تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     12-06-2024

سیاستدانوں کو بات چیت کا مشورہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم بل کے حوالے سے گزشتہ ہفتے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ یہ محفوظ فیصلہ جلد سنائے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کیس کی آخری سماعت کے دوران معزز ججز کے دیے گئے ریمارکس سیاستدانوں کیلئے چشم کشا ہونے چاہئیں۔ لارجر بینچ کے ممبر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو کسی نے منع نہیں کیا کہ نیب قوانین کو سخت یا نرم نہ کرے‘ کل کو کوئی پارلیمنٹ نیب قوانین کو سخت بھی کر سکتی ہے‘ آپ کی بات مان کر ہم ترامیم ختم کریں لیکن کل پارلیمنٹ نیب قانون ہی ختم کر دے توکیا ہو گا ۔ دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ فارم 47 والے ترمیم نہیں کرسکتے جس پر جسٹس مندوخیل نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ آپ پھر اسی طرف جارہے جو کیسز زیرِ التوا ہیں۔ سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی‘ آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید‘ نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے‘ آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہے گا؟جس پر عمران خان نے کہا کہ میرے ساتھ پانچ روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا‘ 27سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا‘ غریب ملکوں کے سات ہزار ارب ڈالر باہر پڑھے ہوئے ہیں‘ اس کو روکنا ہوگا‘ دبئی لیکس میں بھی نام آچکے‘ پیسے ملک سے باہر جارہے۔ جس پر جسٹس مندوخیل نے بانی پی ٹی آئی کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے کہ آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کررہی ہیں‘ حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کریں‘ جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک‘ پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔قوم کے لیے کسی ایک بات پر تو بیٹھ جائیں۔ یہ مشورہ سب سیاستدانوں کے لیے ہے کہ انہیں ملک کے حالات بہتر بنانے کے لیے ایک ہو جانا چاہیے۔ اگر وفاقی حکومت کے کسی بھی ادارے میں کوئی تھِنک ٹینک موجود ہے تو اُس کے ماہرین سے معزز جج صاحبان کے ریمارکس پر ماہرانہ تجزیہ لیا جا سکتا ہے۔ جب کسی ملک یا قوم کو غیرمعمولی حالات کا سامنا ہو تو اُس کے تمام سٹیک ہولڈرز ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفادات کی خاطر مل بیٹھتے ہیں۔ آج وطنِ عزیز کو معیشت اور سکیورٹی کے حوالے سے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بھی ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بجٹ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے اہم رہنمائوں کوجون 1977ء کی طرز پر بامقصد مذاکرات کا آغاز کرنا ہو گا اور معاملات کو سدھارنے کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔
مارچ 1977ء کے انتخابات کو متنازع قرار دیے جانے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ملک میں از سر نو انتخابات کرانے پر رضا مند ہوگئے تھے لیکن بعد ازاں نئے انتخابات کے انعقاد کے فارمولے پر دوبارہ سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ پاکستان قومی اتحاد کی خواہش تھی کہ وفاقی سطح پر سوویت یونین کی پولٹ بیورو (Politburo) کی طرز پر ایک کونسل بنائی جائے جس کی نگرانی میں انتخابات کا انعقاد ہو اور وزیر اعظم کا اثر و رسوخ الیکشن کے دوران نظر نہ آئے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کرنے پر زور دیا جس کے بعد اپوزیشن نے بھی قومی اسمبلی میں آنے کی دعوت قبول کرلی۔ لیکن اسی رات ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اور یہ آئینی ترمیم دھری کی دھری رہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ چار جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی سفیر کے اعزاز میں ایک پُرتکلف عشائیہ دیا تھا‘ اسی عشائیہ میں مارشل لاء کا فیصلہ ہوا تھا۔ جب ملک کا دستور ہی مارشل لاء کی زد میں آ گیا تو پھر کوئی آئینی ترمیم کیسے ممکن تھی۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ 1969ء میں بھی پیش آیا تھا جب صدر ایوب خان نے 14 مارچ 1969ء کو گول میز کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام بحال ہونے کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ صدر ایوب خان نے کہا کہ چار اپریل 1969ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے 1962ء کے دستور میں چند بنیادی تبدیلیاں کرتے ہوئے ملک میں پارلیمانی نظام نافذ کر دیا جائے گا۔ یہ بھی اعلان ہوا کہ صدر ایوب خان قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہی اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالوہاب کے سپرد کر دیں گے لیکن گیارہ دن بعد 25 مارچ 1969ء کو جنرل یحییٰ خان نے صدر ایوب خان سے اقتدارحاصل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا‘ جسے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی تائید بھی حاصل تھی۔
اب عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کی جانب سے سیاستدانوں کو مل بیٹھنے کی تجویز صائب اور خوش آئند ہے۔ اس سے پہلے بھی عدالتِ عظمیٰ کے پلیٹ فارم سے سیاستدانوں کو سیاسی مسائل باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دی جا چکی ہے۔ میرے خیال میں مقتدر حلقوں کے توسط سے حکومت اور اپوزیشن میں بامقصد مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے جس میں فارم 45 اور فارم47 کے تنازع سمیت دیگر تصفیہ طلب معاملات پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ ملک میں گزشتہ دو‘ ڈھائی برس سے جو سیاسی انتشاراور انارکی کی فضا قائم ہے‘ اُس سے ملکی حالات روز بروز سنگین ہوتے جا رہے ہیں ‘ لیکن اس دوران نہ تو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کی طرف سے حالات میں بہتری لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ میاں نواز شریف نے 28 مئی کو‘ مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھالنے کے بعد ماضی کی عسکری قیادت اور سابق چیف جسٹس صاحبان پر جو عدم اعتماد کا اظہار کیا اُس نے مزید ابہام کو جنم دیا۔ بہرحال مستقبل کے لیے جو بھی روڈ میپ تیار ہوگا اُس میں صدر زرداری کا کردار اہم نظر آ رہا ہے۔ حالیہ دنوں اعتزاز احسن بھی عمران خان کو صدر زرداری سے رابطے کی دعوت دے چکے ہیں اور شنید ہے کہ اعتزاز احسن کی معاونت سے صدر زرداری اور سابق صدر عارف علوی کے درمیان بیک ڈور چینل سے رابطے جاری ہیں۔
اگر وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ چین کی بات کی جائے تو حکومت اسے کامیاب ترین دورہ قرار دے رہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک بزنس ٹرپ تھا۔اس دورے کے دوران جن مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے‘ ملک یا عوام تک ان کا فائدہ اسی صورت منتقل ہو سکتا ہے جب ان پر عملدرآمد کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ عوام کو مفاہمتی یادداشتوں اور اقتصادی معاہدوں کا فرق معلوم ہونا چاہیے۔ مفاہمتی یادداشتوں کی حیثیت ایک فرینڈلی میچ جیسی ہوتی ہے۔ پاکستان اور عوام کا اصل فائدہ تبھی ہوگا جب چین سے پاکستان میں عملی سرمایہ کاری کا آغاز ہوگا۔
دوسری طرف آج کل ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا بہت شور مچا ہوا ہے۔ ابتدائی دو میچز ہارنے والی قومی ٹیم کے ساتھ ساتھ سلیکشن کمیٹی اور کرکٹ بورڈ پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سید محسن رضا نقوی نے بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ بہترین ٹیم کا انتخاب کیا تھا‘ ان کی انتظامی گرفت مثالی رہی ہے اور وہ عموماً کسی کے دباؤ میں نہیں آتے‘ نہ ہی کسی سفارش کلچر کو مانتے ہیں۔ بورڈ کا کام انتظامی معاملات میں شفافیت اور وسائل کی فراہمی یقینی بنانا ہے‘ میدان میں اچھا کھیل پیش کرنے کی ذمہ داری بہر طور کھلاڑیوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ امریکہ کی کرکٹ ٹیم سے ہارنا‘ جو اپنا پہلا ورلڈ کپ کھیل رہی ہے‘ کھلاڑیوں کی خراب کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہر حال چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو قومی ٹیم کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لیے آؤٹ آف باکس کچھ سوچنا ہوگا۔ اگر ٹیم کی خراب کارکردگی کی وجہ انتظامی نقائص ہیں تو انہیں بلاتاخیر دور کیا جانا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved