بیسیویں صدی کا آغاز ہو رہا تھا جب لائل پور( فیصل آباد) کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے سمندری میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ ماں باپ نے اس کا نام پرتھوی راج رکھا۔ وہی پرتھوی راج جس نے تھیٹر اور فلم کی دنیا میں ایک طویل عرصہ راج کیا اور جس کے خاندان نے فلمی دنیاکو کتنے ہی فنکار دیے۔ اس کے والد پولیس میں تھے جن کا تبادلہ کبھی ایک شہر اور کبھی دوسرے شہر میں ہوتا۔ اس کے دادا‘ جو تحصیلدار تھے‘ تحصیلداری سے ریٹائر ہو کر سمندری چلے گئے جو ضلع لائل پور کی ایک تحصیل تھا۔ پرتھوی راج نے پہلے لائل پور سکول اور پھر لائل پور خالصہ کالج میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پشاور کے ایڈورڈز کالج میں داخل ہو گیا۔ لیکن سمندری کے ساتھ اُس کا تعلق اسی طرح استوار رہا۔ اس کے دوست اور گھر والے‘ سب سمندری میں تھے۔سمندری میں اس کا ایک دوست حبیب بھی تھا جو اس کا ہم عمر تھا۔ اسے کبڈی اور پہلوانی کا شوق تھا۔ پرتھوی اور حبیب ہمیشہ مخالف ٹیموں کے کپتان ہوتے۔
کالج کی چھٹیاں ختم ہوتیں تو پرتھوی راج واپس پشاور آجاتا۔ کالج میں غیر نصابی سرگرمیوں پر زور دیا جاتا۔ اس کالج میں انگریزی کے استاد پروفیسر جے دیال تھے۔ جے دیال نے طلبہ کو ماڈرن تھیٹر سے متعارف کرایا۔ کہتے ہیں کہ ایک استاد کسی مضمون کو دلچسپ بھی بنا سکتا ہے اور بے ذائقہ بھی۔ پروفیسر جے دیال نے اپنے طلبہ میں ماڈرن تھیٹر کے لیے محبت کا جذبہ پیدا کیا۔ اس حد تک کہ جے دیال کے شاگرد پرتھوی راج نے اپنی زندگی کا بڑا فیصلہ کر لیا‘ یہ کہ وہ اپنی ساری زندگی تھیٹر کے لیے وقف کر دے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ہندوستان میں جب بھی ماڈرن تھیٹر کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں پرتھوی راج کا نام جھلملاتا ہوا ملے گا۔
پرتھوی راج کے والد‘ جو پولیس میں تھے‘ ان کا تبادلہ پشاور ہو گیا تھا۔وہ ایڈورڈز کالج سے بی اے کی تعلیم حاصل کر چکا تھا۔ بی اے کے بعدا س نے ایک برس تک قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن اس کے دل میں پروفیسر جے دیال کی تھیٹر سے محبت کی جلائی ہوئی شمع ابھی روشن تھی۔ اس شمع کی روشنی اسے دوبارہ تھیٹر کی طرف لے آئی۔ اداکاری اس کے خون میں رچی ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں خاموش فلموں (Silent Movies)کا زمانہ تھا۔ پرتھوی راج نے خاموش فلموں میں کام شروع کر دیا۔ ان فلموں میں مکالمے نہیں تھے‘ صرف اداکاری سے اپنا پیغام پہنچانا ہوتا تھا۔ پرتھوی راج کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُس نے ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ''آتم آرا‘‘ میں کام کیا۔ یہ فلم 1931ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
پرتھوی راج نے لائل پور اور پشاور میں تھیٹر میں کام شروع تو کر دیا لیکن وہ اپنے لیے ایک وسیع کینوس کی تلاش میں تھا جو بمبئی میں میسر تھا‘ مگر بمبئی جانے اور وہاں رہنے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت تھی‘ جو اس کے پاس نہیں تھے۔اس نے ہار نہ مانی‘ ایک روز اپنی خالہ سے کچھ رقم ادھار لی اور اپنے شوق کی انگلی تھام کر بمبئی چل پڑا۔ بمبئی میں فن کے اظہار کے بہت مواقع تھے۔1937ء میں فلم ''ودیانتی‘‘ میں اسے اپنے فن کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ 1941ء میں سہراب مووی کی سکندرِ اعظم پر بننے والی فلم ''سکندر‘‘ میں اُس نے سکندر اعظم کا کردار ادا کیا۔ فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ اُس نے گرینڈ اینڈرسن تھیٹر کمپنی سے بھی وابستگی اختیار کر لی تھی۔ تھیٹر اس کے دل کی آواز تھی۔ سٹیج پر اس کے فن کے جوہر کھلتے تھے۔ کیسے کیسے کردار تھے جو پرتھوی راج کے فن سے چھو کر امر ہو گئے۔ یوں ایک طویل عرصے تک پرتھوی راج نے فلم اور تھیٹر‘ دونوں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ تھیٹر کی محبت کی چنگاری جو ایڈورڈز کالج پشاور کے پروفیسر جے دیال نے روشن کی تھی اب شعلے میں بدلنا چاہتی تھی۔ اس کے لیے اسے مزید فن کارانہ آزادی (Artistic Freedom) کی ضرورت تھی‘ لہٰذا پرتھوی راج نے 1942ء میں ''پرتھوی تھیٹرز‘‘ کے نام سے اپنا تھیٹر گروپ شروع کیا۔ اس کا پہلا ڈرامہ '' کالی داس‘‘ تھا۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ مزاحمت کی یہ تحریک زندگی کے ہر شعبے میں جاری تھی۔ تھیٹر کے ذریعے مزاحمت کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا تھا۔پرتھوی تھیٹر کے زیراہتمام ایسے ڈرامے پیش کیے گئے جنہیں دیکھ کر جذبۂ حریت بیدار ہوتا تھا۔ تھیٹر کے سٹیج نے پرتھوی راج کو اپنے فن کے جوہر کھل کر دکھانے کے مواقع فراہم کیے۔ سولہ برسوں کے دوران پرتھوی نے ہزاروں ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔ ڈراموں کی اس فہرست میں ایک اہم ڈرامہ ''پٹھان‘‘ تھا جو 1947ء میں سٹیج کیا گیا۔ پرتھوی تھیٹر ہندوستان کے مختلف شہروں میں ڈرامے کرتا تھا۔ یہ پرتھوی راج کا جنون تھا جو برسوں سے اسے تھیٹر کی دنیا سے جوڑے ہوئے تھا لیکن اب پچاس کی دہائی شروع ہو چکی تھی۔ یہ سینما کے عروج کا زمانہ تھا اور تھیٹر کا کاروبار اب مالی لحاظ سے منفعت بخش نہ رہا تھا۔
پرتھوی راج نے اب فلموں پر زیادہ توجہ دینی شروع کی۔ 1951ء میں اس نے اپنے بیٹے راج کپور کے ساتھ فلم ''آوارہ‘‘ میں کام کیا اور پھر'' بوٹ پالش‘‘، ''شرارتی 420‘ ‘،''پردیسی‘‘، ''جگا ڈاکو‘‘،'' مغلِ اعظم‘‘، ''پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘، ''راج کمار‘‘، ''جانور اور'' زندگی‘‘ جیسی فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ مغلِ اعظم میں پرتھوی راج نے شہنشاہ اکبر کا لافانی کردار ادا کیا‘ جس پر اسے فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ پرتھوی راج کے فن کے اعتراف پر اُس کو بھارت کی حکومت نے سب سے بڑا اعزاز پدم بھوشن بھی دیا اور اس کی تصویر کے ساتھ ڈاک کا ٹکٹ بھی جاری کیا۔ 1965ء میں بننے والی فلم سکندرِ اعظم میں پرتھوی راج نے پورس کا کردار ادا کیا۔ فلم کل‘ آج اور کل میں اُس نے اپنے بیٹے راج کپور اور پوتے رندھیر کپور کے ساتھ کام کیا۔ معروف پنجابی فلم 'نانک نام جہاز ہے‘ اور فلم 'دکھیا نام سنسار‘ میں بھی کام کیا۔ پرتھوی راج سیاست میں آیا تو مسلسل آٹھ سال راجیہ سبھا کا رُکن رہا۔
پرتھوی راج شہرت کی چکا چوند میں بھی اپنے محسن پروفیسر جے دیال کو نہیں بھولا جنہوں نے اُسے ماڈرن تھیٹر سے متعارف کرایا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جے دیال ہندوستان کے ایک علاقے کنگرہ وادی میں رہنے لگے تھے۔ یہ ایک ہل سٹیشن ہے۔ کنگرہ سٹیشن سے اُن کا گھر دو میل کی مسافت پر تھا۔ پرتھوی راج کو جب پشاور کے دن رات یاد آ تے تو وہ کنگرہ میں پروفیسر جے دیال کے گھر چلا جاتا جہاں اُن کا خوبصورت دومنزلہ گھر تھا اور جس کے باغیچے میں رنگ برنگ کے پھول اور پودے تھے۔ دونوں باغیچے میں کرسیوں پر بیٹھ جاتے۔ جے دیال پرتھوی راج کو خاموش دیکھ کر کہتے ''تم پشاور کو مِس کر رہے ہو؟‘‘ پرتھوی راج اقرار میں سر ہلاتا اور کہتا ''جی سر! میں پشاور کو مس کررہا ہوں‘ جہاں میرے باپ‘ دادا نے اپنا بچپن گزارا‘ جہاں ہمارا چھ منزلہ مکان تھا۔ جس کی چھٹی منزل سے قلعہ بالا حصار نظر آتا تھا۔ اور دوسری طرف درہ خیبر کے پہاڑ نظر آتے تھے‘‘۔پروفیسر جے دیال کہتے :اچھا وہ شعر تو سنائو جو تم نے پشاور کی یاد میں لکھا تھا۔ تو پرتھوی راج گا کر سناتا:
تڑپ رہا ہوں میں مانندِ طائرِ بے پر
چمن سے دور ہوں بیگانۂ بہار ہوں میں
شعر سناتے سناتے پرتھوی راج کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے۔ پروفیسر جے دیال کو بھی پشاور کے ایڈورڈز کالج میں گزارے دن رات یاد آجاتے۔ یادوں کا ایک ہجوم دونوں کو اپنے حصار میں لے لیتا اور وہ کتنی ہی دیر ان پہاڑوں کو دیکھتے رہتے جن کی برف سے اَٹی چوٹیوں سے دھویں کا غبارا اُٹھ رہا ہوتا۔ ان کے سامنے چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی لیکن پرتھوی راج اور جے دیال یہاں سے دور بہت دور تصور کی دنیا میں‘ پشاور کے من موہنے گلی کوچوں میں گھوم رہے ہوتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved