہ ہے کہ صرف پی ڈبلیو ڈی ہی کیوں؟ وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں ''جیہڑا بھنّو‘ اوہی لال اے‘‘۔ اگر کسی محکمے کو ختم کرنے کا سبب کرپشن اور نااہلی ہے تو پھر:تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں!
کچھ سال پہلے لاہور کی کسی عدالت نے کہا تھا کہ ایل ڈی اے کرپٹ ترین محکمہ ہے۔ اس پر اس کالم نگار نے سی ڈی اے کو غیرت دلائی تھی کہ جاؤ اور شکایت کرو کہ کرپٹ ترین ہونے کا اعزا ز تو تمہارا ہے۔ ایل ڈی اے بھی ہو گا مگر دوسرے نمبر پر! دو ہفتے پہلے ہمارے ایک دوست نے مکان خریدا۔ مکان بہت پرانا تھا۔ 50‘ 60 سال پہلے کا بنا ہوا۔ اس کی دیکھ بھال بھی نہیں کی گئی تھی۔ معمار نے فیصلہ سنایا کہ اسے منہدم کرنا ہو گا۔ منہدم کرنے والی پارٹیوں کو بلایا گیا۔ سب نے ایک ہی بات بتائی کہ انہدام کیلئے سی ڈی اے سے این او سی لینا ہو گا اور اس کیلئے 50ہزار روپے ''ریٹ‘‘ ہے!! کہنے کو تو سی ڈی اے نے ''وَن ونڈو آپریشن‘‘ بنایا ہے مگر اس طریقِ کوہکن میں بھی حیلے پرویزی ہی ہیں! اگر کام 50ہزار روپے رشوت دے کر ہی کرانا ہے تو پھر ایک ڈائریکٹر لیول کا افسر ادارے کو چلانے کیلئے کافی ہے۔ اور کچھ نہیں تو چیئرمین سی ڈی اے کے ارد گرد پرسنل افسروں اور سٹاف کا جو تہ در تہ حصار ہے اسی میں کمی کر دیجیے۔
اور اس ''وزارتِ مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کی کیا منطق ہے؟ مذہبی امور کا حکومت سے کیا تعلق ہے؟ کون سے مذہبی امور؟ مساجد تو نجی شعبے میں ہیں اور موروثی حساب سے چل رہی ہیں۔ یہ اور بات کہ ملائیشیا‘ مصر‘ سعودی عرب‘ کویت‘ یو اے ای اور ترکیہ میں مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں! اس وزارت کا سائز چھوٹا کیجیے اور اسکا نام وزارتِ حج رکھیے۔ رہی بین المذاہب ہم آہنگی تو وہ آئے دن ظاہر ہو ہی رہی ہے۔ سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا اس کی خبر شاید بین المذاہب ہم آہنگی کی وزارت کو نہیں موصول ہوئی۔ سرگودھا میں جس نذیر مسیح پر تشدد کیا گیا تھا وہ نو روز کے علاج اور اذیت کے بعد وفات پا گیا ہے۔ انصاف کیجیے! کیا بین المذاہب ہم آہنگی کی وزارت اس پر طلائی تمغے کی حقدار نہیں ہے؟؟ خدا کا خوف کیجیے اور یہ ڈھکوسلے بند کیجیے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پر جو ملازمین پَل رہے ہیں انہیں فارغ کیجیے۔ کسے دھوکا دے رہے ہیں آپ؟ شاید اپنے آپ کو! دنیا کو تو ساری حقیقت معلوم ہے!!وزارتِ تعلیم کا کیا جواز ہے؟ کیا ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے وی آئی پی اور وزیر‘ تعلیم کی بنیاد پر اس مقام پر پہنچے ہیں؟ کیا ہمارے بڑے بڑے عظیم المرتبت پراپرٹی ٹائیکون‘ جو ہر حکومت‘ ہر حکمران اور ہر سیاستدان کی آنکھوں کے تارے ہیں‘ جو بڑی بڑی عالیشان پیغام رسانیاں کرتے ہیں اور وچولن کا کام کرتے ہیں‘ کیا تعلیم کی بنیاد پر اس بے مثال اور فلک بوس مقام پر پہنچے ہیں؟ تکلف مت کیجیے۔ وزارتِ تعلیم بند کر دیجیے۔ ہمیں تعلیم کی ضرورت نہیں! یوں بھی جوصحیح معنوں میں تعلیم حاصل کرتا ہے‘ ملک چھوڑ جاتا ہے۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ یورپ اور امریکہ کو ڈاکٹر‘ سائنسدان اور پروفیسر سپلائی کرتے رہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت نہیں تو اس سیاپے کا فائدہ؟
اور یہ منسٹری آف ہیومن رائٹس! یعنی انسانی حقوق کی وزارت! اول تو یہاں ''انسانی‘‘ کا لفظ زائد ہے! کون سے انسان اور کون سے حقوق؟ میرا سب سے پہلا انسانی حق یہ ہے کہ میری جان اور میرا مال محفوظ رہے۔ اگر اس کیلئے مجھے دوسرے مکینوں کے ساتھ مل کر گلی کیلئے چوکیدار بھی خود رکھنا ہے‘ الارم سسٹم بھی خود لگوانا ہے‘ کیمرے بھی خود نصب کرانے ہیں تو ریاست میرے انسانی حقوق کیلئے کیا کر رہی ہے! آپ کا کیا خیال ہے کہ ملک میں ڈاکوں‘ چوریوں‘ اغوا اور قتل و غارت کی جو مقدار اور رفتار ہے‘ اس کے پیشِ نظر کیا تھانوں کی ضرورت ہے؟ ان پر کروڑوں اربوں کے اخراجات کی کیا منطق ہے؟ ریلوے سکڑ کر پہاڑ سے چوہا بن چکی ہے۔ کاش اسمبلی میں کوئی پوچھے کہ کتنی لائنیں اور کتنے ریلوے سٹیشن بیکار پڑے ہیں۔ وزیر آباد سے پہلے ریل سیالکوٹ جاتی تھی اب نہیں جاتی۔ نارووال شکر گڑھ ریلوے ٹریک 22سال سے ویران پڑا ہے۔ پورے ملک میں ایسے سینکڑوں ٹریک ہوں گے۔ اتنی بڑی وزارت اور اتنا بڑا ریلوے ہیڈ کوارٹر! بجٹ کا زیادہ حصہ ریلوے کے ملازم ہی تناول فرما جاتے ہیں! ریٹائرڈ ملازمین بھی مفت سفر کرتے ہیں۔ وزارت کے بجائے ایک چھوٹا سا سیل اس تخفیف شدہ‘ ننھی منی ریلوے کیلئے کافی ہے جسے وزارتِ مواصلات کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
ایک وزارت صنعت اور پیداوار کی بھی ہے۔ صنعت میں تو رسوائے زمانہ سٹیل مل شامل ہو گی۔ اس سے زیادہ کامیاب اور نفع آور انڈسٹری کیا ہو سکتی ہے؟ رہی پیداوار تو وہ سمجھ سے باہر ہے۔ نہ جانے کون سی‘ کس شے کی پیداوار ہے! یوٹیلیٹی سٹورز اس وزارت کے تحت ہیں۔ کیا یہ صنعت اور پیداوار کا حصہ ہے؟ یہ تو دکانداری ہے۔ آپ مال خرید کر بیچتے ہیں۔ اس کا صنعت سے کیا تعلق؟
جہاں چند وزارتوں اور محکموں کو ختم کرنا ضروری ہے وہاں کچھ نئی وزارتوں کا قیام بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ایک نئی وزارت جو فوراً قائم ہونی چاہیے ''وزارتِ معلوماتِ رشوت‘‘ ہے۔ اس کا کام عوام کو آگاہ کرنا ہو گا کہ فلاں محکمے میں فلاں کام کے لیے رشوت کا کیا ریٹ ہے۔ مثلاً یہ کہ فلاں ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پرانے مکان کے انہدام کی اجازت لینے کیلئے اتنے ہزار روپے دینے ہوتے ہیں۔ گیس کے کنکشن کیلئے کیا ریٹ ہے۔ زمین کی گرداوری کیلئے کتنی رقم دینی ہے۔ مکان یا زرعی زمین کے انتقال کیلئے نذرانہ کتنا ہو گا۔ ایک اور وزارت ''قتل بذریعہ ٹریفک‘‘ کے نام سے قائم ہونی چاہیے۔ یہ وزارت اس قتل و غارت کے اعداد و شمار شائع کیا کرے گی جو شاہراہوں پر ہو رہے ہیں۔ یہ بھی بتائے گی کہ ماہانہ کتنے انسان ڈمپروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے نیچے کچلے جا رہے ہیں۔ اور یہ کہ ڈمپروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے ڈرائیور بربریت میں درندوں سے کتنے آگے ہیں اور یہ کہ یہ قاتل سزا سے مستثنیٰ ہیں۔ وزارت یہ بھی بتائے گی کہ کتنے قاتلوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھے۔ ٹرکوں‘ بسوں اور ویگنوں کے حوالے سے بھی قتل کے اعداد و شمار بتائے جائیں گے۔ ایک اور وزارت جس کا قیام بہت ضروری ہے ''پروٹوکول اخراجات‘‘ کی وزارت ہے۔ یہ وزارت بتائے گی کہ صدر‘ وزیراعظم‘ گورنروں‘ چیف منسٹروں‘ وفاقی اور صوبائی وزیروں‘ اسمبلیوں کے ممبروں کے پروٹوکول پر ہر ماہ کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے؟ حکمرانوں کے گھروں اور دفاتر پر اٹھنے والے ماہانہ اخراجات سے بھی عوام کو یہی وزارت آگاہ کرے گی۔ ایک اور وزارت ''اینٹی سرمایہ کاری‘‘ ہو گی۔ اس کا کام سرمایہ کاری کی مخالفت اور حوصلہ شکنی کرنا ہو گا۔ یہ تجویز کرے گی کہ جائیداد اور پلاٹوں کی خریدو فروخت کو کیسے مزید ناممکن بنایا جائے اور صنعتکاروں کو ملک سے بھگایا کیسے جائے۔
پس نوشت: ایک اور سفید چمڑی والی سفارتکار نے ٹریفک سگنل توڑا۔ موٹر سائیکل پر چڑھ دوڑی۔ موٹر سائیکل پر سوار پاکستانی پولیس کا کانسٹیبل زخمی ہو گیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ کئی واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ ہم چونکہ ذہنی غلامی میں طاق ہیں اس لیے سفید فاموں کو پورا حق حاصل ہے کہ ہمیں زخمی کریں یا ماردیں! انگریزی حکومت میں مقامی انسان کو ہلاک کرنے پر سفید فام قاتل کو دو روپے جرمانہ کی سزا ہوتی تھی۔ اب شاید اتنی بھی نہیں! ہمارے لیے ہر قاتل ریمنڈ ڈیوس ہی ہے۔ کس کی ہمت ہے کہ انہیں سزا دے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved