بہت سنتے ہیں اور بہت سے تبصرے جامعات کے بارے میں پڑھتے بھی ہیں ۔ سب درست ہیں‘ اور اپنے اپنے مشاہدات کے مطابق سچ لکھتے ہیں ۔ مقصد یہاں نہ تو کسی کی رائے کو رَد کرنا ہے او ر نہ کسی کڑوی بحث میں اُلجھنا۔ابھی تک ہماری زندگی جامعات کی چاردیواری تک گزری تھی اور اب اصل دنیا میں آنے کی تیاریوں میں ہیں۔ جامعات کی دنیا خوابوں‘ خیالوں ‘ افکار ‘ تصورات‘ کتابوں ‘ لائبریریوں ‘ درس و تدریس اور نظریات پر بحث و مباحثہ کی دنیا ہے ۔ ہماری جامعات کا معیار ‘ ماحول اور علمی روایات کے بارے میں آپ جو چاہیں کہیں ‘ یقینا آپ کا کچھ تجربہ ہوگا۔ چلیں میں اپنی بات کرتا ہوں اور شاید آپ کی بھی ترجمانی ہوجائے۔ جامعہ پنجاب میں داخل ہوئے تو ہماری زندگی ہمیشہ کیلئے تبدیل ہوگئی ۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس البیلی دنیا کے تجربات ‘ علم و ہنر ‘ دوست اور اساتذہ اور وہ چند سال آپ کی زندگی اور شناخت پر گہری چھاپ لگا دیتے ہیں ۔ہزاروں طلبا‘ جن میں اوائل کے سالوں میں ملنے والے اب کب کے اپنی اپنی ملازمتوں کی مدتیں پوری کرچکے ہیں ۔میں نے کسی کو دھکے کھاتے نہیں دیکھا۔ ظاہر ہے وہ صرف ایک استاد سے تو درس نہیں لیتے تھے ‘ دیگر بھی شامل تھے اور اب بھی ہیں ۔ جامعات کی معاشرے ‘ معیشت ‘ صنعت ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں دنیا بھر میں کلیدی حیثیت ہے اور اسی طرح ادب‘ فلسفے اور علمِ بشریات میں تحقیق وتالیف سے لے کر صنعتوں اور کاروبار کو چلانے کے علاوہ بیوروکریسی اور ہر نوع کے پیشوں کے لیے افرادی قوت تیار کرنا ۔ ہماری کوتاہیاں ‘ کمزوریاں اور کچھ مجبوریاں اپنی جگہ مگر ہماری جامعات کا سماجی اور معاشی ترقی میں ایک کردار رہا ہے ۔ زوال تو ہماری زندگی کے ہر شعبے میں آپ دیکھ سکتے ہیں ‘ جامعات کو اس سے استثنا نہیں ۔
اس کی بنیادی وجہ اگر ہم نہیں سمجھ سکیں گے توبات بحث برائے بحث کے دائرے میں چلتی رہے گی ۔ پہلے میں سرکاری جامعات کی بات کرتا ہوں ۔ جب معاشرے میں عدم برداشت‘ رواداری اور سیاسی ہم آہنگی کی روایت کمزور ہوئی تو جامعات بھی نظریاتی کشمکش اور سیاسی تنائو کا بوجھ برداشت نہ کرسکیں ۔ اساتذہ ‘ طلبا اور یہاں تک کہ سٹاف بھی دھڑوں میں بٹ گئے۔ افغانستان کی جنگ اور ایرانی انقلاب کے سائے میں لسانی ‘ فرقہ وارانہ اور ہر نوع کے انتہا پسند جامعات کی فکری آزادی اور داخلی خود مختاری کی دنیا میں سرایت کرگئے ۔ سیاسی جماعتوں نے طلبا یونینز میں اپنے بندے کامیاب کرانے کے لیے حمایت یافتہ گروہوں کو اسلحہ اور فنڈز فراہم کرنا شروع کردیے ۔ کاش کوئی جامعات میں لڑائیوں ‘ خون خرابے اور دنگا فساد کے واقعات پر بھی تحقیق کرکے کوئی کتاب لکھتا۔ طلبا کے سیاسی دھڑے طاقتور ہوتے گئے اور اساتذہ اور انتظامیہ کمزور سے کمزور تر ۔ یہ روایت پہلی جمہوری تبدیلی میں پڑ چکی تھی ۔ اس وقت کی طاقتور سیاسی جماعت نے اپنے لوگ جامعات میں زبردستی بٹھا دیے ‘ جو نہ طلبا تھے اور نہ اساتذہ‘ تو اس خوف کی فضا میں ان کے مخالفین نے بھی یہی کچھ کیا ۔ ایک عرصہ تک جامعات میدانِ جنگ بنی رہیں ‘ اور پھر مارشل لاء لگ گیا ۔ پابندی تو یونینزپر لگ گئی مگر طلبا تنظیمیں زیادہ تر فرقہ واریت اور لسانی گروہوں کی بنیاد بنیں اور تعلیمی ماحول کو خراب کرتی رہیں ۔ اب پاکستان کی سرکاری جامعات میں کوئی بھی ایسی نہیں جہاں یہ گروہ سیاسی پشت پناہی کی بنیاد پر سرگرم نہ ہوں۔ اور پھر جو حکومتیں آتی ہیں وہ بھی ان گروہوں کی مدد کے لیے انتظامیہ پر دبائو ڈالتی ہیں ۔ جامعات کو میدانِ جنگ بنانے والے سیاسی عناصر کی کوئی بات نہیں کرتا۔ بات جامعات کے معیار اور ماحول پر آجاتی ہے ۔ اب یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوچکا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی برکت سے جامعات پر ا ب صوبوں اور وہاں کی نوکر شاہی کا قبضہ ہے ۔ بر سر اقتدار سیاسی جماعتوں کے لیے جامعات میں نوکریاں ‘ داخلے اور ہر طرح کی مداخلت آسان ہے ۔
سرکاری جامعات میں بدانتظامی کی ذمہ داری نہ وائس چانسلر پرہے اور نہ ہی اساتذہ پر ۔ کبھی ان سے مل بیٹھیں تو آپ کو حالِ دل شاید بتا ہی دیں ۔ یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ اساتذہ میں بھی ایک دوڑ ہے کہ ان کے لیے زندگی اور ان کے شعبے کی کوئی معراج ہے تو وہ کسی جامعہ کا وائس چانسلر بننا ہے ۔ اور ا س کے لیے کچھ سیاسی دروازوں کو بھی کھٹکھٹاتے ہیں کہ امیدبرآنے کے معیار بدل چکے ہیں ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں اور مضامین لکھواتے ہیں ‘ طلبا کو متحرک کرکے ان سے کام لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ جامعات کو نئی سمت دینے ‘ ان کے احیا اور ترقی کے لیے پہلے تو سیاست اور حکومتوں کی مداخلت کو ختم کرکے انتظامی عہدوں کے لیے قابل‘ مخلص اور فطری قیادت کو سامنے لانا ہوگا۔ یہ کہنا آج کے قومی ماحول میں آسان مگر عمل کرنا مشکل ہے ۔ ایک عرصہ سے میں کہہ اور لکھ رہا ہوں کہ اگر ملک اور عام آدمیوں کی قسمت بدلنی ہے تو سرکاری تعلیمی شعبے میں‘ پرائمری سکولوں سے لے کر جامعہ کی سطح تک فوراًاصلاحات لانی ہوں گی ۔ اس بارے میں آئندہ کے چند مضامین میں اپنی گزارشات پیش کروں گا۔ سرکاریا جامعات کے بارے میں بات تو یہ ہے کہ آپ تھوک کے حساب سے پی ایچ ڈی ڈگریوں کا کاروباربند کریں ۔ یہ کاروبار اس دن سے ہی بن گیا تھا جب اساتذہ کو ہر ایک ایسے طالب علم کو سپروائز کرنے کے لیے معاوضے کی رقم متعین کی گئی تھی۔ بہت سے اساتذہ نے پندرہ‘ بیس اور کہیں اس سے بھی زیادہ نام نہاد مقالے سپروائز کرنا شروع کردیے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ دستخط ہونے لگے ۔ زیادہ توجہ انڈر گریجوایٹ پروگراموں کو جدید ‘ بامعنی اور صنعت اور معیشت کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے پر ہونی چاہیے ۔ یہ بنیاد مضبوط ہوگی تو اگلی ڈگری کی کوئی حیثیت بنے گی ۔ اسی طرح ایم فل اور پی ایچ ڈی کا معیار قائم رکھنے کے لیے آپ ہر سرکاری جامعہ میں اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ معیاری اورپیشہ ور اساتذہ کے بغیر صرف مقالوں پر دستخط کرنے والوں کا ہی راج ہوگا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فنڈنگ بڑھانی چاہیے مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ جامعات کی داخلی خود احتسابی کا ہے ۔ اساتذہ کی اب ایسی کھیپ غالب آچکی ہے جن کی پیشہ ورانہ اخلاقیات سرے سے ہی موجود نہیں۔ نہ کلاسیں وقت پر ہوتی ہیں نہ اساتذہ تیاری کرکے پڑھاتے ہیں ۔ صبح کی کلاسوں کے لیے تو تنخواہ ہے ہی ‘ شام کی کلاسوں کے لیے علیحدہ معاوضہ ہے ‘ اور پھر ان میں وہ بھی ہیں جو باہر جا کر نجی جامعات میں پڑھاتے ہیں ۔ اس نوع کی علمی اور انتظامی بے ضابطگی کا ذکر مغربی ملک کے اساتذہ سے کریں تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے ۔ اب اساتذہ کے یہ ٹولے اتنے مضبوط اور منظم ہیں کہ کوئی بھی وائس چانسلر کچھ نہیں کرسکتا۔ جامعات کے بنیادی آداب کے خلاف ہے کہ آپ اپنی جامعہ کے علاوہ کہیں اور پڑھائیں ۔اس کے علاوہ اپنا وقت تحقیق اور طلبا کو گائیڈ کرنے کے لیے وقف کرنے کی ضرورت ہے ‘ یہ نہیں کہ کورس پہ کورس پڑھاتے رہیں۔ سرکاری جامعات میں طلبا کی تعداد بڑھنے سے اساتذہ کی تعداد بھی بڑھنی چاہیے ۔ استاد کی بھرتی کے لیے جو ابھی تک مروجہ طریق کار ہے وہ میرے نزدیک قابل ِاصلاح ہے ۔ اس کے لیے کئی انٹرویو ز‘ خفیہ معمولات‘ علمی اسناد کا معیار‘ شخصیت اور طرزِ تدریس کی جانچ ضروری ہے ۔ یہ سب کچھ آسان نہیں ‘ لیکن اس کے بغیر ہماری جامعات کا معیار بہتر نہیں ہوسکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved