میں ایک دیہاتی آدمی ہوں۔ آبائو اجداد کا پیشہ زمینداری تھا۔ میٹرک کے بعد 1963ء میں حصولِ تعلیم کیلئے گائوں سے لاہور آیا تو دل گائوں کے گلی کوچوں‘ کھیتوں اور فصلوں کے دھیان میں کھویا رہتا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ دیہاتی شہری بن گیا۔ زندگی کے 61 سال شہروں ہی میں بیت گئے۔ زندگی میں کئی واقعات وحوادث پیش آتے ہیں۔ اکثر چیزیں ذہن سے محو ہو جاتی ہیں‘ مگر کچھ مناظر ایسے ہوتے ہیں جن کے انمٹ نقوش لوحِ حافظہ پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ لاہور آنے کے چند روز بعد دورِ طالبعلمی کی ناپختہ عمر کا ایک واقعہ آج تک یادوں کے البم سے غائب نہیں ہوا۔ یہ ہے شہیدِ وفا‘ اللہ بخش کی شہادت کا واقعہ۔ نہایت پیارے اور جگری یاروں کی سینکڑوں شہادتیں ہوئیں‘ مگر آنکھوں کے عین سامنے وقوع پذیر ہونے والی یہ واحد شہادت تھی جو کبھی بھول نہیں سکی۔ اللہ بخش کو ایک ہی مرتبہ دیکھا اور وہ بھی اس وقت جب وہ شہادت کی وادی میں اترے۔
یہ اکتوبر 1963ء کی بات ہے۔ جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماع عام بیرون بھاٹی گیٹ لاہور منعقد ہوا۔ چٹاگانگ اور سلہٹ سے کوئٹہ تک اور کراچی سے چترال تک اور ڈھاکہ سے گلگت بلتستان تک پورے پاکستان سے ہزاروں مرد وخواتین اور بچے اس اجتماع میں شرکت کیلئے پورے ذوق وشوق سے حاضر ہوئے۔ یہ ایوب خان کی آمریت کا دور تھا اور مغربی پاکستان کا گورنر ایک سخت گیر بلکہ سنگدل شخص نواب امیر محمد خاں آف کالا باغ تھا۔ پولیس اور دیگر ادارے ہمیشہ آمروں کے اشارۂ ابرو پر کارروائیاں کر گزرتے ہیں۔ یہ مجبور بھی ہوتے ہوں گے مگر عموماً اس ملازمت میں ان کی افتادِ طبع بھی ایسی ہو جاتی ہے کہ چند سلیم الفطرت اہلکاروں کو چھوڑ کر ظلم ان کا روز مرہ کا مشغلہ بن جاتا ہے۔ ا قتدار کے محلات میں بیٹھے یہ افراد سر اٹھا کر چلنے والے کسی شخص کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ''سبق سکھا دو‘ عبرت کا نشان بنا دو‘‘ ان کا تکیہ کلام ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض نے کیا خوب نقشہ کشی کی ہے۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جماعت اسلامی کسی ایک حکومت میں نہیں ہر دور میں حکمرانوں کی آنکھوں کا کانٹا رہی ہے۔ اس جماعت کو سول اور آمر‘ سبھی حکمرانوں نے ہمیشہ اپنا مخالف تصور کیا۔ ایوب خان نے اپنے مارشل لاء کے دوران سب سے زیادہ نشانۂ ظلم جماعت اور اس کی قیادت ہی کو بنایا۔ مارشل لاء کا اعلان ہوتے ہی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگ گئیں۔ مولانا مودودیؒ اور مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان جیلوں میں بند کر دیے گئے۔ جماعت کو خلافِ قانون قرار دے کر اس کے دفاتر کو سیل کر دیا گیا۔ یہ بھی ہماری ملکی تاریخ کا ایک جانب سیاہ اور دوسری جانب درخشندہ باب ہے کہ مارشل لاء حکومتوں نے سب سے زیادہ جماعت اسلامی کو نشانۂ انتقام بنایا۔ جماعت نے پوری عزیمت کے ساتھ جبر کا مقابلہ کیا مگر کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ قیدو بند اور سیاسی پابندیوں کے خلاف جماعت کی قیادت نے عدالتی چارہ جوئی کی درخشندہ تاریخ رقم کی اور قانونی جنگ لڑ کر جیلوں سے آزادی پائی۔ جماعت کو بطور سیاسی جماعت بحال کرانے میں بھی عدالت کے فیصلوں کے نتیجے میں کامیابی حاصل کی گئی۔ انہی ایام میں کل پاکستان اجتماعِ عام منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مرکز کی ایوبی اور صوبے کی کالاباغی حکومت کو یہ جرأت مندانہ فیصلہ ہضم نہ ہوا۔ پہلے تو لائوڈ سپیکر پر پابندی لگائی گئی اور پھر اگلی خطرناک سکیم کا پلان بنایا گیا جس کا پورا ریکارڈ قومی تاریخ میں محفوظ ہے۔
اس اجتماع کے انعقاد کے وقت میں اسلامیہ کالج‘ ریلوے روڈ لاہور میں سال اوّل (ایف اے) کا طالبعلم تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے‘ مگر صحافیوں کو مولانا کے گرد منڈلاتے اور مختلف سوالات کرتے دیکھا تو احساس ہوا کہ زیر زمین یا برسر زمین کچھ لاوا پک رہا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لاوا گورنر ہائوس میں پک رہا تھا۔ میں اپنی افتادِ طبع کے مطابق کوشش کرتا تھا کہ کسی طرح مولانا کے قریب رہ کر ان کی زبان سے کوئی بات سنوں‘ حالانکہ نہ میری کوئی حیثیت تھی نہ مقام۔ میں بہت ساری باتیں وقت گزرنے کے ساتھ بھول جاتا ہوں‘ مگر عجیب بات ہے کہ اُس وقت کے سارے واقعات لوحِ حافظہ میں پوری طرح محفوظ ہیں۔
لائوڈ سپیکر کے استعمال پر حکومت کی طرف سے پابندی لگا دینے کی وجہ سے اجتماع سے ایک روز قبل ہر شخص پریشان تھا کہ ایک لمبی پٹی پر پھیلی ہوئی اجتماع گاہ کی کارروائی اور خطابات کی سماعت کیسے ممکن ہو گی؟ صحافی بھی بہت تجسس میں تھے‘ مگر مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کی قیادت مطمئن تھی۔ صحافی خبر کی تلاش میں مضطرب تھے اور مولانا سے مسلسل سوال ہو رہے تھے کہ اب آپ اجتماع کیسے کریں گے؟ معروف ادیب‘ صحافی اور بے مثال شاعر شورش کاشمیری نے بڑے اصرار کے ساتھ پوچھا تو آپ نے فرمایا ''شورش صاحب! کل تک انتظار فرمائیے‘‘۔ حالات بڑے خطرناک تھے۔ رمز شناس شورش نے اس موقع پر انقلابی نظم لکھی تھی۔ اس کا ایک ایک شعر درد میں ڈوبا ہوا اور ایمان سے مالا مال ہے۔
اے مرے ملک کے اسلامی جماعت کے امیر
کیا لکھوں کون سی خوبی تری تصویر میں ہے
جذبۂ شوق ترے دیدہ و دل کی دولت
رُوحِ اسلام یقینا تری تحریر میں ہے
عہدِ ماضی کی حرارت ترے سینہ میں نہاں
قرنِ اوّل کی جسارت تری تقریر میں ہے
میں نے ''تفہیم‘‘ کے اوراق پہ محسوس کیا
ایک سیلابِ معانی تری تفسیر میں ہے
تُو نے جو کچھ بھی لکھا ٹھیک لکھا خوب لکھا
کاٹ ایسی کسی خنجر میں نہ شمشیر میں ہے
شورش کے قلم و زبان میں ایک بے مثال تاثیر تھی۔ مرحوم جب فی البدیہہ کسی موضوع پر کوئی نظم یا غزل کہتے تو یوں لگتا جیسے قدرت کی طرف سے ان پر شعر یوں القا کیے جا رہے ہیں جیسے آسمان سے موسلادھار بارش نازل ہوتی ہے۔ شعر وشاعری میں وہ ہمیشہ اپنے آپ کو اقبال کا پیرو سمجھتے اور خطابت میں سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کا شاگرد اور خوشہ چین گردانتے۔ شعر وسخن اور شعلہ نوائی میں ان دونوں عظیم شخصیتوں کے افکار کی جھلک مرحوم کے کلام وخطاب میں نظر آتی ہے۔ جن حالات میں شورش نے یہ نظم کہی تھی‘ مولانا مودودیؒ کی زندگی کو خطرات درپیش تھے۔ آپ کو اللہ نے محفوظ رکھا اور قافلۂ حق کے سپاہی اللہ بخش وادیٔ شہادت میں اتر گئے۔ شورش کی نظم کے گیارہ اشعار کا ہر مصرع اپنے اندر معانی کا سمندر سموئے ہوئے ہے۔
مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے یہی سوچتا ہوں
ایک دن جامِ شہادت تری تقدیر میں ہے
سید احمدؐ کی روایاتِ مقدس کو سلام
دولتِ کون و مکاں سنتِ شبیرؓ میں ہے
جماعت کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ تلاوت قرآن کے بعد مولانا مودودیؒ کا افتتاحی خطاب ہو گا جس کا متن سائیکلو سٹائل کر لیا گیا تھا اور اکابر جماعت میں سے بارہ نقیب مقرر کیے گئے تھے۔ برابر فاصلوں پر بارہ میزیں لگا دی گئیں جن پر کھڑے ہو کر تمام نقیب مولانا کی تقریر کا متن اپنے سامنے بیٹھے سامعین کو سنانے کے لیے اپنی اپنی جگہ پہنچ گئے تھے۔ پروگرام شروع ہوا۔ مولانا نے اور نقبا نے حمد و ثناء اور درود وسلام کے بعد خطاب کے چند ابتدائی فقرے ہی کہے تھے کہ غنڈہ گردی کا ایک باب کھل گیا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved