تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     08-06-2024

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ‘ سچ کیا ہے؟

سائفر کیس میں حکومتی وکلا کی غیر سنجیدگی معاملے کو گہرائی تک لے جانے میں ناکام رہی حالانکہ ان کے پاس اس حوالے سے کئی شواہد موجود تھے‘ لیکن وہ عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔ اسی طرح حکومتی وکلا دیگر کیسوں میں بھی حکومتی مؤقف کو آئین و قانون کے مطابق پیش کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ سائفر کیس میں ایسے وکلا کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں تھی جو انٹرنیشنل لاء اور پبلک لاء پر دسترس رکھتے ہوں۔ بہرحال سائفر کیس میں حکومت کو شکست ہو گئی ہے اور اب اپیل میں بھی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔ البتہ عمران خان کی رہائی تاحال مشکل ہے۔ان کے خلاف نئے مقدمات قائم ہو رہے ہیں‘ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پر متنازع ٹویٹ کے حوالے سے بھی ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے لیکن اس ٹویٹ پر مقدمہ دائر کرنے سے ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ حمود الرحمن کمیشن 12جلدوں پر محیط رپورٹ ہے‘ جس میں سے ابھی تک صرف ایک جلد ہی منظرِ عام پر آئی ہے اور باقی 11 جلدوں کے بارے میں یہی تاثرہے کہ یہ ضیاء الحق دورِ حکومت میں تلف ہو چکی ہیں۔وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو حمود الرحمن کمیشن کی جامع رپورٹ سے بہت زیادہ فکرمند اور کسی قدر خوف میں مبتلا تھے۔ انہوں نے حمود الرحمن کمیشن کے متبادل بھی ایک کمیشن مقرر کیا تھا جس کے سربراہ ملک کے ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر کے کے عزیز تھے۔ ان کو ہدایات دی گئی تھیں کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متبادل رپورٹ تیار کریں تاکہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا اثر زائل ہو سکے۔ ڈاکٹر کے کے عزیز وزیراعظم بھٹو کی خواہش کے مطابق کام کرنے میں ناکام رہے اور پانچ جولائی 1977ء کو بھٹو حکومت کے خاتمے تک رپورٹ تیار نہ کر سکے۔
حمود الرحمن کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس حمود الرحمن تھے۔ اس کمیشن میں لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس انوار الحق اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس طفیل علی عبدالرحمن بھی شامل تھے۔ کمیشن نے 57 اجلاس منعقد کیے اور آرمی‘ ایئر فورس اور نیوی کے 213 افسران پر جرح کی۔ اس کے علاوہ ججوں‘ سیاستدانوں‘ بیورو کریسی اور صحافیوں بشمول الطاف گوہر اور زیڈ اے سلہری کے بیانات قلمبند کیے۔ اہم سرکاری و عسکری دستاویزات کا بھی مطالعہ کیا گیا اور سابق صدر ایوب خان کا بھی ایک اہم بیان ریکارڈ کیا گیا جو چار گھنٹوں پر محیط تھا۔ ملک کے تمام اداروں نے اس کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کیا لیکن جب کمیشن کی رپورٹ حکومت کو بھجوائی گی تو اُس وقت کی عسکری قیادت نے وزیراعظم بھٹو سے گزارش کی کہ فی الحال اس رپورٹ کو منظرعام پر نہ لایا جائے کیونکہ یہ رپورٹ اداروں کے مورال پر منفی اثر ڈالے گی۔ بھٹو صاحب نے اس موقف سے اتفاق کیا۔ انہی دنوں انہوں نے وزیراعظم ہائوس میں کابینہ کے ارکان کو مشاورت کے لیے بلایا مگر اس دوران جنرل ٹکا خان بھی اعلیٰ عسکری قیادت کے ہمراہ وزیراعظم ہائوس پہنچ گئے اور وزیراعظم سے مذاکرات کرنے لگے۔ ان مذاکرات کے دوران جب کابینہ کے ارکان بوریت کا شکار ہو گئے تو سافٹ ڈرنک سے دل بہلانے لگے۔ اس پر وزیراعظم کے قریبی ساتھی اور کابینہ کے سینئر ممبر جے اے رحیم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے مسٹر بھٹو کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ مذاکرات کی طوالت بڑھ جانے پر انہوں نے سرکاری ڈنر کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ جب بھٹو صاحب باہر آئے تو ان کی جے اے رحیم سے تلخ کلامی ہو گئی۔ اس پر مسٹر جے اے رحیم کو گرفتار کرکے صدر تھانہ میں نظربند اور فوری طور پر وزارت سے بھی برطرف کر دیا گیا۔ دراصل بھٹو صاحب حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے اجرا کے معاملے میں شدید ذہنی تنائو کا شکار تھے اور اُس رات اعلیٰ عسکری قیادت ان پر دبائو ڈال رہی تھی کہ کمیشن نے جن فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے‘ ان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے بلکہ ان کو پروموشن دی جائے تاکہ فوج کا مورال بلند رہے۔ اسی لیے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ کو صیغۂ راز میں رکھا گیا۔ بعد ازاں انہی لوگوں نے پانچ جولائی 1977ء کو حکومت کو تحلیل کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا۔
اب اگر عمران خان پر متنازع ٹویٹ کی پاداش میں غداری کا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے تو یقینا عدالت میں یہ بحث بھی ہو گی کہ اس کمیشن میں ایسی کون سی بات ہے جس کا ذکر کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ یہ رپورٹ جن تین سینئر ججوں کی تیار کردہ ہے‘ ان ججوں نے قوم کو یہ بتایا کہ ڈھاکہ میں کمانڈر جنرل امیر عبداللہ نیازی کو جنرل یحییٰ خان نے سرنڈر کا نہیں بلکہ سیز فائر کا حکم دیا تھا لیکن اس نے نہ صرف سرنڈر کیا بلکہ فوج کو بھارتی کمان کے فوجی افسران کو سلامی دینے کا حکم بھی دیا۔ بقول امریکی صدر نکسن‘ جنرل نیازی مزید دو ہفتے تک ڈھاکہ کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
شنید ہے کہ حمود الرحمن کمیشن نے جنرل یحییٰ خان‘ جنرل عبدالحمید‘ جنرل پیرزادہ‘ جنرل گل حسن‘ جنرل غلام عمر اور جنرل مٹھا کے خلاف ایوب حکومت کے خلاف سازش اور پھر 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار سپرد نہ کرنے کے الزام میں کارروائی کی سفارش کی تھی‘ لیکن چونکہ بھٹو صاحب بھی اس سازش کا حصہ تھے لہٰذا انہوں نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو نظر انداز کر دیا۔ اب متنازع ٹویٹ پر مقدمہ دائر ہونے سے ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا اور وفاقی حکومت اس حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا دفاع نہیں کر سکے گی۔ بلکہ اس دوران (ن) لیگی رہنمائوں کو 1993ء میں حکومت سے برطرفی‘ 1999ء میں حکومت کی معزولی اور 2017ء میں جے آئی ٹی کے ذریعے نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے زخم بھرنے کا موقع بھی میسر آ جائے گا۔ جب یہ مقدمہ چلے گا تو جنرل (ر) اسلم بیگ کو بھی بطور گواہ پیش کرنا پڑے گا جنہوں نے 1971ء میں‘ جب وہ کرنل تھے‘ اپنے جی او سی کے کہنے پر ایک تحریری رپورٹ تیار کر کے جنرل نیازی کو پیش کی تھی جس میں مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ بہرکیف‘ اس ٹویٹ کے مندرجات کو مدنظر رکھ کر مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے لیکن حکومت کے بعض افراد کی کارکردگی اور ان کے بیانات کا بھی گہرا جائزہ لیا جانا چاہیے جو اپنے مخصوص طریقہ کار سے عسکری قیادت کو بند گلی میں کھڑا کرنے کی چال چل رہے ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد کی تین نشستوں کی ٹربیونل کارروائی کی بات کریں تو ٹربیونل کے سربراہ جسٹس طارق جہانگیری بطور الیکشن ٹربیونل الیکشن کمیشن کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 140‘ 141‘ 142‘ اور 145کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 151 میں الیکشن ٹربیونل کو تبدیل کرنے کا تفصیلی ذکر ہے۔ الیکشن ایکٹ 151 کے تحت الیکشن کمیشن از خود یا پھر درخواست دہندہ کی درخواست پر الیکشن ٹربیونل تبدیل کرنے کا مجاز ہے مگر اس کیلئے ٹھوس بنیادوں پر مواد مہیا کرنا ضروری ہے۔ الیکشن ٹربیونلز کی تقرری کا اختیار الیکشن ایکٹ کی دفعہ 148 کے تحت الیکشن کمیشن کو حاصل ہے‘ جبکہ ریٹرننگ افسران کی طلبی الیکشن ٹربیونلز کا قانونی استحقاق ہے اور ٹربیونل از خود شواہد جمع کرنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ اگر الیکشن ٹربیونل کے جج کے احکامات کو ریٹرننگ افسران نظر انداز کرتے ہیں تو ٹربیونل ایسے آر اوز کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ اسلام آباد کے بعد لاہور کے بعض اہم حلقوں میں بھی فارم 45 اور 47 کی بحث شروع ہو چکی ہے اور الیکشن ٹربیونل نے ان حلقوں کے ریٹرننگ افسران کو طلب کر لیا ہے۔ اگر اسلام آباد کے حلقوں کا فیصلہ حکمران جماعت کے خلاف آتا ہے تو لاہور کے حلقے بھی متاثر ہونے کا امکان ہے کیونکہ حالات و واقعات یکساں ہیں۔اس طرح 8 فروری کے انتخابی نتائج مشکوک ہو جائیں گے۔ عدالتیں بھی اس سارے معاملے کو بغور دیکھ رہی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved