تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-10-2013

نیت کا فتور اور بے برکتی

خدا خوش رکھے ہمارے حکمرانوں کو۔ ان کے طفیل بہت سی بھولی بسری‘ بچپن میں نانی اماں سے سنی سنائی‘ کسی رسالے میں پڑھی پڑھائی ایسی کہانیاں یاد آ جاتی ہیں جو تقریباً تقریباً ذہن سے محو ہو چکی تھیں۔ اس دوبارہ یاد آ جانے سے بڑا معجزہ یہ ہونے لگا ہے کہ ایسی بھولی بسری کہانیاں ہمارے حکمرانوں کی حرکتوں کے طفیل قصہ کہانیوں کی صف سے نکل کر حقیقت بن گئی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب پرانی کہانیاں ایک تمثیل کی صورت تھیں۔ حکایات سعدی کی مانند۔ ہر کہانی کے پیچھے کوئی سبق پوشیدہ ہے۔ ہر قصے کی کوئی حقیقت ہے اور ہر واقعے میں کوئی نصیحت۔ کل اخبار میں ایک خبر دیکھی تو اسی طرح ایک بھولی بسری کہانی یاد آ گئی۔ ایک بادشاہ اپنے مصاحبین کے ہمراہ شکار کے لیے نکلا۔ کافی دیر تک جنگل میں شکار تلاش کیا مگر شومئی قسمت کوئی شکار نظر نہ آیا۔ بادشاہ اس ساری ناکام تگ و دو پر بڑا جھنجھلایا ہوا تھا۔ اچانک اسے ایک ہرن نظر آیا۔ بادشاہ نے اپنا گھوڑا اس ہرن کے پیچھے ڈال دیا۔ ہرن جان بچانے کی غرض سے بگٹٹ بھاگا۔ بادشاہ اپنے تیز رفتار گھوڑے پر اس کے پیچھے تھا۔ ایک ڈیڑھ میل (اس وقت کہانیوں میں فاصلہ میلوں میں ہی بتایا جاتا تھا۔ تب تک فرانسیسی اعشاری نظام متعارف نہیں ہوا تھا) تک پیچھا کرنے کے باوجود ہرن بادشاہ کے ہاتھ نہ لگا۔ اب ہوا یوں کہ درختوں کے ایک گھنے جھنڈ کے پاس ہرن بھی اچانک بادشاہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور بادشاہ جو اس اثنا میں اپنے مصاحبین سے بچھڑ چکا تھا راستہ بھول گیا۔ بادشاہ راستے اور مصاحبین کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھوڑا دوڑانے لگا۔ سمت کھو جانے کے بعد اسے بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کہاں ہے اور اسے کس سمت جانا چاہیے۔ بالآخر بادشاہ نے گھوڑے کی باگ ڈھیلی چھوڑ دی اور معاملہ گھوڑے کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ (ہمارے حکمران بھی اپنے بہت سارے معاملات گھوڑوں کی مرضی اور منشا کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔ حکمرانوں کی منصوبہ بندی اور فیصلوں میں گھوڑوں کا کردار آج بھی بہت اہم ہے) خیر بات کہیں اور نکل گئی۔ گھوڑا ایک سمت بھاگنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد بادشاہ نے دیکھا کہ جنگل ختم ہو گیا ہے اور سامنے ایک باغ ہے۔ یہ اناروں کا باغ تھا۔ باغ کے ایک سرے پر ایک جھونپڑی نما چھوٹا سا مکان تھا۔ بادشاہ کو اس ساری بھاگ دوڑ میں شدید پیاس لگ چکی تھی۔ پانی کی بوتلیں‘ چھاگلیں اور کھانے پینے کا دوسرا سامان مصاحبین اور ملازمین کے پاس تھا۔ بادشاہ سلامت تو خالی تیر کمان اٹھائے اس پکنک نما شکار پر موج میلا کرنے کی غرض سے تشریف لائے تھے۔ پیاس سے پریشان حال بادشاہ باغ کے سرے پر واقع مکان کے دروازے پر پہنچا اور دستک دی۔ چند لمحوں میں ہی مکان کے اندر سے ایک بوڑھا نکلا اور اس نے اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہوئے معزز گھڑ سوار کو سلام کیا۔ بادشاہ شکار کے لباس میں تھا۔ شاہی پوشاک‘ تاج اور محافظوں کی غیر موجودگی میں بوڑھے کو یہ گمان بھی نہ ہوا کہ یہ اس کے ملک کا بادشاہ ہے۔ (ویسے بھی اس زمانے میں کیبل اور وزارت اطلاعات و نشریات کی غیر موجودگی میں ننانوے فیصد شہریوں نے اپنے بادشاہ کی شکل نہیں دیکھی ہوتی تھی۔ وہ صرف شاہی لباس‘ جڑائو تاج اور مصاحبین‘ خدام اور محافظوں کی فوج ظفر موج سے ہی ایسی چیزوں کا اندازہ لگاتے تھے) بوڑھے نے شاندار گھوڑے‘ گھڑ سوار کی شکل و صورت اور انداز سے گمان کیا کہ یہ کوئی معزز شخص ہے۔ اس نے ادب سے سلام کیا اور گھوڑے سے اترنے کی درخواست کی۔ بادشاہ گھوڑے سے اترا۔ بوڑھے نے گھر کے باہر بچھی ہوئی چارپائی پر جلدی سے ایک صاف ستھری چادر بچھائی اور مہمان سے اس پر بیٹھنے کی درخواست کی۔ بادشاہ چارپائی پر بیٹھ گیا۔ بوڑھے نے بادشاہ سے پوچھا کہ اس کے لیے کوئی خدمت ہو تو حکم کیا جائے۔ پیاس سے بے حال بادشاہ نے بوڑھے سے پانی مانگا۔ بوڑھے نے چارپائی کے اوپر جھکے ہوئے انار کے درخت سے ایک موٹا تازہ انار توڑا۔ گھر کے اندر سے ایک صاف گلاس لایا اور انار کو اس گلاس کے اوپر رکھ کر زور سے نچوڑا۔ صرف ایک انار سے اتنا رس نکلا کہ گلاس بھر گیا۔ بوڑھے نے انار کے رس سے بھرا ہوا یہ گلاس بادشاہ کو پیش کیا۔ بادشاہ یہ سب کچھ دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ انار کا رس پیتے ہوئے بادشاہ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ بوڑھا بظاہر زیادہ خوشحال نظر نہیں آتا مگر اس کے باغ کی آمدنی یقینا بہت زیادہ ہوگی۔ اس کے انار بڑے رس بھرے ہیں‘ اسے منڈی بلاشبہ عام اناروں سے کہیں بہتر ریٹ ملتا ہوگا۔ اس کی زمین بھی ارگرد کی زمینوں سے زیادہ زرخیز ہے۔ اس کا مالیہ‘ آبیانہ وغیرہ باقی لوگوں کے برابر ہوگا۔ اس کی آمدنی‘ فصل اور زرخیزی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر سرکاری ٹیکس اور لگان وغیرہ باقی عام باغوں کی نسبت زیادہ ہونا چاہیے۔ بادشاہ نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ وہ واپس جا کر اس قسم کے باغوں پر سرکاری ٹیکس بڑھا دے گا۔ اسی اثنا میں بادشاہ نے انار کے رس کا پورا گلاس ختم کر لیا۔ باغبان نے پوچھا کہ کیا وہ اور رس پئیں گے ؟بادشاہ نے اشارے سے ہاں کی۔ بوڑھے باغبان نے ایک انار توڑا اور گلاس میں نچوڑا۔ گلاس کا ایک چوتھائی بھی نہ بھرا۔ پھر دوسرا انار توڑا اور نچوڑا‘ پھر تیسرا اور اسی طرح چوتھا۔ گلاس چار اناروں کے نچوڑنے سے بمشکل بھرا۔ بادشاہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے بوڑھے باغبان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اب یہ گلاس چار اناروں کے رس سے بھرا ہے جبکہ پہلے یہی گلاس ایک انار کے رس سے بھر گیا تھا۔ باغبان کہنے لگا۔ حضور! میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ یہ والے چاروں انار پہلے والے ایک انار سے زیادہ صحت مند اور رس دار تھے۔ سوائے اس کے اور کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے حکمران کے دل میں فتور آ گیا ہو۔ حکمرانوں کے دل میں بے ایمانی‘ فتور اور بدگمانیاں پیدا ہوں تو چیزوں سے برکت رخصت ہو جاتی ہے ۔پیسہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور اطمینان ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔ ہمارے حکمران کی نیت عوام کے بارے میں ٹھیک نہیں رہی۔ رس پیتے ہوئے بادشاہ کو اپنی سوچ پر شرمندگی ہوئی۔ کہانی کے بقیہ حصے پر لعنت بھیجیں۔ ہماری کہانی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے۔ چیزوں سے برکت ختم ہو چکی ہے۔ پیسہ بے وقعت ہو چکا ہے اور اطمینان رخصت ہو چکا ہے۔ کل اخبار میں خبر تھی کہ سوئی گیس گھروں میں صرف کھانا پکانے کے اوقات میں ملا کرے گی۔ کبھی یہ سنتے تھے کہ گیس کے ذخائر اگلے سو سال کے لیے کافی ہیں اور آج سوئی گیس کی قلّت ہے۔ بجلی نہیں ہے۔ کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے۔ دریائوں میں پانی نہیں ہے۔ قلب کا سکون نہیں ہے۔ ذہنی اطمینان نہیں ہے۔ غریب کے پاس آٹا نہیں ہے۔ پہننے کے لیے کپڑے نصیب نہیں ہو رہے۔ زرعی ملک میں لوگ ٹماٹر اور پیاز خریدنے سے عاجز ہیں۔ جانور ہیں مگر خریدار نہیں ہیں۔ موٹر سائیکلوں والے پٹرول خریدنے کے قابل نہیں۔ کوئی بے برکتی سی بے برکتی ہے!! حکمرانوں کی بدنیتی اب ایک عمل مسلسل کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ کبھی ہم دنیا کو گیس فراہم کرنے کی بات کرتے تھے۔ اب ہمارے پاس اپنے استعمال کے لیے گیس نہیں بچی اور صرف گیس ہی کیا‘ زرعی اجناس سے لے کر پانی تک‘ معدنیات سے لے کر روپے تک‘ ہر شے بے برکت اور بے وقعت ہو چکی ہے۔ حکمرانوں کی نیت کے فتور نے ہر شے برباد کردی ہے۔ مملکت خداداد پاکستان حکمرانوں کی نیت کے فتور اور بے برکتی کا مثالی نمونہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved