امریکہ میں قومی کرکٹ ٹیم نے جو تماشا لگایا ہے اس کے تناظر میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین فرماتے ہیں کہ کرکٹ ٹیم کو بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا کہ پہلے ان کا خیال تھا کہ معمولی سرجری سے کام چل جائے گا لیکن حالات دیکھتے ہوئے ان کا خیال بدل گیا ہے۔ کمال دبنگ کا بیان ہے کیونکہ صاحب نے اپنے اوپر ذرا برابر ذمہ داری نہیں لی۔ ندامت تو یہاں کا رواج اب رہا نہیں‘ لہٰذا اس لحاظ سے انہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جیسے ہر میدان میں ہم سارا ملبہ دوسروں پہ ڈالتے ہیں‘ یہاں بھی یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ حالانکہ سوچا جائے تو کرکٹ ٹیم نے کچھ ایسا انوکھا نہیں کیا۔ وہ بھی ہم ہی سے ہیں اور جو قوم کے حالات ہیں اسی کے عین مطابق کرکٹ ٹیم کی کارکردگی رہی ہے۔
یہ درست نہیں کہ کامیاب ممالک ہی کھیل کے میدان میں جوہر دکھا سکتے ہیں۔ کئی چھوٹے یا درمیانے قسم کے ممالک ہیں جن کے ایتھلیٹ بہت نمایاں رہے ہیں۔ درمیانی طوالت کی دوڑوں میں مراکش کے ایتھلیٹوں نے نام کمایا ہے۔ لمبی دوڑوں میں کینیا کے ایتھلیٹوں کی کارکردگی دنیا کو حیران کرتی رہتی ہے۔ 1960ء کے اولمپکس‘ جو روم میں منعقد ہوئے تھے‘ اس میں دنیا دیکھتی رہ گئی جب ایتھوپیا کے ابیبی بیکیلا نے ننگے پیر میراتھن کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔ تصور کیجئے کہ میراتھن‘ جو کہ 26 میل پر محیط ہوتی ہے‘ اسے کوئی ننگے پیر دوڑے‘ لیکن یہ آج تک نہ بھولنے والا بیکیلا کا اعزاز ہے۔
پاکستانی کرکٹ کا مسئلہ البتہ ذرا مختلف ہے کیونکہ جس طریقے سے ملک چلایا جا رہا ہے اسی طریقے سے کرکٹ کے معاملات ہینڈل کئے جاتے ہیں۔ طرزِ مینجمنٹ دونوں کی ایک ہے‘ لہٰذا پاکستان کے حالات اور پاکستانی کرکٹ کے حالات میں بہت گہری مماثلت دیکھی جا سکتی ہے۔ جو نکماپن ملکی معاملات میں نظر آتا ہے وہی کرکٹ کی سیاست میں نمایاں ہے۔ میرٹ نام کی چیز ہمارے کلچر میں اب رہی نہیں اورکرکٹ کے حالات بھی اسی معیار پر چلائے جاتے ہیں۔ ساری مینجمنٹ کا سٹائل ہی سفارشی بنیادوں پر چلایا جاتا ہے اور یہ ہم سب جانتے ہیں۔ لہٰذا کوئی بڑی سرجری کرنی ہے تو اس سٹائل پر کی جائے‘ لیکن ایسا یہاں ہونا نہیں۔ اپنے میں جھانک کر دیکھنا نہیں اور بڑھکوں سے کام چلانا ہے۔ یہاں کرکٹ ٹیم نے نہ صرف اپنا حشرکیا بلکہ سامانِ رسوائی پوری قوم کیلئے پیدا کیا اور پھر ایسا بیان دے دیا جاتا ہے جو سارے تماشے سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہوتا ہے۔
کرکٹ پر سنگ باری سے پہلے کچھ اپنا تو ہم دیکھ لیں کہ قوم کی حالت کیا کر دی گئی ہے اور کن مسائل میں قوم پھنسی ہوئی ہے۔ حالات ہمارے دائمی طور پر نرالے رہتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی مثال ہماری تکلیف بھری تاریخ میں نہیں ملتی۔ سرجری اگر ہو تو پہلے فیصلہ یہ ضروری ہے کہ شروع کہاں سے کی جائے۔ اور اگر یہ سوال پوچھیں تو بات بڑی دور تلک چلی جاتی ہے۔ چین کے حالیہ دورے کو ہی لے لیجئے‘ ہمارے قومی وفد میں جو جو شامل تھے ایسے ودھیا سوٹ پہنے ہوئے تھے کہ کسی نے درست ہی سوشل میڈیا پر لکھا کہ لگتا ہے کہ ہم چین کو قرض دینے گئے ہیں۔ مختلف مواقع پر محترم وزیراعظم نے جو سوٹ زیب تن کئے اُنہیں اکٹھا کیا جائے تو ایک باقاعدہ فیشن پریڈ منعقد ہو جائے۔ لیکن رہنے دیجئے‘ ایسی باتوں کا کسی پر کیا اثر۔ ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اور اس سے بدتر بھی ہو جائیں‘ کسی کو یہاں فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ سوٹوں والی بات ویسے ہی نہیں کی‘ ان کا ایک سمبالک (symbolic) معنی ہے کہ ہمیں کسی چیز کی کوئی پروا نہیں۔ معاشی حالات خراب ہیں تو مزید قرضے لیے جائیں گے۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی اپنے وسائل سے نہیں ہوتی توکوئی بات نہیں کیونکہ ہم نے ہاتھ زیادہ پھیلانے ہیں اور مزید قرضوں کی کوشش کرنی ہے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد بھی یحییٰ خان اور ان کا ٹولہ اقتدار چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔ یہ تو اندر سے ہلچل ہوئی تو اقتدار چھوڑنے پر وہ مجبور ہوئے۔ پی ٹی آئی والے ایک چیز ذہن میں رکھ لیں کہ ان سے کسی نے بامعنی بات چیت نہیں کرنی۔ بات چیت ہو گی تو اگلوں کی صوابدید پر‘ پی ٹی آئی کی مرضی کے مطابق نہیں۔ مذاکرات کی جو پھلجھڑیاں چھوڑی جاتی ہیں قطعی بے معنی ہیں کیونکہ حالات کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ مرضی سے اقتدار میں لچک کوئی پیدا نہیں کرنی۔
1977ء کی بات ہے جب جنرل ضیاالحق اقتدار پر قابض ہو چکے تھے کہ ہم کچھ لوگ چکوال اپنے ڈیرے پر بیٹھے تھے‘ گفتگو شروع ہوئی کہ جو نوے روزہ انتخابات کا وعدہ ہوا ہے‘ کیا انتخابات واقعی ہو جائیں گے؟ میں نے کہا کہ انتخابات ہوں گے کیونکہ عالمی پریشر ہے‘ وعدہ بھی ہوا ہے اور اس سے روگردانی کی گئی تو پاکستان کا امیج سخت مجروح ہو گا۔ تب کے چکوال کے پٹواری انوار شاہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ ہماری باتیں سنتے رہے اور چپ رہے۔ جب ہم اپنا فلسفہ جھاڑ چکے تو انوار شاہ نے کہا: میں تو زیادہ باتیں سمجھتا نہیں‘ آپ سب لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں‘ لیکن میں ایک چیز کہنا چاہتا ہوں۔ جب چکوال کے پٹواری کی تقرری ہونی تھی تو میں اور ایک اور صاحب دوڑ میں تھے۔ ہماری سفارشیں ڈپٹی کمشنر جہلم تک گئیں لیکن فیصلہ نہ ہو سکا۔ پھر معاملہ کمشنر راولپنڈی تک پہنچا لیکن چونکہ دونوں طرف سے سفارشیں تگڑی تھیں‘ معاملہ وہاں بھی حل نہ ہوا۔ پھر چکوال کے پٹوار خانے کا فیصلہ چیف سیکرٹری پنجاب کے پاس جاکر ہوا۔ انوار شاہ نے کہا کہ یہ مسئلہ چکوال کے پٹواری کا تھا اور آپ صاحبان کہہ رہے ہیں کہ جو ملک کا پٹواری ہے‘ وہ سب کچھ ویسے ہی چھوڑ دے گا۔ضیا الحق کی حاکمیت نے طوالت پکڑی تو ہم کچھ صحافی کہیں اکٹھے ہوتے تو ہم میں سے جو کچھ زیادہ ہی جیالے قسم کے جمہوریت پسند تھے‘ کہتے کہ ضیا حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ یہ عوامی حمایت سے یکسر محروم ہے‘ اس لیے اس میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ ملکی مسائل کا حل نکال سکے۔ ایسے جمہوریت پسند جیالے بھی ہوتے جو ضیا الحق کو محض چھ مہینے دیتے کہ اس کے بعد ان کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ نوے روز میں ہونے والے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر 1985ء میں جا کر ہوئے۔ اسمبلیاں معرضِ وجود میں آ گئیں‘ مارشل لاء ہٹانا پڑا۔ اپنا چُنا ہوا وزیراعظم آ چکا تھا لیکن پھر بھی مردِ مومن اقتدار سے چمٹے رہے۔ محمد خان جونیجو گھر بھیج دیے گئے اور اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں لیکن پھر بھی منصوبہ بندی یہ تھی کہ آئینی تقاضوں کی ایسی کی تیسی‘ ضیا صاحب نے اقتدار میں رہنا ہے۔ یہ تو بہاولپور کا حادثہ ہوا کہ سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو گیا۔
2008ء کے الیکشن کے بعد پرویز مشرف کے پَر وغیرہ کٹ چکے تھے‘ صحیح اقتدار کا محور کہیں اور جا چکا تھا لیکن مشرف صاحب ایوانِِ صدر چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھے۔ یہ تو آصف علی زرداری کی کمال حکمت عملی تھی کہ ایسا ماحول پیدا کیا گیا اور احتساب کی تلوار مشرف صاحب کے سر پر لہرائی گئی کہ وہ ایوانِ صدر چھوڑنے کیلئے مجبور ہوئے۔ جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ مشرف کے کمزور ہونے میں ہمارے ایک اور مہربان اشفاق پرویز کیانی کا بڑا ہاتھ تھا۔ فوج کے سربراہ وہ تھے اور یہ عہدہ سنبھالتے ہی مشرف سے تھوڑا دور ہو گئے تھے۔ اس امر کا احساس بھی مشرف کو ہو گیا تھا لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس چین کے دورے میں میری توجہ کسی اور چیز نے اتنی نہیں کھینچی جتنی کہ ہمارے وفود کے سوٹوں نے۔ دیکھتا گیا تو پاکستانی تاریخ کے پرانے قصے یاد آتے گئے کہ مرضی سے کوئی نہیں جاتا۔ یہاں صرف سوٹ نہیں تھے‘ چال ڈھال بھی تھی۔ واقعی لگتا تھا کہ ہم چین کو قرضے دینے گئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved