تعلیم کا ابتدائی دور انسان کی زندگی پر گہری چھاپ اور اَنمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ بندہ دل اور دماغ کھلا رکھے تو ساری زندگی سیکھتا رہتا ہے ۔ یہ بند کر دیے جائیں تو علم و حکمت نامی کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ ابتدائی تعلیم کی میرے نزدیک جو اہمیت ہے‘ اس کا تعلق ایک مضبوط اساس سے ہے جو محض پڑھنے لکھنے سے متعلق نہیں بلکہ زندگی کے ایک اور حوالے سے ہے جس کے بارے میں تعلیمی فلسفوں کی تو کمی نہیں‘ مگر ہمارے ملک اور معاشرے میں وہ شعور نہیں ملتا۔ اپنی کتابوں کے محدود ذخیرے میں سے ایک کتاب کو اس بارے میں کئی دہائیوں سے سنبھال کر رکھا ہے۔ میرا تعلیم سے تعلق تو ساری زندگی رہا ہے اور اب بھی ہے‘ اور اس سلسلے میں ذاتی تجربے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سکولوں‘ کالجوں اور جامعات کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ جانتا ہوں‘ مگر رابرٹ فالگم کی ایک مختصر کتاب جو میں نے پڑھ رکھی ہے‘اس میں ابتدائی سکول میں جو اسلوبِ زندگی سادگی سے بتایا گیا ہے‘ وہ ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اور کہیں نہیں دیکھا۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر انسانی فطرت‘ معاشرہ اور زندگی گزارنے کے فن کے بارے میں مشاہدات اور کہانیوں کی صورت سبق آموز باتیں ہیں جو ہم آج کل کے زمانے میں اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم میں سے اکثر نے جینے کا فن سیکھا ہی نہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ بازاروں میں جہاں ہمارا اب جانا ہوتا ہی نہیں‘ پارکوں‘ درس گاہوں‘ عام لوگوں اور واقف کاروں سے ملنے کے بعد رویوں کا کچھ تجزیہ کریں مگر جب بھی کیا‘ اپنا دل اداسی کی نذر ہو گیا۔ اب سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں اور وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ ہم بھی اس ہمہ وقت چلتی فلم کے مناظر کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف حکمران طبقہ نہیں بلکہ اشرافیہ ہے جنہیں آپ ''کھاتے پیتے‘‘ لوگ بھی کہتے ہیں‘ جس نے کچھ نہیں سیکھا۔ سوچتا ہوں کہ ابتدائی تعلیم وہ نہیں تھی جو دنیا کے کچھ ممالک میں دیکھی ہے۔
سب اقدار کا احاطہ کرنا تو ایک مضمون میں ممکن نہیں مگر چند باتیں میرے نزدیک زندگی میں انتہائی بنیادی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ڈھونڈے نہیں ملتیں۔ فالگم کے مطابق جو پہلا سبق سکول میں پڑھایا گیا‘ وہ اپنی صفائی کی ذمہ داری کا احساس تھا کہ کسی نے کہیں کوئی چیز پھینکی یا گند ڈالا تو وہ خود صفائی کرے گا۔ اچھے ماحول اور اچھی زندگی کے لیے ا س سے بڑا سبق اور کیا ہو سکتا ہے۔ جن معاشروں میں یہ قدر انسانوں کے اخلاقی رویوں میں رچ بس چکی‘ وہاں کہیں کچرا‘ کوئی اُڑتے ہوئے گندے پلاسٹک کے بیگ اور خالی بوتلیں ہوا میں تیرتی ہوئی آپ کے گھر کے دروازے پر آکر نہیں گرتیں۔ پارکوں میں لوگ اگر کھانے پینے کی چیزیں لے جائیں‘ کوئی پکنک منائیں‘ اپنا سب کچھ سنبھال کر گھر واپس لاتے ہیں یا وہاں انہیں ٹھکانے لگانے کی جگہ ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کون سا مشقت کا کام ہے‘ اور اس میں کتنا وقت لگتا ہے؟ بات دراصل اخلاقی اقدار اور احترامِ انسانیت کی ہے۔ کون سا مذہب ہے جو یہ درس نہیں دیتا کہ دوسروں کے لیے آپ تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ دیہات ہوں یا ہمارے بڑے شہر‘ جن میں ''خوبصورت‘‘ اسلام آباد بھی شامل ہے‘ لوگ اپنا گند گلیوں‘ سڑکوں‘ نالوں اور نالیوں میں پھینکنے میں اب کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتے۔ جہاں ہم رہتے ہیں‘ لوگوں نے کروڑوں کے گھر بنائے ہوئے ہیں۔ ہر گھر میں کم از کم چار گاڑیاں ہیں۔ نوکروں چاکروں کی بھی کمی نہیں‘ مگرگاڑیاں سڑکوں پر ہی دُھلتی ہیں اور اکثر نے اپنے تہہ خانوں میں بنے باتھ رومز کا گندا پانی برساتی نالوں میں چھوڑا ہوا ہے۔ ایک برساتی نالا ہمارے گھر سے تقریباً دو سو فٹ دور ہے۔ آج سے 19 سال قبل جب یہاں آئے تو اس نالے میں شفاف پانی تھا اور مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں۔ اب اس میں سیوریج کا پانی بہتا ہے اور پورا ماحول بدبودار ہے۔ کہاں گیا وہ ترقیاتی ادارہ‘ کہاں گیا قانون اور کہاں گئیں انسانی اقدار۔ د یہات ہوں یا شہر‘ سب لوگ ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ سب بدبودار ماحول میں رہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہر کوئی اپنی صفائی کا ذمہ دارہے‘ یہ کہنا اور لکھنا ایسے ہی ہے جیسے ہم پتھروں سے بات کر رہے ہیں۔
سادگی اور سادہ طرزِ زندگی میں کئی فلسفے مضمر ہیں۔ اگر سب کچھ بھی کسی کے پاس ہو تو مناسب ہے کہ دوسروں کے احساسِ محرومی کے خدشے کے پیشِ نظر عام لوگوں جیسی زندگی گزاری جائے۔ تفاخر‘ دکھاوا اور ''پدرم سلطان بود‘‘ والے رویے گئے گزرے معاشروں میں ہوتے ہیں۔ جاندار سماجوں میں انکساری کا پہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ کوئی بڑھکیں نہیں مارتا‘ کسی کو اپنی ذات‘ قبیلے اور قوم کی بڑائی میں منہ سے جھاگ نکالتے نہیں دیکھا۔ باہر کی دنیا میں جو وقت گزارا‘ ہم سب دوست اپنی معمولی‘ سیدھی سادی اور سخت کوشی کی زندگی کی باتیں کرتے اور جو حاصل کر لیا اس پر خوش ہوتے۔ جو آپ کا نہیں اس کی بات کرنے کی کیا ضرورت اور یہ کہ دوسرے کے پاس کیا ہے‘ اس کی کھوج یا اس کے بارے میں سوچنا بھی معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ مسابقت کی آج کی دوڑ میں سب پریشان نظر آتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کے پاس کسی چیز کی کمی ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے دوستوں‘ حریفوں اور رشتہ داروں کے پاس بہت زیادہ ہے۔ سوچتا ہوں کہ کیا یہ جینے کے سلیقے ہیں۔
اس کے برعکس جو لوگ اپنے وسائل‘ بے شک محدود ہی کیوں نہ ہوں‘ میں جینے کا سلیقہ رکھتے ہیں انہیں ہم نے تو خوشی‘ اطمینان اور آرام کی زندگی گزارتے دیکھا ہے۔ اگر یہ کسی کا مقصود ہی نہ ہو تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں۔ وہ سکول جن کی بنیاد عظیم فلسفوں پر رکھی گئی تھی اور اب بھی ہے‘ وہ مسابقت کے بجائے ایک دوسرے سے ہمدردی‘ غمگساری اور تعاون کی اخلاقیات سکھاتے ہیں۔ مقابلے بازی اب سکولوں میں عام ہے اور جامعات میں بھی کہ دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے ان سے بہتر گریڈ ہو۔ استاد ہونے کے حوالے سے بہت کوشش کی‘ سب ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلیں‘ مل کر پڑھیں تاکہ ہمدردی اور دوسروں کی خوشیوں اور کامیابیوں کا احساس اپنے سے بھی زیادہ ہو۔ کچھ کہنا مشکل ہے کہ ہم سب کو اس قالب میں ڈھال سکے یا نہیں‘ مگر زندگی کے کسی بھی حصے میں اگر رحم دلی‘ جسے انگریزی میں Empathy کہتے ہیں‘ کہ اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچو تو انسان خود پسندی اور خود غرضی کی تاریکیوں سے نکل سکتا ہے۔ آج کے دور کی لڑائیوں میں سے جو ہمارے ملک اور معاشرے میں عام ہیں‘ رعونت‘ حرص‘ مسابقت‘ خود غرضی‘ لوٹ مار اور مزید لوٹ مار اب کامیاب لوگوں کی خوبیوں میں سے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کاش کامیاب زندگی کے وہ اصول جو کہیں اور انسانوں‘ معاشروں اور ملکوں کو کہاں سے کہاں لے گئے ہیں‘ ان کے بارے میں ہمارے ہاں بھی کوئی مکالمہ ہوتا‘ ہم ان کی اہمیت کا کوئی احساس پیدا کر سکتے۔ احساسِ ذمہ داری اور دوسروں کا خیال‘ سادگی‘ شفقت‘ قناعت پسندی‘ پاکیزگی‘ تعاون اور اپنے وسائل میں رہنا کوئی مشکل کام تو نہیں۔ بات دراصل مکتب کے اس پہلے سبق کی ہے‘ اگر ہم پڑھ سکے یا ہمیں پڑھایا گیا اور زندگی کے اَسرار و رموز کی ہے‘ جنہیں ہم اگر پا سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved