بہت غیر متوقع‘ بہت حیران کن۔ بھارت سے ایسے انتخابی نتائج کی خبریں آئی ہیں جن کی کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا۔ جو پیش گوئیاں کی جارہی تھیں اور جن میں بھارتی اور غیر ملکی تجزیے سبھی شامل تھے‘ان کے مطابق بی جے پی اپنے انتخابی اتحاد این ڈی اے کے ساتھ لوک سبھا میں دو تہائی اکثریت لینے والی تھی۔ جس کا مطلب تھا آئین میں مودی کی من پسند ترامیم۔ خود مودی کا نعرہ یہی تھا ''اب کی بار۔ چار سو پار‘‘ یعنی چار سو سے زیادہ نشستیں۔اور حالات کو دیکھتے ہوئے یہ نظر آرہا تھا کہ بی جے پی اپنے ہدف میں کامیاب ہوجائے گی۔لیکن یہ نعرہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔اگرچہ مودی اس بار بھی سادہ اکثریت سے حکومت بنا رہے ہیں لیکن اول تو ان کی دو تہائی اکثریت کا خواب ٹوٹ گیا‘دوسرے بی جے پی کی اپنی سیٹیں 240 ہیں اور ان کے انتخابی ساتھیوں کی نشستیں ملا کر انہیں 294 کا عدد حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 272 نشستیں چاہئیں۔ گویا حلیف جماعتوں کے مطالبات اور شرائط کے ساتھ ہی بی جے پی حکومت بنا سکتی ہے۔پھر بھی یہ برتری 21 نشستوں کی ہوگی اور اگر کوئی ایک بڑی جماعت مودی سے ٹوٹی تو ایوان میں ان کے لیے گنتی پوری کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کانگریس کو 99 نشستیں تو اپنی ملیں اور ان کی اتحادی جماعتیں ملا کر ان کے ارکان 234 بنتے ہیں ‘یعنی انہیں سادہ اکثریت ملنے اور حکومت بنانے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ اس کے باوجود یہ کانگریس کی اور اس کے انتخابی اتحاد جس کا مخفف انڈیا INDIAبنتا ہے ‘بڑی فتح ہے۔ اس نے بی جے پی کی مقبولیت میں بڑے بڑے شگاف ڈال دیے ہیں۔ دو تہائی کا خواب پورا نہیں ہونے دیا اور یہ تاثر ختم کرکے رکھ دیا ہے کہ مودی اور بی جے پی کو ہرایا نہیں جاسکتا۔ کانگریس کو 2019ء کے انتخابات میں جس برُی شکست کا سامنا کرنا پڑا ‘ اس کے بعد پارٹی نئے سرے سے اپنی حمایت کی لہر پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ 2019ء میں انڈین نیشنل کانگریس صرف 52 نشستیں جیت پائی تھی یعنی اتنی بھی نہیں کہ وہ اپوزیشن لیڈر کے لیے اہل ہوسکے۔ اس بار اس نے تقریباً ًدگنی یعنی 99 نشستیں حاصل کی ہیں اور بی جے پی کے بعد وہ لوک سبھا میں دوسری بڑی جماعت ہے۔
ایک اور حیرت انگیز رُخ مسلمانوں کے ووٹ کا ہے۔ 2024ء کے انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ نے بہت بڑا فرق ڈالا ہے‘ حالانکہ ہمیشہ سے یہ کہا اور سمجھا جاتا تھاکہ مسلمانوں کے بکھرے ہوئے ووٹ کوئی زیادہ اثر نہیں ڈال سکتے۔ اس بار یہ ہوا ہے کہ ان کروڑوں ووٹروں نے نمایاں فرق ڈالا ہے۔ خاص طور پر یوپی اور جنوبی بھارت میں۔ یوپی بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔کسی ریاست کی سب سے زیادہ سیٹیں یوپی میں ہیں یعنی 80 نشستیں۔ بجا طو رپر سمجھا جاتا ہے کہ جو یوپی جیت گیا وہی حکومت بنائے گا۔ اس بار کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے یہاں بی جے پی سے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں۔ خود کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی جو 2019ء میں اداکارہ سمرتی ایرانی سے شکست کھا گئے تھے‘ یہاں سے کامیاب ہوگئے ہیں اور ایوان میں پہنچ گئے ہیں۔ بظاہر وہی حزبِ اختلاف کے مرکزی رہنما ہوں گے۔ مودی بھی یوپی کے اپنے حلقے سے جیتے ہیں لیکن پچھلی بار کی نسبت انہیں اس بار کم ووٹ پڑے ہیں۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کی یو پی میں اس بار کامیابی کی کئی وجوہات ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا کافی ووٹ بینک ہے‘ خواہ وہ بکھرا ہوا ہی ہے۔ مسلمانوں نے طے کیا کہ کسی بھی پارٹی کے مسلم غیرمسلم امیدوار کو ووٹ دیا جاسکتا ہے ‘لیکن بی جے پی کو نہیں۔ سماج وادی پارٹی نے 37 اور کانگریس نے چھ سیٹیں جیتیں ۔ بی جے پی 33 نشستیں جیتی جو اگرچہ خاصی تعداد ہے لیکن 2019 ء میں یوپی ہی سے بی جے پی کو 64 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔گویا آدھی نشستیں بی جے پی نے گنوا دیں۔بی جے پی کی مخالف سماج وادی اور کانگریس کو ووٹ دیتے ہوئے مسلمان ووٹر نے دراصل مودی مخالف ووٹ ڈالے خواہ امید وار کوئی بھی تھا۔ اس طرح شاید پہلی بار نتائج یہ بتارہے ہیں کہ مسلمان ووٹ نے اپنی اہمیت اور طاقت اس بار منوائی ہے۔
اور یہ مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری بھی ہوگیا تھا۔گجرات کے مسلم کش فسادات کے مرکزی کردار مودی کا ماضی بھی سب کے سامنے ہے اور حال بھی۔ 2014ء سے مسلسل مسلم دشمن قوانین ‘ تقریروں اور بیانات کے بعد مودی کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنا کر انتخابات سے کچھ دن پہلے اس کی عظیم الشان تقریب سے مودی نے ہندو ووٹر ز کو بظاہر جیتا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ اس حلقے کی نشست ہار گئے۔ یہ ظاہرکرتا ہے کہ ہندو سنجیدہ طبقہ بھی ایسی پالیسیاں ناپسند کرتا ہے۔ یہ مسلمانوں ‘ دلت اور دیگر اقلیتوں کے لیے ایک ڈرواؤناخواب تھاکہ مودی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے اور وہ من مانے قوانین بنا سکیں۔ آپ بی جے پی کی مسلمان دشمنی کا اس سے بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہر بار کی طرح یہ انتخابی مہم بھی انہوں نے مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی تھی۔ مودی کا نظریہ ان دونوں کے بارے میں ''بیرونی دشمن‘‘ اور ''اندرونی دشمن ‘‘ کا رہا ہے۔وہ اس انتخابی مہم میں بھی مسلمانوں کو ''گھس بیٹھیے ‘‘ کہتا رہا ہے۔ یہ دشمنی اس سے بھی ظاہر ہے کہ400 امیدواروں میں سے بی جے پی کی طرف سے صرف ایک مسلمان امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا۔ملام پورم‘ کیرالا سے‘ جہاں مسلمانوں کی خاصی اکثریت ہے اور مسلمان امیدوار ہی ناگزیر تھا‘ بی جے پی نے ریٹائرڈ یونیورسٹی پروفیسر عبد السلام کو ٹکٹ دیا لیکن وہ ایک دوسرے مسلمان امیدوار محمد بشیر سے بہت بڑے فرق سے ہار گئے۔ محمد بشیر انڈین یونین مسلم لیگ (IUML)کے امیدوار تھے۔کیرالا کی 20 نشستوں میں بی جے پی کو اس بار ایک بھی سیٹ نہیں مل سکی۔
ویسے توبی جے پی کے علاوہ کانگریس بھی مسلمانوں کو بہت کم امیدوار بناتی رہی ہے۔ اس سال کانگریس کے مسلمان امیدوارصرف 19 تھے جبکہ 2019 ء میں یہ تعداد 34 تھی۔ آل انڈیا ترنمول کانگرس (TMC)کے اس بار مسلمان امیدوار چھ تھے جبکہ 2019ء میں 13 مسلمان امیدوار تھے۔ سماج وادی پارٹی کے مسلم امیدوار چار تھے جبکہ 2019ء میں آٹھ تھے۔انڈیا کے نام سے کانگریس کے انتخابی اتحاد نے 78 مسلمان امیداروں کو ٹکٹ دیے جبکہ 2019ء میںیہ تعداد 115 تھی۔ یوں لوک سبھا میں اس بار بھی مسلمان ارکان کی تعداد نہایت کم یعنی 24ہوگی جبکہ ان کی ملک میں 15 فیصد کے قریب تعداد بتائی جاتی ہے۔ یہ ہندو اکثریتی ملک میں دوسری بڑی تعداد ہے‘ لیکن ان حالات میں 24 کی تعداد بھی غنیمت سمجھی جارہی ہے۔
543 کے ایوان میں 24 کی تعداد اگرچہ پانچ فیصد بھی نہیں بنتی اور یہ مسلمانوں کی تعداد 15فیصد تک بڑھنی چاہیے لیکن میں پھر بھی دو لحاظ سے یہ انتخاب مسلمانوں کی جیت سمجھتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ پہلی بار مسلم ووٹر کی طاقت کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ دوسرے کہ یہ جنون میں مبتلا انتہا پسند مودی کا راستہ روکا گیا ہے۔فی الحال آئین میں بی جے پی کی من مانی تبدیلیوں کا راستہ رک گیا ہے۔یہ ایک ایسے طوفان کے سامنے دیوار کھڑی کرنے کی مثال ہے جسے روکنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved