اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور ساری زمین کو ان کی اولاد سے آباد فرما دیا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی صدیاں بیت گئیں کہ ساری زمین حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے بھر گئی۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان صدیوں میں کتنے نبی آئے مگر آخرکار اللہ کی زمین ظلم اور بت پرستی سے بھر گئی۔ تب ایک رسول حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ آپ علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال اصلاحِ احوال کی جدوجہد کی مگر ان کی قوم نہ مانی تو ایک عالمگیر سیلاب آ گیا۔ وہی محفوظ رہے جو مومن تھے اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار تھے۔ انسانیت کے اولین باپ حضرت آدم علیہ السلام تھے اور انسانیت کا دوسرا باپ حضرت نوح علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔ ابو البشر ثانی آپ علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد نجانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ نبی اور رسول آتے رہے۔ اقوام ترقی یافتہ ہوتی اور مٹتی رہیں۔ کئی بڑی اور ترقی یافتہ تہدیبوں پر سمندر چڑھ دوڑا‘ لہٰذا کئی تہذیبیں سمندروں میں دریافت کی گئیں۔ اس کے بعد انسانیت کے تیسرے اور آخری باپ کے دور کا آغاز ہوا۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ پہلے جو دو باپ ہیں‘ وہ جسمانی اور روحانی لحاظ سے ساری انسانیت کے باپ تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاملہ مختلف ہے۔ آپ روحانی لحاظ سے تو ساری انسانیت کے باپ ہیں اور قیامت تک ہیں مگر جسمانی لحاظ سے آپ علیہ السلام بنو اسرائیل اور بنو اسماعیل کے باپ ہیں۔ بنو اسرائیل (یہودیوں) کی تعداد آج کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ دو‘ تین کروڑ ہے۔ بنو اسرائیل میں سے وہ لوگ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانا‘ ایک اندازے کے مطابق مسیحی برادری میں ان کی تعداد آج تین سے چار کروڑ ہے۔ اگر بنو اسماعیل کی تعداد کو دیکھا جائے تو دنیا بھر میں مسلم بنو اسماعیل لگ بھگ 50 کروڑ ہیں۔ یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جسمانی اولاد تینوں الہامی مذاہب میں 55 سے 60 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ تینوں مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کو اگر اکٹھا کیا جائے تو مسیحی برادری کی تعداد ڈھائی ارب جبکہ مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے قریب ہے۔ یہود کی تعداد دو‘ ڈھائی کروڑ۔ تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کو ملائیں تو یہ تعداد تقریباً ساڑھے چار ارب سے کچھ زیادہ بنتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سب کے روحانی باپ ہیں اور یہ سارے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی نسبت جوڑتے ہیں۔ آج انسانی آبادی لگ بھگ آٹھ ارب ہے۔ اکثریتی آبادی کے روحانی باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔
حضرت ابراہیم دجلہ اور فرات کے زرخیز عراقی علاقے میں پیدا ہوئے اور یہیں مبعوث کیے گئے۔ آگ میں پھینکے جانے کی آزمائش کے بعد ہجرت کا حکم ملا تو آپ علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ہمراہ مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے۔ مصر کے حکمران نے اپنی شہزادی حضرت ہاجر (ہاجرہ) کو آپ علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں حضرت ہاجر سے ایک بیٹا عطا فرمایا اور اس بچے کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ ننھا اسماعیل چند ماہ کا تھا کہ اللہ کی طرف سے حکم ملا دونوں ماں بیٹے کو مکہ میں چھوڑ دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دونوں کو لے کر مکہ تشریف لے گئے۔ یہ بے آباد شہر تھا۔ کعبۃ اللہ‘ جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی تھی‘ کی بنیادیں مٹ چکی تھیں۔ نہ یہاں کوئی بندہ تھا‘ نہ پانی تھا اور نہ کوئی پرندہ نظر آتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چند دن یہاں گزارے۔ رہنے کو کوئی کٹیا بنا دی۔ پانی کی ایک مشک تھی اور چند دنوں کا کھانا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام چل پڑے۔ حضرت ہاجر نے پوچھا: کس کے حکم پر چھوڑے جا رہے ہو؟ اور کس کے حوالے کیے جا رہے ہو کہ یہاں تو ہم ماں بیٹے کے سوا کوئی نہیں۔ فرمایا: اللہ کے حکم سے‘ اور اللہ کے سپرد کر کے جا رہا ہوں۔ جواب ملا: تب تو ضرور اللہ ہمیں ضائع نہ کرے گا۔ کچھ دن گزرے تو اناج بھی ختم ہو گیا اور پانی بھی۔ ننھا اسماعیل شیر خوار تھا۔ ماں کو اپنے لعل کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ جب اسماعیل آخری سانسوں پہ آیا تو ماں بھاگی۔ صفا چوٹی پر چڑھی کہ شاید کوئی بندہ نظر آ جائے۔ کوئی دکھائی نہ دیا تو مروہ چوٹی کی جانب چل دی۔ ماں چل رہی تھی مگر قدم تیز تھے۔ ساتھ ساتھ اپنے لختِ جگر کو بھی دیکھے جا رہی تھی۔ جب ننھا اسماعیل نظر نہ آیا تو وادی کے نشیب کی طرف بھاگ پڑیں‘ پھر مروہ پر چڑھیں تو لختِ جگر کو دیکھا۔ بچہ ابھی ہاتھ پائوں مار رہا تھا مگر پیاس سے بلک رہا تھا۔ کسی طرف کوئی بندہ دکھائی نہ دیا۔ ننھے اسماعیل کی بے بس ماں نے اب دوبارہ صفا پہاڑی کی جانب چلنا شروع کر دیا۔ یوں سیدہ ہاجر نے سات چکر لگائے۔ ساتویں چکر پر صفا پہ کھڑے ہو کر دیکھا تو ننھے اسماعیل کے پائوں کے نیچے سے چشمہ فوارے کی شکل میں اچھل رہا تھا۔ ماں دوڑ پڑی‘ ننھے اسماعیل کو اپنے چلوئوں سے پانی پلایا‘ نہلایا‘ پھر خود بھی پانی پیا۔ زندگی جو روٹھ کر جانے کو تھی‘ ٹھہر گئی۔ زم زم ننھے اسماعیل کی یاد بن گیا تو صفا اور مروہ کی سعی اماں ہاجر کی یاد بن گئی۔ اک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو دونوں منظر ماں بیٹے کی مشترکہ یاد بن گئے۔ چند دن گزرے‘ بنو جرہم کا قبیلہ اپنے مویشی لے کر ادھر سے گزر رہا تھا‘ اس نے فضا میں پرندے دیکھے تو سمجھ گئے کہ یہاں پانی موجود ہے۔ وہ زم زم پر آئے اور سیدہ ہاجر سے قیام کی درخواست کی۔ درخواست قبول ہوئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ پانی کی ملکیت ان کی ہو گی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی نے اپنے رب کریم پر بھروسہ کیا تو اللہ رحمن و رحیم نے ان کے توکل کو بھاگ لگا دیے۔
دوسری جانب حضرت سارہ سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے۔ حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے۔ آگے ان کے بارہ بیٹے تھے۔ ایک بیٹے حضرت یوسفؑ کو نبوت ملی۔ یوں یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم‘ یہ سب نبی تھے۔ تین ہزار سال گزر گئے۔ بنو اسرائیل میں متواتر نبی اور رسول آتے رہے۔ ان کی طرف آخری رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جن کے بعد بنو اسرائیل میں کوئی نبی اور رسول نہیں آیا۔ دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ حضرت ہاجر اور حضرت اسماعیلؑ سے ملنے آتے اور چند دن قیام کے بعد واپس فلسطین چلے جاتے۔ جب بھاگنے دوڑنے کی عمر کو جناب اسماعیل پہنچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے اور کہا: پیارے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ بیٹا عرض گزار ہوا: پیارے ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کیجئے‘ ان شاء اللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔ باپ نے اپنے نوعمر بیٹے کو لٹایا‘ چھری پھیری تو چھری نے کاٹنے سے انکار کر دیا۔ امتحان میں یہ خاندان کامیاب ہو چکا تھا۔ ندا آئی: ابراہیم! آپ سے خواب کو سچ کر دکھایا‘ میں نے آپ کو اپنا خلیل (گہرا دوست) بنا لیا ہے۔ بعد ازاں حضرت ابراہیم ؑنے اپنے بیٹے اسماعیل کے ہمراہ کعبہ کو اس کی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا۔ اور پھر ایک رسول کی دعا بھی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو کوئی پانچ ہزار سال بعد قبول فرمایا‘ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لگ بھگ چھ سو سال بعد سارے نبیوں اور رسولوں کے سردار اور امام ختم المرسلین تشریف لے آئے۔ حضورﷺ پر آخری کتاب‘ قرآن نازل ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کر دیا کہ تم لوگوں نے اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر چلنا ہے۔ قربانی کے بارے میں پوچھا گیا تو حضور کریمﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ التین کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: ''انجیر اور زیتون کی قسم۔ اور طور سینا کی قسم اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی قسم‘‘۔ لوگو! انجیر اور زیتون یعنی القدس اور فلسطین حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جائے پیدائش ہیں۔ طورسینا اور غزہ حضرت ہاجر کا دیس ہیں۔ مکہ ان تینوں یعنی حضرت ہاجر‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضور نبی کریمﷺ کا شہر ہے‘ اہلِ اسلام جس کے وارث ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved