کچھ لوگوں کے دلوں میں دو زخم کبھی مندمل نہیں ہوں گے۔ ایک پاکستان کا اسلام یعنی دو قومی نظریے کی بنیاد پر بننا۔ دوسرے پہلی دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کا منظور ہو جانا۔ پاکستان کا تمام تر چیخ و پکار اور مخالفتوں کے باوجود قائم ہو جانا آج تک مخالف گروہوں کیلئے ناسور بنا ہوا ہے۔ اسی طرح قراردادِ مقاصد نئی مملکت کے آئندہ دینی رُخ اور ان مطالبات کی تکمیل کی طرف پہلا قدم تھا جن کا وعدہ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلمانوں سے کیا گیا تھا۔ یہ زخم بھی مخالفوں کے دل میں آج تک ہرا ہے اور کسی طرح اندمال کی طرف نہیں آتا۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ قراردادِ مقاصد دستور کا حصہ بننے پر کس کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی ہو گی؟ ہندو یا مسیحی اراکینِ اسمبلی کو؟ یا وہ جو قادیانی گروہ سے تعلق رکھتے تھے (سرکاری طور پر قادیانیوں کو اس وقت تک غیرمسلم قرار نہیں دیا گیا تھا)‘ اور اسی دستور ساز اسمبلی کا حصہ تھے جس نے قراردادِ مقاصد منظور کی تھی اور انہوں نے اپنا ووٹ بھی اس کے حق میں ڈالا تھا۔ لیکن آپ حیران ہوں گے کہ ان کے دل میں قراردادِ مقاصد خنجر بن کر نہیں اُتری جبکہ ہمارے کچھ معاصر کالم نگاروں کا یہ زخم ہمیشہ ہرا رہتا ہے۔ یہ جس قبیلے کے فرد ہیں‘ اس قبیلے میں پُر نخوت اور ہمہ دانی کے مرض میں مبتلا ریٹائرڈ بیوروکریٹ بھی ہیں اور حاضر سروس کج بحث افسران بھی۔ یہ جن شعبوں میں حاکم ہیں یا تھے ان میں ہر ایک بدترین کارکردگی‘ بدترین کرپشن کا شکار ہوا لیکن ان کے نزدیک ہر زوال کی بنیاد قراردادِ مقاصد ہے۔ یہ زہر اُن میں سے کسی کی زبان سے اکثر اور کسی کی زبان سے کبھی کبھی ٹپک جاتا ہے۔ شکیب جلالی کا شعر ہے
جودل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اس کے بعد طبیعت مری سنبھلنے لگی
لیکن ان لوگوں کی طبیعت زہر بکھیرنے کے بعد بھی اس لیے نہیں سنبھلتی کہ پیداوار اخراج سے کہیں زیادہ ہے۔ اسلام کی بنیاد پر قائم ریاست کی مخالفت کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ اسلام کی بنیاد پر ریاست کی مخالفت اس کے قیام سے بہت پہلے سے جاری تھی۔ چنانچہ ہدف علمائے اسلام ہی ہوتے رہے ہیں لیکن ان سب مخالف آوازوں اور تحریروں میں بہرحال ایک شائستگی کا مظاہرہ ضرور کیا جاتا تھا۔ اصولی مخالفت کا مطلب مخالف کی داڑھی نوچنا نہیں ہوتا لیکن چند حالیہ کالموں میں اختلاف اور بدتمیزی کے بیچ ہر فرق مٹا دیا گیا ہے۔ سات مارچ 1949ء کو وزیراعظم لیاقت علی خان نے یہ قرارداد پہلی دستور ساز اسمبلی میں پیش کی تھی جو 12مارچ کو منظور ہوئی۔ منظوری اصولاً لیاقت علی خان‘ تائید کنندگان اور پوری اسمبلی کے سر ہے۔ ان کالموں میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کو بھی متنازع بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے لیکن اصل دشنام طرازی علامہ شبیر احمد عثمانی کے بارے میں ہے جو اسی دستور ساز اسمبلی کے اہم رکن بھی تھے‘ تحریک پاکستان کے صفِ اول کے رہنما بھی اور پاکستان کو دستوری طور پر اسلامی تشخص دینے کی تحریک کے سب سے بڑے محرک بھی‘ لیکن وہ اس میں تنہا بھی نہیں تھے۔ علماء اور مشائخ کی ایک پوری جماعت ان کے ساتھ تھی۔ قراردادِ مقاصد منظور ہونے کے 76سال بعد بھی اگر یہ زخم رِس رہا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں کتنی کاری ضرب لگائی گئی تھی۔ اور علامہ عثمانی کے بارے میں‘ جنہوں نے اس کا بنیادی کام کیا تھا‘ یہ ہرزہ سرائی اسی زخم کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ کہنا کہ اب یہ قرارداد آئین سے نکلنے والی نہیں ان کی بے بسی کا پتا دیتا ہے۔
وجاہت مسعود کی حالیہ تحریروں کے محض چند نمونے دیکھ لیں: ''علامہ شبیر احمد عثمانی اور ان کے پشتیبان انگاروں پر لوٹ گئے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے حرفِ دشنام دراز کیا‘‘۔ 25مئی 2024ء۔ ''شبیر احمد عثمانی نے جمعیت العلمائے اسلام کی سربراہی کے علاوہ از خود یوپی اور حیدر آباد دکن کے مہاجرین کی نمائندگی کی خلعت بھی اوڑھ لی تھی۔ علامہ شبیر عثمانی بین الاقوامی قانون کے تحت وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کی 25فیصد آبادی کو شہری مساوات سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ خود مسلمان آبادی میں بھی ملاؤں کی حکومت کو ترجیح دیتے تھے۔ شیخ الاسلام کے تقرر کا اشقلہ چھوڑا گیا۔ جو قوم بیس برس پہلے 'امام الہند‘ کا تصور مسترد کر چکی تھی وہ میر عثمان علی خان کے وظیفہ خوار اور نواب بہاولپور کے مشیر کو کیسے شیخ الاسلام تسلیم کرتی‘‘۔تین جون 2024ء۔
یہ ہوتا ہے علمی اختلاف؟ جبکہ خود وجاہت مسعود کا ایسے اختلافات کے بارے میں کیا کہنا ہے: ''بندۂ کم مایہ سمجھتا ہے کہ سیاسی موضوعات پر اپنی رائے کسی تلخی یا قطعیت کے بغیر دلائل اور حوالے سے بیان کرتے ہوئے بحث و تکرار سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے‘‘۔ 8مئی 2024ء۔ اگر یہ ''بندۂ کم مایہ‘‘ تلخی اور بحث و تکرار کے الفاظ کے بعد بدتمیزی کے لفظ کا بھی اضافہ کر دیتا تو شاید ان کے کالم اس سے پاک ہو جاتے۔ ممکن ہے کہ وہ ''انگاروں پر لوٹ گئے۔ حرفِ دشنام دراز کیا‘‘ جیسے جملے دلائل اور حوالے سمجھ رہے ہوں اور اسے نہایت مؤدب پیرایہ خیال کرتے ہوں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس طرزِ گفتگو کا کسی علمی بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ علمی‘ تاریخی بحث کا انداز یہ نہیں ہوا کرتا۔ اپنے مؤقف میں دلائل کے ہولناک خلا کو لفاظی سے پُر کرنے کی کوشش کو سب پہچانتے ہیں۔ جب دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے تحریر لکھی جا رہی ہو تو اس کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
وہ جناب مجیب الرحمن شامی کی جوابی تحریر کے بارے میں لکھتے ہیں ''درویش نے نہایت مؤدب پیرائے میں اپنے استاد گرامی سے اختلاف کیا‘‘۔ ''درویش‘‘ کا مؤدب پیرایہ شامی صاحب کیلئے ہے یا نہیں‘ یہ وہ جانیں البتہ تحریک پاکستان کے ایک بڑے رہنما‘ قائدین کے مسلمہ معتمد‘ قوم کے محسن اور ایک جلیل القدر عالم کیلئے جو ان کا پیرایۂ اظہار ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جس اسمبلی میں قراردادِ مقاصد منظور ہوئی اس میں مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مولانا محمد عبداللہ وغیرہ تو اسمبلی کے اندر موجود تھے بلکہ لفظ مولوی نام کا حصہ رکھنے والے ایک رکن مولوی تمیز الدین اس اسمبلی کے سپیکر بنے تھے۔ لیکن علما کی ایک بڑی تعداد مثلاً سید سلیمان ندوی‘ مولانا مفتی محمد شفیع‘ مولانا عبد الحامد بدایونی‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسے مشاہیر ایوان کے باہر موجود تھے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد منظور کرائی تھی لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے یہ حرفِ دشنام مولانا شبیر احمد عثمانی کیلئے ہے تو اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی تو علما سے نفرت ہے اور علامہ ایوان میں ان کے بڑے نمائندے ہیں۔ لیاقت علی خان بہرحال نہ علامہ ہیں‘ نہ داڑھی ٹوپی والے مولوی۔ دوسری وجہ یہ کہ مولانا شبیر احمد عثمانی قائداعظم اور قائدِ ملت کے قریب ترین عالم تھے اور ان کے نہایت معتمد بھی۔ ان کیلئے برے الفاظ لکھ کر اپنے زعم میں یہ اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسری اور اہم وجہ یہ کہ قرارداد بنیادی طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مولانا مفتی محمد شفیع جیسے علما نے ہی تیار کی تھی اور اب کچھ لوگ ان کی تذلیل کرکے اسی کا انتقام چاہتے ہیں۔
مولانا شبیر احمد عثمانی تو بلا شبہ ایسی بڑی علمی شخصیت ہیں کہ علما تو ایک طرف قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر سمیت دیگر بڑے رہنما بھی ان کا نہایت احترام کرتے تھے لیکن یہ طرزِ گفتگو تو اپنے کسی چھوٹے کیلئے بھی اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ وہ طنزاً مولانا عثمانی کو متبحر عالم کہتے ہیں لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ علامہ عثمانی اپنے وقت کے جلیل القدر متبحر عالم تھے۔ قراردادِ مقاصد کی آگ ان کے دل میں کسی طرح ٹھنڈی نہیں ہو رہی‘ ورنہ بہت آسانی سے وہ ان کے علمی کارناموں کے بارے میں آگاہ ہو سکتے تھے۔ چونکہ انہیں مولانا شبیر احمد عثمانی کی حیات اور سوانح سے واقفیت نہیں اس لیے انہوں نے بے سروپا باتیں بھی ان سے منسوب کردی ہیں۔ یہ وہی کر سکتا ہے جس نے مولانا عثمانی کو نہ پڑھا ہو نہ ان کے حالاتِ زندگی سے واقف ہو۔ یا پھر وہ جو اچھی طرح واقف ہو لیکن انہیں نہ ماننے کا تہیہ کر رکھا ہو۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved