جب انڈیا کے خلاف نیویارک میں کھیلے گئے میچ میں پوری پاکستانی ٹیم بُری طرح خوف زدہ لگ رہی تھی اور اکیلا فاسٹ باؤلر نسیم شاہ بہادروں کی طرح ڈٹا ہوا تھا تو مجھے ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آئے۔ڈاکٹر ظفر الطاف کو جو جانتے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ کرکٹ اور کرکٹرز کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں نے اُن کے ساتھ اٹھارہ برس گزارے اور ان کی باتوں سے کرکٹ کونئے انداز میں سمجھنا اور دیکھنا شروع کیا۔وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹسمین کو کون سی چیز دنیا کے خطرناک اور تیز ترین باؤلر کی بائیس فٹ کے فاصلے سے160؍ 162 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی گئی بال کے سامنے سینہ تان کر کھڑا رہنے پر قائل کرتی ہے؟میں خاموشی سے اُن کی طرف دیکھتا رہتا کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو کسی کھلاڑی کو ایک طرح سے موت کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے؟ وہ مسکرا کر کہتے :بھائی جان کھلاڑی کا Pride اُسے وکٹ پر سینہ تان کر مقابلہ کرنے پر کھڑا کر دیتا ہے۔ ایک فاسٹ باؤلر کو آپ کھیل ہی نہیں سکتے اگر آپ کے اندر پرائڈ نہیں ہے۔ پرائڈ ہی کسی کھلاڑی کی شان ہوتا ہے۔ آپ اندر سے کتنے ہی خوفزدہ کیوں نہ ہوں لیکن اوپر سے کبھی ظاہر نہیں ہونے دیں کہ اس وقت آپ کس مشکل میں ہیں۔
وہ کھلاڑی کے بے خوف ہونے کی پہچان اس امر کو قرار دیتے تھے کہ وہ کریز پر کھڑا کیسے ہے۔ وہ باؤلر کو کن آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ جب باؤلر بیٹسمین کی طرف شعیب اختر یا بریٹ لی کی طرح گھوڑے کی رفتار سے دوڑتا ہے تو آپ کیا سوچ کر اُس کا سامنا کرتے ہیں؟ اس لمحے آپ کو True Grit دکھانا پڑتی ہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے پسندیدہ کپتان اور کھلاڑی ہمیشہ وہ تھے جوجارحانہ مزاج رکھتے تھے۔ انہیں ٹھنڈے مزاج کے کھلاڑی یا کپتان پسند نہیں تھے۔ میں حیران ہوتا ہوں آج اگر ڈاکٹر ظفر الطاف ہوتے تو وہ بابر اعظم کو کس کیٹیگری میں رکھتے؟ وہ بات شوگرکوٹ کرنے کے عادی نہیں تھے۔ انہوں نے جو بات کہنی ہوتی‘ منہ پر کہہ دیتے تھے۔ انہیں فرق نہیں پڑتا تھا کہ اگلا کیا سوچے گا۔ میں شرطیہ کہتا ہوں وہ بابر اعظم کی باڈی لینگویج اور ٹیم کو فیلڈ میں ہینڈل کرنے کی صلاحیت دیکھ کر ایک ہی فقرے میں بھگتا دیتے۔ بھائی جان‘ بابر بڑا کھلاڑی ضرور ہوگا لیکن وہ کپتان Material نہیں ہے۔ اس میں کپتان والی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ کہیں سے کپتان لگتا ہے؟
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک پاکستان کرکٹ نے دو ہی کپتان پیدا کیے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار اور عمران خان۔ ان کے بعد تیسرا کپتان وہ وسیم اکرم کو مانتے تھے‘ لیکن اس کیٹیگری میں نہیں جس میں وہ کاردار اور عمران خان کو رکھتے تھے۔ کاردار اور عمران خان کو پسند کرنے کی وجہ جہاں ان کی گیم کو سمجھنے اور کھلاڑیوں سے ان کی صلاحیت کے مطابق کام لینا تھا‘ وہیں وہ ان کے جارحانہ انداز میں کرکٹ کھیلنے کو بھی پسند کرتے تھے۔ انہیں وسیم اکرم میں بھی وہ جارحانہ انداز نظر آتا تھا۔ وسیم اکرم ان کے نزدیک اچھا کپتان تھا جو گیم کو readکرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ لیکن اصل کپتان کاردار اور عمران خان ہی تھے‘جو اگریسو مزاج رکھتے تھے۔
مجھے یاد ہے جب پاکستانی شعیب اختر کے جارحانہ مزاج کی وجہ سے اس پر شدید تنقید کرتے تھے جس وجہ سے وہ کرکٹ سے پابندیوں کا شکار بھی ہوا‘ تو وہ شعیب اختر کا دفاع کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ آپ کو فاسٹ باؤلر کے مزاج کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ اُن کا بڑا مشہور فقرہ تھا کہ آپ لوگ شعیب اختر سے 162 فی کلومیٹر کی رفتار سے باؤلنگ چاہتے ہیں لیکن سپنر اقبال قاسم جیسے رویے کی امید رکھتے ہیں۔ جو 160 کلومیٹر کی رفتار سے بال پھینکتا ہے‘ وہ نارمل انسان نہیں۔ وہ غیرمعمولی انسان ہے۔ آپ کو اس کے رویے کو برداشت کرنا ہو گا۔ جتنا اچھا شعیب اختر کو ڈاکٹر ظفر الطاف نے ہینڈل کیا وہ کوئی دوسرا بورڈ کا چیئرمین یا ٹیم منیجر نہ کر سکا۔ انہوں نے شعب اختر کی وجہ سے وسیم اکرم سے اپنے ذاتی تعلقات خراب کیے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف پاکستان کی اُس کرکٹ ٹیم کے منیجر تھے جو 1999ء میں برطانیہ ورلڈ کپ کھیلنے گئی تھی۔ وسیم اکرم کا رویہ نئے ابھرتے باؤلر شعیب اختر سے مناسب نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے وسیم اکرم سے پرانے تعلقات کو ایک طرف رکھ کر شعیب اختر کا ساتھ دیا‘جس پر وسیم اکرم اُن سے ایسے ناخوش ہوئے کہ انہوں نے اپنی بائیوگرافی Sultan: A Memoirمیں ڈاکٹر ظفر الطاف کا ذکر تک نہ کیا جنہوں نے ہمیشہ برے وقت میں وسیم اکرم کا ایسے ساتھ دیا تھا جیسے اُس وقت وہ شعیب اختر کا دے رہے تھے۔ وہ وسیم اکرم کو کہا کرتے تھے کہ جیسے عمران خان نے تمہیں 1992ء کا ورلڈکپ جیتنے کے لیے پروموٹ کیا تھا ویسے تم بھی شعیب اختر کو کرو۔ وہ تمہارا وِننگ باؤلر ہے‘ اسے عزت دو۔ دوسری طرف شعیب اختر نے اپنی خودنوشت میں اگر کسی کی تعریف کی ہے تو وہ ڈاکٹر ظفر الطاف ہیں‘ ورنہ شعیب کی وہ کتاب پڑھ لیں تو اُس نے ہر ایک کو سینگوں پر اٹھایا ہے۔ ہر ایک پر تنقید کی ہے۔ تنقید تو میں لکھ رہا ہوں‘ شعیب اختر نے قلم کے بجائے تلوار کی نوک سے اپنی خودنوشت لکھی اور سب کو اس نے وہ نوک چبھوئی لیکن ڈاکٹر ظفرالطاف کو شعیب اختر نے خراجِ تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا پسندیدہ موضوع انسانی نفسیات تھی۔ وہ بہت کتابیں پڑھتے تھے لہٰذا وہ کھلاڑیوں کی نفسیات کے مطابق اُن کے ساتھ ڈیل کرتے تھے اور ٹیم میں بہت پاپولر تھے جن سے کھلاڑی ہر ایشو پر کھل کر بات کرسکتے تھے۔ کھلاڑی اس وجہ سے ان کی بات مانتے اور احترام کرتے تھے کہ ان کو علم تھا کہ ڈاکٹر ظفرالطاف کی عزت صرف اس وجہ سے نہیں کرنی کہ وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہیں‘ کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری ہیں‘ ٹیم کے سلیکٹر یا ٹیم منیجر ہیں۔ وہ اس وجہ سے ان کی عزت کرتے تھے کہ وہ کرکٹ گیم کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ ہر کھلاڑی کو سمجھتے تھے اور اس کے مطابق اسے گیم اور ذاتی رویہ بہتر کرنے کے مشورے دیتے تھے۔ انہوں نے 1960ء کی دہائی میں کرکٹ کھیلنا شروع کی تھی اور بورڈ کے بڑے عہدوں پر رہے۔ عمران خان سے اُن کا بڑا تعلق تھا۔ عمران خان بھی اُن کی بڑی عزت کرتے تھے جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ ایک دفعہ میں اور ڈاکٹر ظفر الطاف اکٹھے ایک شادی میں شریک تھے۔ اس شادی میں عمران خان بھی آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ظفرالطاف مجھے لے کر ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ عمران خان واپس جانے لگے تو ایک ہجوم اُن کے ساتھ تھا۔ اچانک عمران خان کی نظر ڈاکٹر ظفرالطاف پر پڑی تو وہ سب کو چھوڑ کر سیدھے ڈاکٹر صاحب کی طرف آئے اور بڑے جوش سے مل کر کہا: یار ZA کدھر ہو آج کل‘مجھے کسی وقت ملو۔ ڈاکٹر صاحب مسکرا دیے‘ منہ سے کچھ نہ بولے۔ عمران خان کھڑے بولتے رہے اور وہ مسکرا کر سنتے رہے۔
عمران اور کاردار کو پسند کرنے کی وجہ ان کی بہادری تھی۔ وہ بابر اعظم یا ان کی ٹیم کے دیگر ڈرے ڈرے کھلاڑیوں کو کبھی برداشت نہ کرتے۔ وہ اگر آج چیئرمین کرکٹ بورڈ ہوتے کب کا بابر اعظم کو ہٹا چکے ہوتے۔ وہ بابر اعظم کو ٹنڈولکر کی طرح عظیم کھلاڑی سمجھ کر ٹیم میں رکھتے لیکن اس سہمے ہوئے کھلاڑی کو کپتان نہ بناتے اور نہ ہی بابر اعظم کو اپنی ''فرینڈلی الیون‘‘ بنانے دیتے۔ڈاکٹر صاحب کو نسیم شاہ جیسے کھلاڑی پسند تھے‘ جو بے شک ہارے ہوئے لشکر میں ہوں لیکن اپنے پرائڈ کے لیے آخری بال تک لڑنے کو تیار ہوں۔ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے کاردار کو ٹیم کیمپ میں بلایا کہ کھلاڑی پِک کریں۔کاردار بولے: ہر بیٹسمین کی صرف دو بال تک دیکھوں گا۔ جاتے ہوئے کہہ گئے: ZA تمہارے پاس صرف ڈھائی کھلاڑی ہیں‘ باقی سب کچرا ہے۔شاید یہی بات آج ڈاکٹر ظفر الطاف کہتے کہ بھائی جان پوری ٹیم میں صرف ایک ہی انٹرنیشنل لیول کا کھلاڑی ہے جس میں پرائڈ ہے‘ Grit ہے۔ نسیم شاہ! باقی سب...۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved