پاکستان کے لڑتے جھگڑتے‘روٹھتے بگڑتے‘ دبتے دباتے‘ اُلجھتے اُلجھاتے‘ ایک دوسرے کی زندگی اجیرن بناتے‘ ایک دوسرے پر دھونس جماتے‘ خبط ِ عظمت میں مبتلا اداروں اور افراد نے اپنا اپنا جو حلیہ بگاڑ رکھا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ عید الضحیٰ کی آمد آمد ہے‘ قوم کو قربانی کے فوائد بتانے کے لیے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں لیکن ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے اور ایک دوسرے کو عید مبارک کہنے پر ان میں سے کوئی بھی تیار نہیں‘ جنہیں مقتدر کہا جاتا ہے اور جو اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں ان میں بہت سے گنواروں اور جاہلوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ خود پسندی کو خوداری سمجھا جا رہا ہے‘ اپنی ذات کا بت بنا کر اُس کی پرستش کرنے کو عبادت قرار دیا جا رہا ہے۔ اپنی اَنا پر دوسروں کو قربان کرنے کا نام سنت ِ ابراہیمی رکھا جا رہا ہے۔ ہر طرف ہنگامہ برپا ہے‘ کہیں قومی سلامتی کے نام پر عزتِ نفس کی پامالی پر داد وصول کی جا رہی ہے تو کہیں انصاف کے نام پر بے انصافی کے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ ایسے اداروں اور ایسے افراد کے ساتھ دنیا کی تو کیا ہماری اپنی تاریخ میں جو کچھ ہو چکا ہے‘ اُسے دیکھنے پر بہت کم آنکھیں تیار ہیں۔ اسی شور وغوغا کے دوران ممتاز محقق اور استاد رفاقت علی شاہد تشریف لائے تو چند کتابوں کا تحفہ عطا فرمایا۔ اُن میں سے ایک 1857ء کی جنگِ آزادی سے متعلق تھی جس میں نامور مورخین اور محققین کی بیان کردہ تفصیلات یکجا کی گئی ہیں۔ ورق گردانی شروع کی تو نظر ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری مرحوم کے ایک مضمون ''رنگون میں آخری مغل شہنشاہ‘‘ پر جا کر ٹک گئی۔ اس کے چند اقتباسات پیش ِ خدمت ہیں:
1858ء کی ایک صبح کا ذکر ہے۔ صبح سویرے لال قلعے کے سامنے کچھ پالکیاں اور ڈولیاں آ کر کھڑی ہوئی ہیں۔ اندر گریہ زاری کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں‘ باہر اُن کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آخری مغل شہنشاہ کے دیدار کے لیے میدان میں لوگوں کا ہجوم ہے۔ کچھ دیر بعد ایک بوڑھا انگریز سپاہیوں کے پہرے میں آتاہے اور ایک پالکی میں بیٹھ جاتا ہے۔ اپنی بے نور اور پُر نم نگاہیں قلعے کی سنگین دیواروں پر ڈالتا ہے۔ وہ قلعہ جہاں مغلوں کی عظمت دفن ہے‘جہاں ہندوستان کا وقار ہچکیاں لیتا ہے‘ پھر شاہی خاندان کے کچھ افراد اور کچھ بیگمات سروں پہ خاک ڈالے باہر نکلتی ہیں۔پالکیاں روانہ ہو جاتی ہیں۔ اُن کی روانگی کے ساتھ ہی مغلوں کا ٹمٹماتا ہوا چراغ ہمیشہ کے لیے گُل ہو جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر رنگون پہنچے تو اُن کے ساتھ لگ بھگ 30 افراد تھے۔اُن میں سے 11 تو مرتے دم تک اُن کے ساتھ رہے‘ باقی میں سے کچھ ہندوستان لوٹ گئے اور کچھ نے برما میں ہی سکونت اختیار کر لی۔ ساتھیوں میں عزیز ترین فرزند جواں بخت اور اُن کی اہلیہ شاہ زمانی بیگم‘ دکھ سکھ کی ساتھی زینت محل بیگم اور لاڈلا بیٹا عباس شاہ شامل تھے اور بھی کئی رشتہ دار تھے‘برما کے شہروں میں جن کے خاندانوں کا اَتا پتا چل جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاج محل بیگم اور شہزادی رابعہ بیگم بھی ساتھ ہی رنگون آئی تھیں تاہم سرتاج کے اُٹھ جانے کے بعد ہندوستان لوٹ آئیں۔
بہادر شاہ ظفر کو جہاز سے اُتار کر گوروں کی سخت نگرانی میں رنگون کے صدر بازار کے ایک دو منزلہ بنگلے میں لایا گیا۔ یہ بنگلہ پرانے گھڑ دوڑ کے میدان کے نزدیک موجودہ ''رائل روڈ‘‘ کے کنارے واقع تھا۔ اب تو اس کا کہیں نشان بھی نہیں ہے‘ وہاں اب کچہری اور پولیس کی چوکی ہے۔ یہ کل احاطہ مسٹر ڈاسن نامی انگریز کی ملکیت ہے۔اسی احاطے میں آخری مغل شہنشاہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ابدی نیند سویا ہوا ہے۔ظفر کی زندگی میں اس بنگلے کے اردگرد پہرے دار چیلوں کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔
کسی بادشاہ کی آتما کا خون کرنا ہے تو اس کی شاہی توقیر کا خاتمہ کردو‘ پھر دیکھو‘ وہ کس طرح تڑپتا ہے۔ اُس کی ہر سانس ایک آہ ہے‘اُس کا ہر بول ایک کراہ ہے‘اُس کی مسکراہٹ موت کی ہنسی ہے۔انیسویں صدی کے80 سالہ برائے نام مغل بادشاہ کی حالت ِ زار کی عکاسی اپنے بس کی بات نہیں‘ جس نے 350 سالہ اقبال اور وقار کو وقت کی ایک ٹھوکر سے خاک میں ملتے ہوئے دیکھا ہو‘ جس کے کانوں نے اپنی بیٹیوں کی چیخ و پکار اور ننھے بچوں کی فریاد سنی ہو اور پھر ہمیشہ کے لیے دنیا سے الگ کر دیا گیا ہو‘ اُس کے دکھوں کا اندازہ لگانا بہت کٹھن ہے۔ظفر اپنے تنگ و تاریک کمرے سے کبھی باہر نہ نکلتے تھے۔ چارپائی پر پڑے پڑے حقّہ گڑگڑاتے‘ اپنے پُر درد اشعار گنگناتے اور نماز پڑھتے ہوئے شب و روز گزار رہے تھے۔ کبھی کبھی جواں بخت کو اس فانی دنیا کے دکھ اور ماضی کی کہانی سنانے لگتے تھے۔ بیتے دنوں کی یاد‘ جلے پر نمک کا کام کرتی تھی۔
ظفر کو کتنی پنشن ملتی تھی‘اس کے متعلق کئی باتیں کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سخت مشکلات کے باوجود قیدی نے اپنی خودداری سے کنارہ کشی اختیار نہ کی اور برطانوی سرکار سے کانی کوڑی لینے سے بھی انکار کر دیا۔آخری دم تک ظفر نے اپنی آن پر حرف نہ آنے دیا حالانکہ کئی کئی دن فاقے گزرے‘ لباس تار تار ہو گیا‘ بستر کی جگہ چٹائی نے لے لی مگر یہ خوددار ٹس سے مس نہ ہوا۔ حکومت نے پنشن دینے کی بہتیری کوشش کی لیکن ظفر کی 'ناں‘ کسی صورت 'ہاں‘ میں تبدیل نہ ہوئی اور زینت محل کے بچے کھچے زیورات کو فروخت کر کے گزارا کرتے رہے۔
بہت دنوں سے اُنہیں دردِ گردہ کی شکایت تھی۔ رنج و الم نے خون کی حدت کو اتنا بڑھا دیا کہ دماغ کی نس پھٹ گئی اور فالج ہو گیا۔ آخر سات نومبر 1862ء کو روح کا یہ پنچھی جسمانی پنجرا توڑ کر آزاد ہو گیا۔ میت کے پاس زینت محل‘ جواں بخت‘ شاہ زمانی بیگم اور اُن کی دو ماہ کی بچی (رونق زمانی بیگم) کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ ایک اکبر کی موت تھی مسیحائوں اور دیوتائوں کی ٹکر کے وید حکیم ملک الموت سے اُلجھ رہے تھے‘ رُوپ کماریاں تلوے سہلا رہی تھیں‘ ایسی موت ہو تو کون نہ مر جائے اور اُس کے ایک نام لیوا کو دیکھو! کہ کوئی نبض پر ہاتھ رکھنے والا بھی نہیں ہے اور ۔۔۔ آج دو پھول کی محتاج ہے تربت میری۔۔۔ کہتے کہتے دم توڑ دیتا ہے۔
اب وہ خاک آلود قید خانہ‘ 6 تھیٹر روڈ کہلاتا ہے۔ اُس کے احاطے میں آخری مغل شہنشاہ کو چُپکے سے دفن کر دیا گیا۔ زینت محل روز اپنے بدنصیب شوہر کی قبر پر فاتحہ پڑھتیں اور گھنٹوں بیٹھی آنسو بہایا کرتی تھیں مگر مقدر کو یہ بھی پسند نہ آیا‘ شاہی خاندان کو اُس گھر سے بے دخل کر کے ایک دوسرے مکان میں ٹھہرایا گیا جو اب تک بٹلر انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ سے آگے موجود ہے۔ کچھ دنوں بعد ایک انگریز مسٹر ڈاسن نے اس قدیم احاطے کو خرید لیا۔ نجی ملکیت ہو جانے کے باعث اب ظفر کی تربت پر پھول چڑھانے اور دیا جلانے کی ممانعت کر دی گئی اور قبر کا راستہ بھی بند کر دیا گیا۔ بیر کا جو سوکھا ڈُنڈ مغل شہنشاہ کی قبر کا پتا بتاتا تھا وہ بھی کاٹ دیا گیا۔ اُس وقت رنگون ایک چھوٹی سی بستی تھی اور ہندوستانیوں کی آمد و رفت بھی کم تھی‘اس لیے آہستہ آہستہ لوگوں نے اُس قبر کی یاد بھلا دی اور ظفر کی یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی:
پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اُسے آہ! دامنِ باد نے سر شام ہی سے بجھا دیا
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved