رسید ملنے کا سادہ مطلب ہوتا ہے جس کے نام پیغام تھا‘ اُس تک پہنچ گیا۔ غدار محل مورخہ 10 نومبر 2023ء کے عنوان سے ''وکالت نامہ‘‘ چھپنے کے بعد کچھ لوگوں نے سندیسے بھجوائے کہ آپ کا اشارہ کس طرف تھا۔ میں نے کہا: ناقابلِ تردید و تنسیخ تاریخ کی طرف۔ دوسرا کالم‘ انقلابِ فرانس کے تناظر میں 27 مئی 2024ء اور 31 مئی 2024ء کے دن ''یہ وطن تمہارا ہے‘‘ کے نام سے دو کالم اسی صفحے پر شائع ہوئے۔ جن میں سے تین کرداروں کو لوگوں نے پاکستان کے زمینی حقائق پر فٹ کرنے کے لیے بہت کچھ لکھا بلکہ لکھ ڈالا۔ کچھ عزیزوں نے میرا نام لے کر بھی طبع آزمائی کی۔ جب مکتوب الیہ تک پیغام پہنچ جائے تو سمجھیں آپ کو رجسٹری موصول ہونے کی اطلاع مل گئی؛ چنانچہ پہلی رسید کے طور پر مصطفی زیدی کی نظم سایہ کا ایک قطعہ‘ مکتوب الیہان کو روانہ کرتا ہوں۔
سنا ہے عالمِ روحانیاں کے خانہ بدوش
سحر کی روشنیوں سے گریز کرتے ہیں
سحر نہیں ہے تو مشعل کا آسرا لائو
لبوں پہ دل سے سلگتی ہوئی دعا لائو
دلوں کے غسلِ طہارت کے واسطے جا کر
کہیں سے خونِ شہیدانِ نینوا لائو
دوسری رسید: یہ حکومتی وزیروں کی طرف سے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت کا جواب ہے جو گزرے جمعہ کے دن میں نے 90 منٹ کی ملاقات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین سے اڈیالا جیل میں لیا۔ قیدی نمبر 804 نے کہا: مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فارم 47 کے ذریعے عوام کے سب سے بڑے تاریخی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا۔ بابر! ذرا خود سوچ لو‘ اگر ڈاکو کسی کا گھر لوٹیں‘ پھر لوٹے ہوئے سامان پر بیٹھ کر گھر کے مالکوں سے کہیں کہ تم ڈکیتی والی واردات کو بھول جائو‘ بیٹھو اور ہم آپس میں مذاکرات کرتے ہیں۔ عمران خان کا جواب تھا: مینڈیٹ کے چوروں کے ساتھ مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرے ایک کمنٹ کے جواب میں کپتان نے اپنے اس مؤقف کی ایک اور وضاحت بھی پیش کی۔ بولے: یہ بتائو مشرف کے دور میں کیا کبھی کسی سیاسی جماعت نے شوکت عزیز سے مذاکرات کیے؟ حالانکہ وہ نمائشی وزیراعظم بھی تھا۔ اُن کا اگلا نکتہ یہ تھا‘ ہم نے اپنے دورِ حکومت میں پارلیمانی لیڈروں کی سطح کے مذاکرات کیے تھے۔ جن میں کھل کر (ن) لیگ اور پی ڈی ایم نے جو دعوے کیے وہ حرف بہ حرف لندن پلان کے مطابق یکے بعد دیگرے ثابت ہوتے چلے گئے۔ اُن کا دعویٰ تھا‘ جب تک ملک میں عمر عطا بندیال چیف جسٹس آف پاکستان ہیں آپ اسمبلیاں توڑیں‘ اپنی صوبائی حکومتیں توڑیں یا جو مرضی کر لیں‘ ہم کوئی الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ تب آپ میرے ساتھ ساتھ تھے اور ہمیں خوب پتا تھا کہ پی ڈی ایم میں اتنی ہمت ہے نہ طاقت۔ وہ کسی اور کا پڑھایا ہوا سبق طوطے کی طرح فر فر بول رہے تھے۔ پھر کہنے لگے: آپ وزیرِ پارلیمانی امور تھے‘ ان میٹنگوں میں شریک ہوتے تھے۔ جیسا پی ڈی ایم نے کہا پھر ویسا ہی ہوا۔ عمر عطا بندیال کی چیف جسٹس شپ میں ملک کے اندر کوئی الیکشن نہیں ہو سکا۔ اُس وقت کے سپریم کورٹ بینچ کے آرڈرز ہوا میں اُڑا دیے گئے۔ عمران خان نے اگلے واقعہ کی طرف توجہ دلائی اور کہنے لگے: وہ کھل کر کہتے تھے کہ اگلے الیکشن سے پہلے مجھے جیل میں ڈالا جائے گا۔ مجھے سزا ہو گی اور پھر قوم کے سامنے میرے خلاف ایف آئی آرکی لائنیں لگ گئیں۔ مجھے الیکشن مہم سے روکنے کے لیے گرفتار کیا گیا۔ طاقتور حلقوں کے خود ساختہ سپوکس مین ٹی وی پر بیٹھ کر کہتے تھے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں ملے گا اور ہم سے بلے کا انتخابی نشان غیر آئینی طور پر چھین لیا گیا۔ کسی جمہوری ملک میں اس طرح کا واقعہ جمہوری اقدار پہ خودکش حملہ سمجھا جاتا‘ مگر ایسا ہی ہوا۔ (ن) لیگی کہتے تھے نواز شریف عمر عطا بندیال کے بعد واپس آئیں گے‘ اُن کی تاحیات نااہلی ختم ہو جائے گی۔ وہ الیکشن مہم میں حصہ لے کر چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے۔ مشرف دور میں بھی جن سیاسی قوتوں نے مذاکرات کیے‘ جنرل مشرف سے کیے‘ باقی وزرائے اعظم نمائشی تھے۔ عمران خان نے واضح طور پہ یہ بھی کہا کہ الیکشن چوری کر لیا گیا ہے۔ یہ نظام ماورائے آئین ہے۔ نیا الیکشن کمیشن بنا کر فیئر‘ فری اور ٹرانسپیرنٹ الیکشن کے بغیر قوم کسی اور بات کو تسلیم نہیں کرے گی۔ سب نے دیکھا کرپشن‘ نالائقی گٹھ جوڑ نے ملکی معیشت اورعوام کا کتنا بُرا حال کیا۔
کون طاقوں میں رہا؟ کون سرِ راہ گزر
شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے
تیسری رسید: پہلے تاریخ سبق دینے میں دیر لگاتی تھی مگر اب ادھر تاریخ پر دست درازی ہوئی اُدھر تاریخ نے جوابی تھپڑ رسید کر دیا۔ رجیم چینج کے بعد نجومی نجومنیاں جو پیش گوئیاں کر کے 76 سالہ تاریخ دہرانے کی کوشش کرتے تھے تاریخ اُنہیں ساتھ ساتھ تھپڑ رسید کرتی گئی۔ اس قافلے کی قیادت چڑیا والے نجومی اور نجومن کے ہاتھ ہے۔ وہی ہاتھ جس میں ہر روز پیشگوئی کا سکرپٹ پکڑایا جاتا ہے۔ سکرپٹ تھا عمران خان مقتدرہ کا سلیکٹڈ ہے‘ جیسے پیچھے سے ہاتھ ہٹا یہ دھڑام سے زمین پر گرے گا۔ تاریخ نے دکھایا جونہی سائفر والی سازش ہوئی 76 سال کے وہ سارے جرم برہنہ ہو گئے جو آج تک پوشیدہ رہے۔ دوسری تہمت تھی عمران نشے کا عادی ہے۔ جیل میں نشہ نہیں ملتا وہ دو دن قید نہیں کاٹ سکتا۔ تاریخی تھپڑ کی رسید سامنے ہے‘ اللہ کے متوکل بندے کو آج 310 دن مکمل ہو گئے‘ جیل میں ورزش کرتے اور قرآن پڑھتے۔ یہ بھی نجومی نجومن پیشگوئی تھی کہ عمران حکومت ختم ہوئی تو لوگ اسے بھول جائیں گے۔ وہ حکومت سے نکلا‘ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ نواز شریف کا خاندان کہتا تھا‘ عمران کرسی سے اُترتے ہی لندن جمائما کے پاس بھاگ جائے گا۔ تاریخی رسید نے دکھایا یہ شیر کا بچہ نہ سعودیہ بھاگا نہ لندن بلکہ اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ عمران کے ٹائیگرز پر خود فروشوں کے علم نجوم نے کہا: ممی ڈیڈی نازک برگر بچے سختی برداشت نہیں کر سکتے۔ ظلم کے 76 سالہ ریکارڈ ٹوٹے‘ جواباً گلی گلی میں ٹائیگر کھڑے ہو گئے۔
چوتھی رسید مظفر آباد سے احمد فرہاد کی ہڈ بیتی ہے۔
پیٹھ پیچھے سے ترے وار بھی دیکھ آئے ہیں
جو تھے پوشیدہ وہ کردار بھی دیکھ آئے ہیں
نہ ڈرا آگ سے بیٹا ہوں براہیم کا میں
ترے نمرود کی وہ نار بھی دیکھ آئے ہیں
جس کو دعویٰ ہے خدائی کا زمیں پر‘ سُن لے
ہم تو فرعون کا دربار بھی دیکھ آئے ہیں
اور کیا چاہیے؟ اے ارضِ وطن تیرے لیے
طوق بھی چوم لیا‘ دار بھی دیکھ آئے ہیں
کاش! میں لکھ سکتا چٹان نما قیدی کو سنگ دل محبوب کہنے والے کون کون‘ چرن چھونے کے متلاشی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved