ملک سے سیاسی کشمکش کا خاتمہ وقت کی اشد ضرورت ہے لیکن جب فریقین ایک دوسرسے سے بات کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہوں تو اس اُلجھن کا حل کیسے ڈھونڈا جائے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر اُس شخص کے ذہن میں گردش ہے جو ملک کی ترقی اور سلامتی کا خواہشمند ہے۔ سیاسی میدان میں اکثر اوقات اختلافات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ فریقین کے درمیان براہِ راست بات چیت کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں عمران خان کی صحافیوں سے ہونے والی گفتگو سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے جس سے موجودہ سیاسی تناؤ کم ہونے کے امکانات محدود ہوتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پرویز مشرف دور میں بھی شوکت عزیز کے بجائے مشرف کے نمائندے سے مذاکرات کئے تھے‘ لہٰذا ہم سیاستدانوں سے نہیں وہاں بات کریں گے جہاں طاقت موجود ہے۔ یہ بات اب آشکار ہو چکی ہے کہ بانی پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ مقتدرہ سے مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ اُدھر دوسری سیاسی جماعتیں بھی بانی پی ٹی آئی سے بات چیت کیلئے تیار نظر نہیں آتیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ساتھ ڈائیلاگ کا راستہ ممکن نہیں رہا‘ اب بانی پی ٹی آئی کے خلاف غداری سمیت نئے مقدمات قائم ہوں گے۔ یعنی (ن)لیگ کا مؤقف ہے کہ سیاسی تناؤ کو ختم کرنے کیلئے وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنا نہیں چاہتی۔ بانی پی ٹی آئی کے بیانات مخالفین کے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں غیرجانبدار قوتوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے جو سیاسی کشیدگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ غیر جانبدار قوتوں سے مراد وہ افراد‘ ادارے یا تنظیمیں ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوتے اور جن کا مقصد صرف قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک میں استحکام اور ترقی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ غیرجانبدار قوتوں کی سب سے اہم ذمہ داری فریقین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا ہے۔ وہ ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کر سکتی ہیں جہاں فریقین اپنے مؤقف کا اظہار کر سکیں اور ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ یہ قوتیں فریقین کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کرنے میں بھی مدد اور ان کے مطالبات کے درمیان کوئی قابلِ قبول مصالحت تلاش کرنے میں تعاون کر سکتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاسی کشمکش کے دوران اکثر فریقین ایک دوسرے پر سے اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ غیرجانبدار قوتیں ایک ایسی فضا قائم کرسکتی ہیں جس میں دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو کئی ایک مقدمات کا سامنا ہے۔ایسے ہی مقدمات پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں مخالفین پر قائم کئے گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام سرکردہ رہنما پابندِ سلاسل تھے‘ آج ویسے ہی حالات کا سامنا پی ٹی آئی کو ہے۔ جس طرح پی ٹی آئی کے دور میں سیاسی مقدمات غلط تھے اُسی طرح آج کے سیاسی مقدمات کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا خوشگوار احساس ہے لیکن اس خوشی میں کبھی کبھی انتقام کا زہر در آتا ہے۔ مخالفین کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنے کا لطف لیا جاتا ہے اور سیاسی انتقام کی آگ میں انصاف کا ترازو برابر نہیں رہتا۔ یہ رویہ ظاہری طور پر اقتدار کو مضبوط بنانے کا باعث بنتا ہے لیکن حقیقت میں انتقامی سوچ کے اندر جمہوریت کی کمزوریاں پنپتی ہیں۔ جمہوریت میں مخالف آوازوں کو بزور طاقت دبانے سے ملک کی فکری فضا متاثر ہوتی ہے۔ سیاسی مخالفین کے نظریات‘ چاہے وہ ہم سے متفق ہوں یا نہ ہوں‘ قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان آوازوں کو دبانا ملک کے فکری تنوع کو کمزور کرتا ہے اور نئی سوچ پیدا ہونے کا راستہ روکتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی خوبصورت باغ سے رنگ برنگے پھولوں کو اکھاڑ پھینکا جائے اور صرف ایک ہی رنگ کے پھولوں کو کھلنے دیا جائے۔ ہمیں سیاسی کشیدگی اور تناؤ کے ماحول سے نکلنا ہو گا‘ مگر اس کیلئے ایک محفوظ راستہ بھی چاہیے۔ پی ٹی آئی مقتدرہ سے مذاکرات کو اپنے لیے محفوظ راستہ سمجھتی ہے‘ تاہم یہ یکطرفہ سوچ ہے۔ ثالثی کا کردار ادا کرنے والے کیلئے غیرجانبدار ہونا اور فریقین کا اس پر اتفاقِ رائے ضروری ہے‘ سو تحریک انصاف کو اس سوچ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمیشہ اسی فریق کو لچک دکھانی پڑتی ہے مذاکرات جس کی ضرورت ہوں‘ اس وقت پی ٹی آئی بظاہر زیر عتاب ہے‘ لہٰذا اسے ہی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
تاریخ کشیدگی اور تناؤ کو ختم کرنے والے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں پوپ یورپ کا ایک طاقتور سیاسی اور مذہبی رہنما ہوتا تھا۔ وہ نہ صرف کیتھولک چرچ کا سربراہ تھابلکہ اکثر بادشاہوں اور دیگر حکمرانوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے ثالثی کا کردار بھی ادا کرتا۔ پوپ کا بطور ثالث کردار کئی وجوہات کی بنا پر اہم تھا۔ سب سے پہلے یہ کہ پوپ کا ایک روحانی رہنما کے طور پر احترام کیا جاتا تھا‘ اس لیے اس کے فیصلوں کے رد ہونے کا امکان کم ہوتا تھا۔ دوسرا پوپ کو وسیع سیاسی اور سفارتی وسائل تک رسائی حاصل تھی جو اِن تنازعات کے حل میں مددگار ثابت ہوتے تھے۔ تیسرا پوپ کو غیرجانبدار سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ کسی بھی خاص بادشاہ یا حکمران سے وابستہ نہیں تھے۔ پوپ نے تنازعات کو حل کرنے کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال کیا۔ وہ اکثر بادشاہوں اور حکمرانوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات میں ملوث ہوتے تھے۔ وہ تنازعات کے حل کے لیے معاہدوں یا معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے بھی اپنے مذہبی اختیار کا استعمال کر سکتے تھے۔ کچھ معاملات میں پوپ نے فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی تاکہ تنازع ختم کیا جا سکے۔ پوپ کی ثالثی نے قرونِ وسطیٰ میں یورپ میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں نے بہت سی خونریز جنگوں اور تنازعات کو روکنے میں مدد کی۔
ماضی قریب میں دوحہ معاہدے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جسے رسمی طور پر افغان امن معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر 29 فروری 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ تھا۔ اس معاہدے کے اہم نکات میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا بھی شامل تھا۔ فریقین نے ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ اس معاہدے نے بین الافغان مذاکرات کا آغاز کیا جس کا مقصد افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک سیاسی تصفیہ کرنا تھا۔ قطر نے معاہدے کی ثالثی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے فریقین کے درمیان بات چیت کی میزبانی کی اور انہیں ایک معاہدے تک پہنچانے میں مدد کی۔ قطر نے طالبان کے لیے ایک سیاسی دفتر بھی فراہم کیا جس نے انہیں بین الاقوامی برادری کے ساتھ بات چیت کرنے اور اپنی ساکھ بہتر بنانے کا موقع دیا۔ دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ جو کام دنیا کی بڑی طاقتیں اربوں ڈالر کے وسائل خرچ کرکے نہ کر سکیں وہ کام قطر کی ثالثی سے ہو گیا۔ دنیا میں طویل جنگیں بھی اس وقت ختم ہوگئیں جب فریقین نے لچک کا مظاہرہ کیا‘ سو جب طویل جنگیں ثالثی سے ختم ہو سکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں امن معاہدہ طے پا سکتا ہے تو ہمارے ملک کے اندر ثالثی سے سیاسی کشیدگی ختم کیوں نہیں ہو سکتی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved