نریندر مودی اگرچہ تیسری بار بھارت کے وزیراعظم بن چکے ہیں‘ تاریخ میں ان کا نام (اس حوالے سے) پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ لکھا جا چکا ہے‘ تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ جیت کر بھی ہار چکے ہیں۔ لوک سبھا میں انہوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عددی برتری تو حاصل کر لی لیکن ''اس بار‘ چار سو پار‘‘ کا جو نعرہ انہوں نے لگایا تھا وہ اوندھے منہ گرا مٹی چاٹ رہا ہے۔ بی جے پی تنہا اکثریتی پارٹی کے طور پر بھی نہیں اُبھر سکی‘ اسے سادہ اکثریت کے لیے بھی اپنے اتحادیوں کی محتاجی رہے گی۔ انہوں نے راستہ بدل لیا تو کانگرس اور اس کے اتحادیوں کے اقتدار کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہوا تو بھی نریندر مودی کی ''بادشاہت‘‘ کا خاتمہ ہو چکا‘ اب وہ دوسروں کی بیساکھیوں پر چلنے والے ایک کمزور وزیراعظم ہوں گے۔ 53 سالہ راہول گاندھی برسوں کی محنتِ شاقہ کے بعد اپنا نقش جمانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وقت ان کے ساتھ ہے اور ان سے وزارتِ عظمیٰ کا فاصلہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ 2029ء میں ان کے لیے میدان ہموار نظر آ رہا ہے لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں۔ نریندر مودی کی کمزوری بھارت کی طاقت بن گئی ہے۔ وہ بھارت جس کی بنیاد گاندھی جی اور پنڈٹ نہرو نے سیکولر ازم اور جمہوریت پر رکھی‘ وہ اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسے ہندو توا کی نذر کرنا ممکن نہیں رہا۔ نریندر مودی نے اپنی مقبولیت کی بنیاد تقسیم اور نفرت پر رکھی تھی۔ ہندو اکثریت کے جذبات کو ابھار کر انہوں نے طویل اقتدار تو حاصل کر لیا لیکن ملک کی جڑیں ہلا دیں۔ جمہوریت کو عوام کی حکومت‘ عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے کہا جاتا ہے۔ یہ اکثریت کی حکومت‘ اکثریت کے لیے اور اکثریت کے ذریعے نہیں ہوتی۔ ہارنے والے بھی شہری کے طور پر وہی حقوق رکھتے ہیں جو جیتنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ آئین ہر شہری کی جان‘ مال اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اکثریت اگر اقلیت کو غلام سمجھ لے اور اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے درپے ہو جائے تو اسے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ اسے آمریت کہیں گے یا فاشزم یا کچھ اور‘ یہ جمہوریت بہرحال نہیں ہو گی۔ نریندر مودی جس فلسفے کے پیروکار ہیں‘ اس کے تحت ہندوستان ہندوؤں کے لیے ہے‘ وہ مسلمانوں‘ مسیحیوں‘ بدھ مت کے پیرو کاروں اور سکھوں کو برابر کا انسان سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت جس طرح ختم کی اور اسے حاصل آئینی تحفظ کو جس طرح پامال کیا‘ اس نے بھارت کے منہ پر جو کالک ملی اسے دھونا کسی کے بس میں نہیں رہا۔ انہوں نے جو فضا پیدا کی تھی اس میں بڑے صنعتکاروں‘ عدالتوں‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے ایک بڑے حصے کو بھی بہا لے گئے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے مکروہ ترین عمل میں جو شراکت داری کی اس نے بھی بھارتی جمہوریت کے چہرے پر ایسی خراشیں ڈالیں کہ برسوں جن کا اندمال نہیں ہو سکے گا۔
نریندر مودی دو تہائی اکثریت حاصل کرکے بھارت کو ایک ایسی ہندو ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں دوسرے مذاہب کے پیروکار ''اچھوت‘‘ بن کر رہ جائیں۔ انتخابی نتائج نے ان کے عزائم پر پانی پھیر دیا ہے۔ پاکستان کے ان سیاستدانوں کو بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے جو اپنی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے مخالفین کے لیے زمین تنگ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اکثریت کے بل پر مطلق العنانیت کے خواب دیکھتے ہیں لیکن معاشرے کو خلفشار میں مبتلا کر کے خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں۔ بھارت کی یہ خوش قسمتی البتہ قابلِ رشک ہے کہ اس میں انتخابی دھاندلی کو قومی مشغلہ قرار نہیں دیا جا سکا۔ وہاں انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے والی طاقتیں موجود ہیں‘ نہ سیاستدانوں کو اس کی لت پڑی ہے۔ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ نے بحیثیت مجموعی اپنی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابات سات مرحلوں میں ہوئے ہیں‘ پہلے مرحلے کا آغاز 19اپریل کو ہوا تھا جبکہ ساتواں اور آخری مرحلہ یکم جون کو مکمل ہوا۔ گنتی کا عمل چار جون کو شروع ہوا‘ مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے اور مشینوں ہی کے ذریعے گنتی کی گئی۔ مہینوں کو محیط اس عمل پر کسی بھی طرف سے عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا گیا۔ کسی ریٹرننگ افسر کو الٹ پھیرکی جرأت نہیں ہوئی‘ کہیں فارم 45 اور 47کا جھگڑا نہیں اُٹھا۔ نریندر مودی وزیراعظم کا منصب سنبھالے رہے‘ وفاقی حکومت جوں کی توں رہی اور صوبائی حکومتیں بھی اپنا کام کرتی رہیں لیکن انتخابی عمل میں خلل ڈالنے یا نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کی جا سکی۔یہ یقینا بھارتی جمہوریت کی ایسی کامیابی ہے جس پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر انتخاب کے بعد دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں‘ 1977ء میں تو حزبِ اختلاف نے ایک دن کے لیے بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قدم نہیں رکھا تھا۔ منظم دھاندلی کے خلاف بھرپور تحریک چلائی تھی جو بالآخر جمہوریت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔حالیہ عام انتخابات میں بھی مداخلت اور بے قاعدگی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں‘ ان کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہے۔ پاکستان میں ایک عرصہ سے انتخابات نگران حکومتوں کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جنہیں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاقِ رائے کے ذریعے تشکیل دیا جاتا ہے‘ الیکشن کمیشن کو بھی بااختیار بنا دیا گیا ہے لیکن مداخلت ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں کو من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے کا چسکا لگ چکا ہے۔اکثر و بیشتر سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کا دامن اس حوالے سے داغدار ہے۔ بیلٹ بکس اور بیلٹ پیپر کی تقدیس برقرار نہ رکھ کر پاکستان کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا ہے‘ اس نے چولیں ہلا ڈالی ہیں۔ پاکستانی سیاست کی باگ ڈور جن کے حوالے ہے وہ تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔''ان‘‘ کے انتخابات کو دیکھیے جنہیں ہمارا دشمن سمجھا جاتا ہے اور پھر اپنے انتخابات کو‘کیا ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہیں؟
سید سلمان گیلانی کی خودنوشت
سید سلمان گیلانی شاعر ابن ِ شاعر ہیں۔ اُن کو شاعری اپنے والد ِ گرامی امین گیلانی مرحوم سے ورثے میں ملی ہے‘ صرف شاعری ہی نہیں عشقِ رسولؐ اور جذبہ حریت بھی اُنہیں وافر مقدار میں عطا ہوا ہے۔ اُنہوں نے بے مثال نعتیں کہی ہیں‘ غزل گوئی میں نام پیدا کیا ہے اور اب تو مزاحیہ شاعری کے میدان میں ان کے گھوڑے سر پٹ دوڑ رہے ہیں۔ ماشاء اللہ خوبصورت ہیں اور خوب سیرت بھی۔ ہر مکتب فکر اور ہر عمر کے لوگ اُن کے شیدائی ہیں۔ نوجوانوں کو شعر سنا سنا کر اور ان سے داد حاصل کر کرکے وہ ہنوز نوجوان ہیں۔ اُن کی شاعری کے کئی مجموعے تو چھپ ہی چکے ہیں‘ کورونا وبا کے دوران گھر میں قید رہنا پڑا تو انہوں نے اپنی خودنوشت لکھ ڈالی۔ جسے دو کتابوں کی صورت علامہ عبدالستار عاصم نے اپنے ادارے القلم فائونڈیشن سے شائع کر دیا ہے۔ ''میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ اور ‘‘نقوش حضوری‘‘... آخر الذکر ان کے اسفارِ حرمین کی تفصیل ہے۔ اپنی نثر کے ذریعے وہ ایک باکمال صوفی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے جن تجربات اور مشاہدات کو زبان دی ہے اُنہیں پڑھ کر قاری عالم ِ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ ان کی داستانِ حیات سنسنی خیز ناولوں سے زیادہ دلچسپ ہے۔ پڑھیے اور سر دھنیے‘ سر دھنیے اور پڑھیے‘ پڑھتے چلے جایئے اور سر دھنتے چلے جایئے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved