موسم کے تیور تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔سورج طلوع ہوتا ہے پارہ بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ اس موسم کا اثر ہے اور کچھ پڑوسی ملک کی حرکتیں‘ جنہیں دیکھ کر میرا پارہ بھی ان دنوں خاصا چڑھا ہوا ہے۔ پہلی وجہ بھارت میں نریندر مودی کا الیکشن جیت کر تیسری بار وزیراعظم بننا ہے اور دوسری وجہ کا تعلق بھی بھارت ہی سے ہے۔ وجہ ہے بھارت کے ہاتھوں پاکستان کا کرکٹ میچ ہارنا۔ کسی نے از راہِ تفنن کہا کہ امریکہ سے میچ ہارنا آئی ایم ایف کی ڈیل کا حصہ تھا۔ ہے تو مذاق ہی‘ چلیں پھر بھی مان لیتے ہیں کہ عالمی اقتصادی ادارے سے مالی پیکیج حاصل کرنا ہماری مجبوری ہے‘ لیکن کوئی یہ بتائے کہ جو میچ ہم نے بھارت کے خلاف ہارا‘ وہ کس ڈیل کا حصہ تھا؟ ایسے لگ رہا تھا کہ یہ میچ ہم نے پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش کر دیا۔ ایک کرکٹ ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ یہ میچ نہیں ہوا‘ 24کروڑ عوام کے ساتھ مذاق ہوا ہے‘ یہ لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ ایکسپرٹ کا کہنا تھا کہ یہ سانحہ اس لیے رونما ہوا کہ ٹیم کی سلیکشن میرٹ پر نہیں ہوئی۔
ایک تو ٹیم میچ ہار گئی‘ اوپر سے ٹیم مینجمنٹ کی منطق سن کر پارہ مزید چڑھ جاتا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اسسٹنٹ کوچ اظہر محمود کا بھارت سے شکست کے بعد کہنا تھا کہ میچ ہار گئے تو کیا دیوار سے سر ماریں؟ بھائی دیوار سے سر نہ پٹخیں‘ ٹیم کی کارکردگی تو بہتر بنائیں کہ ایسی ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ 120 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہ کیا جا سکے۔ اور سنیں‘ ماہرین سے پتا چلا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لیے نیٹ رن ریٹ میں امریکہ سے آگے نکلنے کے لیے کینیڈا کی ٹیم کا مقرر کردہ ہدف‘ یعنی 107رنز 13.5 اوورز میں مکمل کرنا تھا‘ لیکن ہماری ٹیم یہ بھی نہیں کر سکی‘ یعنی جیتنے کا کوئی جذبہ اور سربلند رہنے کا کوئی عزم نظر ہی نہیں آتا۔ پاکستان کینیڈا سے میچ جیت تو گیا ہے لیکن یہ جیتنا بھی کیا جیتنا ہے کہ 'اگر مگر‘ کے سلسلے اب بھی چل رہے ہیں۔ آج ہی حارث رؤف کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ قسمت میں ہو گا تو اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کر لیں گے‘ یعنی ہم نے تو کچھ نہیں کرنا‘ قسمت میں ہو گا تو ٹیم خود ہی فائنل میں پہنچ جائے گی۔ جب ٹیموں کے ہارنے اور دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے پر بھی کھلاڑیوں کی ستائش کی جائے گی اور انہیں انعامات اور مراعات سے نوازا جائے گا تو ظاہر ہے کہ ان میں میچوں میں کامیابی کے لیے لڑنے اور جیتنے کا جذبہ کہاں سے پیدا ہو گا؟ جب 'تم جیتو یا ہارو سنو... ہمیں تم سے پیار ہے‘ جیسے نغمے تخلیق کیے جائیں گے تو کھلاڑیوں کو کیا پڑی ہے کہ جیتنے کی کوشش کریں‘ پیار تو ہارنے پر بھی مل ہی جائے گا‘ بھاری بھرکم انعامات اور مراعات اس پر مستزاد۔ جب ہر طرف زوال ہی کی داستان ہو تو ایک ٹیم کے ہارنے پر واویلا کیسا؟ یہ بات میں اپنے دل کو بہت سمجھاتا ہوں‘ لیکن وہ مانتا ہی نہیں۔
جہاں تک نریندر مودی کے تیسری بار بھارت کا وزیراعظم بننے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے اس میں میرا ذاتی طور پر کوئی قصور نہیں‘ لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آیا پاکستان کی طرح بھارت بھی قحط الرجال کا شکار ہے؟ وہاں بھی سیاسی لیڈروں اور رہنماؤں کی کمی ہے جو ایک ہی بندہ پندرہ‘ پندرہ سال تک سربراہِ حکومت بنا رہتا ہے۔ ماضی میں جواہر لال نہرو نے تین ٹرمز تک بھارت کی وزارتِ عظمیٰ سنبھالے رکھی اور اب یہی اعزاز نریندر مودی کو حاصل ہو گیا ہے کہ وہ تیسری بار بھارت کے وزیراعظم بن گئے ہیں‘ یعنی بھارت میں سیاسی لیڈروں کی اتنی کمی ہے کہ آزادی کی 76سالہ تاریخ میں محض دو بندے تیس سال تک ملک کے مالک و مختار بنے رہے؟ اسی طرح یہاں بھی وہی لیڈر نظر آتے ہیں جو بیس‘ تیس سال پہلے بھی موجود اور برسرِ اقتدار تھے اور آج بھی۔ چلو نہرو‘ نریندر مودی اور دوسرے بھارتی رہنمائوں نے اپنے ملک کو کچھ ترقی تو دی۔ ہم تو وہ بھی نہیں کر سکے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان کو اس مقام تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے کہ قرضوں کے ڈھیر ہیں اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آ رہا۔
ہم باقی معاملات کا بھارت کے ساتھ تقابل کرتے ہیں‘ سیاسی تسلسل اور معاشی ترقی کے حوالے سے بھی کر لیتے تو ممکن ہے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ مل جاتا۔ آئی ٹی اور بزنس پروسیس مینجمنٹ (BPM) کے شعبے بھارت کے جی ڈی پی میں 7.5فیصد کے حصے دار ہیں اور 2025ء تک اس حصے کے 10فیصد تک بڑھ جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ میں بھارت کی تعریفیں نہیں کرنا چاہتا بلکہ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا پاکستان ترقی کرے‘ اور بھارت سے زیادہ ترقی کرے اور خوب پھولے پھلے۔
جہاں تک نریندر مودی کا تعلق ہے تو سب جانتے ہیں کہ وہ ایک انتہا پسند رہنما ہیں اور انہوں نے بھارت میں انتہا پسندی کو بڑھا کر ہندوؤں کے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ نریندر مودی پاکستان مخالف بیانیہ رکھتے ہیں اور اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ پاکستان مخالف بیانیہ بھارت کے انتہا پسند طبقوں میں خوب بکتا ہے اور نریندر مودی اس بیوپار کے ماہر ہیں‘ لیکن یہ دھندا اب ماند پڑتا جا رہا ہے۔ لوگ حقیقت جاننے لگے ہیں۔ ویسے بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں کوئی بات زیادہ دیر تک صیغۂ راز میں نہیں رکھی جا سکتی۔ تو وہ انتہا پسند ہندو‘ جو ماضی میں مودی کی باتوں میں آ جاتے تھے‘ اس بار نہیں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار مودی کی پارٹی کو سادہ اکثریت تک نہیں ملی اور انہیں اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا پڑی ہے۔ اب اس مرحلے پر مودی کی نئی حکومت کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر بیک وقت پیش کیے جا رہے ہیں۔ ایک‘ مودی کو چونکہ واضح اکثریت نہیں ملی اس لیے وہ اس بار اپنی بھرپور کارکردگی دکھانے سے قاصر رہیں گے‘ یعنی اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال نہیں کر سکیں گے۔ ہندوتوا کے اپنے پرانے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مودی اس لیے بھی کھل نہیں کھیل سکیں گے کہ وہ ایک اتحادی حکومت کے سربراہ ہوں گے اور اتحادیوں کو چاروناچار ساتھ لے کر ہی چلنا پڑتا ہے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ وقت کے ساتھ چونکہ بی جے پی بتدریج پیچھے ہٹ رہی ہے اور کانگریس آگے آ رہی ہے تو بی جے پی اگلے پانچ سال اس تگ و دو میں گزارے گی کہ کسی بھی طرح اس کی ساکھ اور عوام میں اس کی مقبولیت کم نہ ہونے پائے۔ اس احتیاط کے تقاضوں کے تحت بھی بی جے پی انتہا پسندی کو ویسے پروموٹ نہیں کر سکے گی جتنا وہ پچھلے دس برسوں میں کرتی آئی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے اور بھارت میں بسنے والی اقلیتوں‘ بشمول مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔ بھارت کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے ہیں یا نہیں‘ اس بات کا فیصلہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ میں تو صرف یہ کہوں گا کہ بھارت کی سیاسی اور معاشی ترقی کا راز ہی جان لیجئے کہ وہ اپنا کر اپنے ملک کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے‘ اسے آگے بڑھایا جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved