آپ کہیں گے وہ تو اب بھی ہیں‘ تو انہیں ماضی کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ بالکل‘ وہ اب بھی ہیں مگر وہ نہیں جو آج سے نصف صدی پہلے تھے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کا بیڑا ہمارے حکمرانوں اور اس تعلیم کے شعبے سے وابستہ نوکر شاہی نے یوں غرق کیا ہے کہ اب پہچان مشکل ہے۔ کالجوں کی برطانیہ اور اس کے نمونے پر برصغیر میں جو ساخت اور روح تھی‘ اب ہمارے ہاں تحلیل ہو چکی ہے۔ جب ہم کالج پہنچے تب سیاست‘ بدعنوانی اور لاعلمی کا رنگ اتنا غالب نہیں تھا۔ برطانوی راج کے قوانین‘ حکومت کا انتظامی ڈھانچہ اور تعلیمی فلسفہ ہمارے شعبے میں ابھی برقرار تھا۔ جن قوموں نے تعلیم کا راز پا لیا ہے ان کی ترقی اب آسمانوں کو چھو رہی ہے اور جو سستی روٹی اور تنوروں کی سیاست میں سانس لیتے ہیں وہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کالجوں کی مربوط تعلیمی نظام میں حیثیت اور کردار کے بارے میں بات کروں‘ تعلیم کا قوموں کی تقدیر بدلنے میں جو کردار رہا ہے‘ اس کے صرف دو حوالے دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ میجی انقلاب‘ جو1868ء میں جاپان میں آیا‘ جس نے چند دہائیوں میں ملک کو جاگیرداری ریاست سے صنعتی ریاست میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ حکومت نے اپنے بہترین دماغ مغرب میں خفیہ طور پر یہ معلوم کرنے کے لیے ہر ملک میں بھیجے کہ ان کا نظام کیسا ہے‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں کیا طریقے اپنائے ہوئے ہیں‘ انتظامی امور کن خطوط پر منظم ہیں‘ عسکری طاقت کو کیسے ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس انقلاب کی بنیاد تعلیم ہی تھی۔ اس صدی کے آخری عشرے میں جاپان عالمی طاقت بن چکا تھا۔
دوسری مثال گزشتہ صدی کی ہے۔ چین نے اشتراکی نظام کو خیرباد کہا اور امریکہ سے دوستی اور تعاون کے رشتے استوار کئے تو اس زمانے میں‘ جب میں خود ایک امریکی یونیورسٹی میں طالب علم تھا‘ ہزاروں کی تعداد میں طلبہ کو خصوصی طور پر معیار سے استثنا دے کر داخلہ دیا گیا۔ اب تو ہر سال لاکھوں چینی طلبہ وہاں جاتے ہیں۔ صرف چار دہائیوں میں چین کی ترقی کا سفر دیکھ لیں‘ وہ ملک کیا سے کیا ہو گیا ہے‘ اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہماری جامعات اور کالج پہلے 25 سال تک برطانوی نظامِ تعلیم کی عکاسی کرتے تھے۔ کالج جامعات سے جڑے ہوئے تھے۔ کم از کم نصاب اور امتحان کی حد تک‘ مگر اس طرح جامعات کا حصہ نہ تھے جس طرح آکسفورڈ اور کیمبرج اور دیگر جامعات کے کالج ایک ہی شہر اور کیمپس کا حصہ ہیں۔ ہمارے کالج دور دراز کے علاقوں میں بنائے گئے تھے۔ دو مقاصد سامنے تھے۔ ایک یہ کہ پیشہ ورانہ تعلیم‘ جیسے انجینئرنگ اور میڈیسن کے لیے طلبہ کو تیار کیا جائے اور دوسرا‘ جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف شعبوں میں افرادی قوت کی غرض سے اس سطح پر اساس رکھی جائے۔ برطانیہ‘ امریکہ اور دیگر ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ کالجوں کا کردار بدلتا رہا۔ ہمارے ہاں بھی بدلا مگر زوال‘ بدامنی‘ بے ضابطگی اور افراتفری کی صورت میں‘ اور گراوٹ کا یہ سفر جاری ہے۔ برطانیہ میں کالجوں اور سکولوں کی تعلیم کے بعد طالب علموں کو جامعات اور پروفیشنل اداروں میں داخلے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کچھ پروفیشنل تعلیم بھی فراہم کرتے ہیں‘ جیسے میڈیکل ٹیکنیشن اور صنعتوں کے لیے ماہر کاریگر۔ امریکہ میں کالج دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ جو کسی یونیورسٹی کا حصہ ہیں اور دوسرے کمیونٹی کالج ہیں۔ زیادہ تعداد دوسری قسم کی ہے۔ ان کا کام زیادہ تر مختلف صنعتوں اور پیشوں اور معیشت کے کئی شعبوں میں تعلیم کے ساتھ ان طالب علموں کو بھی تیار کرنا ہے جو کمزور استطاعت کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں داخلے سے محروم رہتے ہیں۔ کمیونٹی کالج پیشہ ورانہ تعلیم کے مرکز ہیں‘ جہاں کے فارغ التحصیل کارخانوں اور ہسپتالوں سے لے کر معیشت کے ہر شعبے میں کام کرتے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہر ادارے کو‘ چاہے تعلیم یا کسی دیگر شعبے سے ان کا تعلق ہو‘ وقتاً فوقتاً احتسابی جائزے سے گزرنا ہوتا ہے۔ تبدیلیاں ہر چند سال بعد لائی جاتی ہیں‘ کمزور اور اچھے پہلوؤں پر فوکس کیا جاتا ہے اور اس طرح تعلیمی ادارے وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہیں۔
ہمارے کالجوں کے عروج و زوال کی داستان بہت المناک اور لمبی ہے۔ پہلے تو ہر صوبے کی بنیاد پر ایک بہت بڑی نوکر شاہی کے جواز کے لیے صوبائی نظام اوپر سے لے کر نیچے تک بنایا گیا۔ دنیا میں ایسا نظام کسی نے کہیں نہیں دیکھا۔ برطانیہ‘ امریکہ اور جن دیگر ممالک کے بارے میں مجھے معلوم ہے‘ کسی بھی استاد کا تقرر ایک ہی کالج میں ہوتا ہے‘ وہ کسی دوسرے کالج میں صرف اس صورت میں جا سکتا ہے جب وہاں کوئی اسامی خالی ہو اور وہ اس کے لیے اپلائی کرے۔ سکولوں اور جامعات میں بھی یہی نظام ہے۔ ہمارے ہاں ایک کالج سے دوسرے میں تبادلے کی سہولت نے نظام کو غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اچھے کالجوں کا لاہور میں یا کچھ دیگر بڑے شہروں میں معیار اس لیے نیچے آیا کہ سفارش کی بنیاد پر کوئی بھی اور کہیں سے بھی آسکتا ہے‘ اور پھر تبادلوں کی سیاست اور اپنی پسند کی جگہ پر جانے کے لیے بدعنوانی منظم ہو چکی ہے۔ دوسرے سرکاری کالجوں کا ڈسپلن اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اساتذہ نے اپنی اپنی اکیڈمیاں بنا رکھی ہیں‘ جہاں اپنے ہی طلبہ سے بھاری فیس لے کر اپنے گھروں یا کرائے پر لیے ہوئے مکانوں میں کھلے عام ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔
ٹیوشن پڑھانے کی بیماری ہمارے زمانے میں شروع ہو چکی تھی لیکن تعلیمی اخلاقیات اور انتظامی کمزوریاں اتنی زیادہ نہیں تھیں کہ اساتذہ کالجوں میں سرے سے نہ جائیں اور اگر ان کی زیارت ہو بھی جائے تو ان کی آمد ورفت صرف حاضری لگانے تک محدود ہو۔ یہ تو صوبائی محکمہ تعلیم سے کوئی پوچھے کہ اس نے کتنے اساتذہ کو کھلی بددیانتی کی بنیاد پر نوکری سے فارغ کیا ہے؟ جواب زیرو ہوگا۔ اس طرح کمانے والے دوسروں کو بھی کچھ حصہ دیتے ہوں گے۔
کبھی کچھ ایسے کالجوں میں جانے کا بھی اتفاق ہوا جہاں ایسا لگا کہ سب چھٹی پر ہیں۔ اب تو ہر ایک دیوار پر پوسٹ گریجوایٹ کالج کا اشتہار نمایاں نظر آتا ہے۔ ڈگریاں لینا اتنا آسان ہے اور یہ آسانی اگر ملک کے جنوب کی طرف سفر کریں تو اور بھی بڑھتی جاتی ہے کہ تعلیم کے دیوالیے کا گمان ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں کالجوں میں پیشہ ور اساتذہ ادیب‘ شاعر‘ دانشور اور صرف پڑھنے لکھنے سے تعلق رکھنے والے معتبر لوگ ہوا کرتے تھے۔ کالج‘ گھر‘ کیفے ٹیریا اور لائبریری میں وہ ہر وقت طلبہ کے ساتھ ہر طرح کے علمی اور ادبی موضوعات پر بات کرتے اور اگلی منزلوں کی طرف ہمارے دلوں میں آگے بڑھنے کی ہمت دلاتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ شاید ایسے اب بھی ہوں گے مگر جو کچھ آج کے سرکاری کالجوں کے بارے میں پڑھا اور سنا اور دیکھا ہے وہ بھوت بنگلوں کے سوا کچھ نہیں۔ ہر جگہ ان کا معیار اور شہرت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ جنہیں داخلہ نہیں مل سکتا یا نجی کالجوں میں جانے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے‘ وہ سرکاری کالجوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اگر ہماری تعلیمی نوکر شاہی اور سیاسی حکمرانوں میں تعلیم اور کالج کی اہمیت کا کوئی ادراک ہوتا تو کم از کم ہر پانچ سال بعد ان کی مجموعی کارکردگی پر رپورٹ تیار ہوتی‘ اصلاحات کا عمل جاری رہتا اور انہیں صنعت اور معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا۔ آج کے سرکاری کالج بس برائے نام ہیں۔ نام تو بہت رومانوی ہیں‘ لیکن کالج کا جو مقصد ہونا چاہیے تھا‘ وہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved