بعض دفعہ کچھ باتیں واقعی سمجھ میں نہیں آتیں۔ لوگ وہ کام کر گزرتے ہیں جن کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں محمد خان جونیجو کے بعد کوئی وزیراعظم نہیں گزرا جس پر کرپشن کے کیس نہ بنے ہوں‘ جس نے احتساب سیل سے نیب مقدمات تک کا سامنا نہ کیا ہو‘ سزائیں نہ بھگتی ہوں۔ بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ شاہد خاقان عباسی‘ شہباز شریف اور اب عمران خان۔ صدر زرداری بھی نیب مقدمات بھگت چکے ہیں۔ اب اس میں قصور کس کا ہے‘ وہ الگ بحث ہے۔ وہی پرانا محاورہ‘ جو بار بار دہرانا پڑتا ہے کہ سیزر نے اس وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی کہ لوگوں کو اس کے کردار پر شک ہو گیا تھا۔ سیزر کا وہ فقرہ آج بھی سنا اور پڑھا جاتا ہے کہ سیزر کی بیوی کو ہر قسم کے شک سے پاک ہونا چاہیے۔ حکمران اور بڑے آدمی کا ایک اپنا مقام ہوتا ہے۔ وہ عام آدمی کی امید اور رول ماڈل ہوتا ہے۔ لوگ اسے خود سے بہتر مانتے ہیں۔ اگر اس کا کردار بھی عام لوگوں جیسا نکل آئے تو پھر کون بادشاہ اور کہاں کا بادشاہ‘ لہٰذا جہاں ہمارے حکمرانوں نے سیاست کو دولت کمانے کا ذریعہ بنایا وہیں ایک دوسرے کو احتساب کے نام پر جیلوں میں بھی بند کیا۔
جب نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور سابق وزیروں کے خلاف سیف الرحمن کا احتساب سیل متحرک تھا تو کہا گیا کہ یہ یکطرفہ احتساب ہے۔ (ن) لیگ کو اپنی حکومت میں ہونے والی کرپشن نظر نہیں آرہی۔ اُس وقت شریف خاندان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اتفاق فاؤنڈری کے نام پر مختلف بینکوں سے جو پانچ ارب روپے کا قرضہ لیا تھا وہ واپس نہیں کیا ۔ بعد ازاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد کہا کہ بینک اتفاق فاؤنڈری اپنی تحویل میں لے کر اسے بیچ کر اپنا قرضہ پورا کر لیں۔ جب بینک قبضہ لینے گئے تو شریف برادران کے ایک رشتہ دار نے عدالت سے سٹے لے لیا جو اُس وقت تک چلتا رہا جب تک نواز شریف اور شہباز شریف جدہ اور لندن سے واپس نہیں آ گئے۔ بعد ازاں سرکاری بینک کا سربراہ اپنا ایک قریبی شخص لگوا کر یہ قرضہ سیٹل کر لیا گیا۔ اس دوران اتفاق فاؤنڈری کی زمین کی قیمت کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ بینکوں سے واپس لینے کے بعد اتفاق فاونڈری کی زمین کی انڈسٹریل حیثیت کو اس وقت رہائشی درجہ دے دیا گیا جب شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ بعد ازاں دو‘ تین بڑے پراپرٹی ٹائیکونز سے اس زمین کی منہ مانگی قیمت لے کر اربوں روپیہ کمایا ۔
خیر بات ہو رہی تھی یکطرفہ احتساب کی۔ شور بڑھا کہ نواز شریف حکومت دوسروں کا احتساب تو کررہی ہے‘ اپنا نہیں۔ اس پر انگریزی اخبار کے کالم نگار اردشیر کاؤس جی نے لکھا تھا کہ میاں نواز شریف کو بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کا یکطرفہ احتساب کرنے دیں۔ کوئی اور حکمران آئے گا تو وہ نواز شریف کا یکطرفہ احتساب کرے گا اور یوں دونوں کا احتساب ہو جائے گا۔ اردشیر کاؤس جی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکمران کے وزیراعظم ہاؤس سے روانہ ہونے کے بعد ہی اس کا احتساب ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کچھ بھی کرتے رہیں‘ نیب یا ایف آئی اے کی کیا جرأت کہ وہ ہاتھ لگا سکیں‘ لہٰذا اس ملک میں جب بھی ہوگا یکطرفہ احتساب ہی ہوگا۔ اور وہی ہوا ‘جب 12اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا اور نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا تو ایسا احتساب شروع ہوا جس کا کسی نے سوچا نہ تھا۔ نہ صرف پورا شریف خاندان جیل میں تھا بلکہ ان کا سارا کاروبار لپیٹ دیا گیا۔ نواز شریف کو عمر قید اور 40کروڑ روپے جرمانہ ہوا۔ وہ جرمانہ حمزہ شہباز نے ادا کیا۔ یہ الگ بات کہ جرمانے کی یہ رقم نیب نے شریف خاندان کو واپس کر دی جب وہ جلاوطنی سے لوٹے۔ نیب کی تاریخ میں پہلی اور آخری دفعہ ایسا ہوا کہ کسی کو40کروڑ روپے جرمانہ واپس کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جن مقدمات کی وجہ سے نواز شریف پر جرمانہ ہوا تھا وہ مقدمات ہی ختم ہو گئے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے دس سال بعد یہ مقدمے ختم کر دیے تھے۔ سب سزائیں ریورس کر دی گئیں۔ اس پر شریف خاندان نے راولپنڈی عدالت میں پٹیشن دائرکی کہ جب مقدمات ہی ختم ہو گئے تو جرمانے بھی ختم اور واپس کرائے جائیں۔
نواز شریف اس معاملے میں ہمیشہ لکی رہے کہ جہاں انہیں بار بار جیل جانا پڑا‘ سزا کاٹنا پڑی وہیں کچھ عرصہ بعد نیب ان کے خلاف مقدمے ختم کرکے انہیں کلین چٹ دیتا رہا‘ جیسے ابھی پچھلے سال لندن سے واپسی پر ہوا۔ نیب نے سب مقدمات میں نواز شریف کو انہی افسران کے ذریعے کلین چٹ دلوائی جنہوں نے 2018ء میں انہیں سزائیں دلوائی تھیں۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری بھی نیب کے ملزم رہ چکے ہیں۔ دونوں نے لمبی جیلیں بھگتیں۔ بہت مشکلات دیکھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2008ء میں آصف علی زرداری صدر بنے اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تو اُس وقت پیپلز پارٹی کا منصوبہ یہ تھا کہ نیب کو ختم کر دیا جائے جو سیاستدانوں کے خلاف پرویز مشرف کے لیے استعمال ہوتا رہا تھا‘تاہم اُس وقت (ن) لیگ ڈٹ گئی اور اس بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں بلڈوز کر دیا گیا۔ اس مہم کے انچارج پرویز مشرف دور کے وزیرِ قانون زاہد حامد تھے جو مشرف کی (ق) لیگ چھوڑ کر دوبارہ (ن) لیگ میں شامل ہونے اور 2008ء کے الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد وزارتِ قانون کی قائمہ کمیٹی کے ممبر بن چکے تھے۔ اس لڑائی میں وہ بل کمیٹی میں ہی پڑا رہ گیا۔ اس دوران کسی نے نیب کو نہ چھیڑا۔ پھر عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے نیب آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت بزنس مینوں کو نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا۔ عمران خان نے کراچی میں 2019ء میں تقریر کرتے ہوئے وہاں بیٹھے بزنس مینوں کو کہا تھا کہ اب نیب انہیں ٹچ نہیں کر سکے گا۔
اب ذرا اس دلچسپ صورتحال پر غور کریں کہ وہ عمران خان جنہوں نے وزیراعظم بن کر نیب کی پاورز ختم کیں تاکہ وہ بزنس مینوں کو ہاتھ نہ لگا سکے کیونکہ اس سے ملکی ترقی متاثر ہوتی ہے‘ وہی اب سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے ہیں کہ نیب قوانین میں جو ترامیم شہباز شریف کی حکومت نے 2023ء میں کی تھیں عدالت ان ترامیم کو منسوخ کر دے۔ یہی عمران خان جب وزیراعظم تھے توبزنس مینوں کو خوشخبری سنا رہے تھے کہ اب نیب انہیں ٹچ نہیں کر سکے گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بزنس مین اور پبلک آفس ہولڈر میں بڑا فرق ہے۔ ہرگز نہیں‘ بزنس مین اور سیاسی لوگ بیوروکریسی کے ساتھ مل کر کنٹریکٹ اور دیگر معاہدوں میں اکٹھے واردات کرتے ہیں۔ بزنس مینوں کے ایک دوسرے سے معاملات میں نیب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نیب اس وقت اس معاملے میں کودتا ہے جب بزنس مین‘ بیوروکریسی اور سیاسی حکمران مل کر واردات ڈالتے ہیں۔ جب بزنس مین کو نیب نے چھٹی دے دی تو پھر بیوروکریسی اور حکمرانوں کو بھی کلین چٹ مل گئی۔
دوسری طرف آپ دیکھیں کہ وہی صدر آصف زرداری‘ وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نیب کو مزید اختیارات دینے کے لیے آرڈیننس نکال رہے ہیں جو ہر وقت نیب کے ہاتھوں سزائیں بھگتنے پر مظلومیت کا رونا روتے تھے۔ اب خود پاور میں ہیں تو آرڈیننس کے ذریعے نیب کے جسمانی ریمانڈ کے دن بڑھا دیے ہیں تاکہ عمران خان کا احتساب ہو سکے۔ وہی بات کہ اس ملک میں احتساب یکطرفہ ہی ہوگا۔ باری سب کی آئے گی اور باری آتی بھی ایک دوسرے کے ہاتھوں ہی ہے۔ عمران خان نے شریف برادران اور آصف زرداری کو جیل میں ڈالا ‘اب موقع ملنے پر آصف زرداری اور شریف برادران نے خان کو جیل میں بند کر دیا ہے۔ دائرے کا سفر جاری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved