حرف و صوت کی دنیا میں ریڈیو پاکستان نے بڑے آئیکون پیدا کیے۔ اسلام آباد ریڈیو شاہراہ دستور کے ساتھ تھا جہاں کالج کے زمانے میں اردو کے دو ماہرین سے میں نے خوب استفادہ کیا۔ ایک تھے حضرت ناصر جہاں‘ جو شہدائے کربلا کے حضور سلامِ آخر پڑھ کر امر ہو گئے‘ دوسرے مظہر عباس انصاری تھے۔ آج کا عنوان تکسیرِ لفظی پر مشتمل ہے‘ بروزنِ طبیعت... صاف۔ یہ ذہن میں آتے ہی ماضی کے دریچوں سے حضرتِ ناصر جہاں یاد آئے جنہیں ایک شعر بہت پسند تھا‘ جسے وہ ایسی واردات کے وقت سناتے جیسی ہمارے نظامِ انصاف کے ساتھ پہلی بار سات اکتوبر 1958ء کو ہوئی‘ پھر ہمیشہ ہوتی رہی۔ آئین معطل کرکے جنرل اسکندر مرزا نے قوم کے مفاد میں مثبت نتائج کی بنیاد رکھی۔ شعر یہ ہے:
پہلے اس نے ''مُس‘‘ کہا پھر ''تق‘‘ کہا پھر ''بل‘‘ کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے
ایسی تازہ واردات اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور میانوالی سے پی ٹی آئی کے قیدی کارکنوں کے مقدمے میں سرگودھا بار کے دوسری جانب اے ٹی سی کورٹ کے باہر ہوئی۔ آغاز سرگودھا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے دوسری جانب اے ٹی سی کورٹ کے کمپاؤنڈ کے باہر ہوا ۔ 10جون کی صبح عمر ایوب میرے لاء آفس اسسٹنس کے ہمراہ سات بج کر 50 منٹ پر سرگودھا پہنچے۔ عمر ایوب نے دیکھا کہ عدالت کی طرف جانے والی سڑک بیریئرز‘ پریزن وین‘ چمکیلی بتیوں والی پولیس کی گاڑیوں سے بند ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ عدالت کو شدید سکیورٹی تھریٹ ہے‘ اندر بم سویپنگ جاری ہے۔ آٹھ بج کر 40 منٹ پر میں بھی سرگودھا پولیس کے اس پولیس بلڈ اَپ کے نرغے میں جا پہنچا۔ گاڑی سے نکلا تو ڈنڈا‘ پسٹل اور بندوق بردار دوڑ کر سامنے آ گئے۔ اتنی چستی‘ تیزی‘ پروفیشنل ازم دیکھ کر لگا کہ سرگودھا کرائم فری سٹی ہے‘ جہاں کے باسی صحیح معنوں میں خوش بخت ہیں۔ میرے ساتھ پرسنل سکیورٹی اور وکلا کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ سرگودھا بار کے بہت سے وکیل اور ممبر پنجاب بار مجھے دیکھ کر پہنچتے چلے گئے۔ عمر ایوب خان نے مجھے اپنے انتظار اور پولیس کے حسنِ سلوک سے آگاہ کیا۔ ملک میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے اربوں روپے لگا کر جو نظامِ قانون ہم نے بنایا اس کے نیچے چار تھانے‘ تین ایس پی‘ مجھے اور مؤکل کو عدالت میں جانے سے روکنے کے لیے متحرک تھے۔ حالانکہ پچھلی پیشی پر اس عدالت کے جج صاحب نے ہمیں 10جون کی تاریخ دے کر کہا تھا کہ آپ 9بجے سے پہلے عدالت پہنچ جائیں۔
میں نے ایک ایس پی کی گاڑی کے سامنے جا کر اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا‘ جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی سوپر جیپ میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ اس نے بتایا اندر DPOاور بلیسٹک ماہرین گزشتہ ڈھائی‘ تین گھنٹوں سے سکیورٹی تھریٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ چند منٹ ٹھہریں‘ میں ابھی آپ کی انٹری کی اجازت لے کر آتا ہوں۔ ایس پی بڑی پھرتی سے آگے بڑھا۔ ایک دو آفیسرز کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا پھر آفیسرز سمیت اے ٹی سی کورٹ کے اندر جا کر فکسڈ ڈپازٹ کی طرح باہر آنے سے انکاری ہو گیا۔
اس انوکھی مہمان نوازی پر سرگودھا کے وکلا شدید غصے میں آئے جنہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے میں سامنے کے دکاندار کی لائی کرسی بچھا کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ وکلا اور پارلیمنٹیرینز کو ہلکے پھلکے انداز میں کہا: آئیں! آپ کو نیو ورلڈ آرڈر میں اپنے طاقتور سرکاری ملازموں کی حیثیت اور اوقات بتاؤں۔ میں نے کہا کہ گلوبل گاؤں میں ان کا سب سے وڈا چودھری امریکہ بہادر ہے جس نے آگے نمبردار برطانیہ بہادر اور ڈپٹی یورپ بہادر کو بنایا ہوا ہے‘ جن کے دو کارندے ہمارے ایشیائی برادران ہیں۔ اپنے رنگدار صاحب تنخواہ ہماری لیتے ہیں مگر حکم اوپر والوں کا مانتے ہیں۔ امریکہ نے بتایا ہم اس کی شروع کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے پارٹنر ہیں۔ میں نے دوستوں کو یاد دلایا کہ اقتدار میں آنے سے بہت پہلے عمران خان نے ایک گورے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عجیب پارٹنر ہے جو اپنی چھیڑی ہوئی جنگ میں اپنے ہی پارٹنر کے اوپر ڈرون حملے کرتا ہے۔ اس دوران ہم کڑکتی دھوپ‘ Scorching Heatجس کے لیے صحیح لفظ ہے‘ میں بیٹھے تھے کہ ارد گرد مساجد میں ظہر کی اذانیں شروع ہو گئیں۔ ہمارا قافلہ اٹھا اور دھکم پیل میں کورٹ کمپاؤنڈ کے گیٹ کے باہر تک جا پہنچا۔ اس دوران وکلا نے بتایا‘ جو اندر موجود سرکاری وکلا یا اہلکاروں سے رابطے میں تھے‘ کہ جج صاحب ان تین مقدمات میں سے دو کا فیصلہ لکھنے کے لیے سٹینو گرافر کے انتظار میں ہیں‘ جس میں عمر ایوب اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر دونوں کی ضمانت قبل از گرفتاری پر بحث ہونی تھی۔ ہر تھوری دیر بعد معتبر شکل بنائے کوئی پولیس والا سامنے آتا‘ کہتا: سر بس تھوڑی دیر میں گیٹ کھولیں گے۔ اے ٹی سی عدالت بند ہونے کا وقت ساڑھے تین بجے سہ پہر ہے۔ اس موقع پہ دو ٹی وی رپورٹر‘ جو کمپلیکس کے اندر کسی سے رابطے میں تھے‘ بتانے لگے جج صاحب نے قلمی فیصلہ لکھوایا ہے۔ چار بج کر 20منٹ پر فیصلہ ٹی وی سکرینوں پر چلنے لگا۔
اِن... صاف سرگودھا تھیٹر کا ایک اور دلچسپ ایکٹ وہ تھا جو دن میں تین بار دہرایا گیا‘ پولیس فورس کی مختلف وردیوں والے مسلح تازہ دم دستوں کی دہشت گردی کے ''سدِ راہ‘‘ کے لیے آمد والا۔ عدالت کا وقت ختم ہونے پر ہم واپس روانہ ہوئے‘ راستے میں کسی نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی دونوں کی غیرحاضری کی وجہ سے ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ ہو گئی۔ جی ہاں غیر حاضری! آپ ٹھیک سمجھے۔چار عشرے کی وکالتی پریکٹس کے بعد میں نے سرگودھا کی سڑک پر پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں جس قدر تضاد‘ خلفشار‘ مایوسی اور ابلتے ہوئے جذبات دیکھے اور سنے‘ ان پہ کتاب لکھوں یا کسی کی نظم پیش کروں‘ کالم میں نظم آسکتی ہے‘ کتاب نہیں۔
زندگی آج تُو کس طرف آ گئی؍میں چٹانوں سے فرہاد بن کر لڑا؍تُو نے تیشے میں میرا لہوبھر دیا ؍والمیک اور بُدھ بن کے آواز دی؍تُو نے صحراؤں میں مجھ کو گم کر دیا؍ٹرائے کی جنگ میں تیرا ہومر بنا ؍مجھ سے آنکھوں کی سب نعمتیں چھن گئیں؍دشتِ احساس میں تیرا شاعر بنا؍تیرے کانٹوں نے میری رگیں چھیل دیں؍میں نے ڈھونڈا تجھے ذہنِ سقراط میں؍ اور مجھے زہر کا جام پینا پڑا؍ میں نے جانا تجھے بے حد و بے مکاں؍اور مجھے قید خانوں میں جینا پڑا؍حادثوں نے بجھا دی عقیدت کی لو؍تجربوں نے عقائد کو گم کر دیا؍پھر بھی میں تیرے دامن کو تھامے ہوئے؍زخم دھوتا رہا اور گاتا رہا؍اور مہکے یہ زخموں کا بن یا نہیں؍ اور کچھ دن رہے یہ لگن یا نہیں؍اے مری ہم سفر مجھ کو آواز دے؍ مسکرائے گی کوئی کرن یا نہیں؍ جس کھنڈر پر گھنی موت کا راج ہے؍اس سے ابھرے گی صبحِ وطن یا نہیں؍ اقتصادی خیالات کی جنگ میں؍ جیت جائے گا شاعر کا فن یا نہیں
سرگودھا اے ٹی سی کے جج صاحب نے اس واقعہ سمیت جوڈیشل آفیسر اور ان کے خاندان کو ہراساں کیے جانے پر دو ریفرنسز لاہور ہائی کورٹ کو بھجوائے۔ جن پہ توہین عدل کی کارروائی ہائیکورٹ میں شروع ہو گئی۔ باہر کی کہانی میں نے آپ کو سنائی۔ اندر کی کہانی ایک پُرعزم منصف نے اپنے بڑوں کو لکھ کر بھیج دی۔ کہانی چل پڑی ہے۔ اسے اب روکا نہیں جا سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved