ان لوگوں کے چہرے بھی اُس زمانے میں ٹیلی ویژن چینلوں پر تمتمارہے ہوتے تھے اور آج بھی یہ اسی طرح جگمگارہے ہیں۔ جولائی2007ء کی سخت گرمی کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج کی گرمی اور لہجے کی تلخی بھی نمایاں تھی۔ آج بھی آپ ان لوگوں کو دبے لہجے اور باتوں کو گھما گھما کر ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ لیکن اُن دنوں تو ان سب کی آنکھوں کا تارا پرویز مشرف برسرِاقتدار تھا۔ جمہوریت کے ان پروانوں نے تنقید کے لیے ضیاء الحق کو نشانے پر رکھا ہوتا ہے اور اس ملک میں سیکولر ازم کی بنیادیں مضبوط کرنے کی تمام امیدیں پرویز مشرف سے وابستہ کی جاتی ہیں۔ اس سال جولائی میں اسلام آباد کے بیچوں بیچ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معرکے کے لیے راہ ہموار کی جارہی تھی۔ تجزیہ نگار، اینکرپرسن، سول سو سائٹی کے فیشن زدہ مرد اور عورتیں سب یک زبان تھے۔ کیسے کیسے تلخ جملے تھے: ’’مذاق بنایا ہوا ہے، پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، دارالحکومت کے عین درمیان تماشا لگا ہوا ہے، چند دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، حکومت کیا کر رہی ہے ، حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ یہ تماشا بندہونا چاہیے، انہیں آب پارہ والوں نے پال رکھا ہے، ایجنسیاں ان کو بچا رہی ہیں‘‘۔ اس طرح کے بہت سے فقرے، تبصرے، تجزیے روز ٹی وی کے شام کے پروگراموں کو گرما رہے تھے۔ ایک دن ان لوگوں کے محبوب قائد پرویز مشرف نے صحافیوں کے سامنے کہا: ’’ہم ایکشن کریں گے، پھر شور مت مچانا‘‘ ۔ کیسی خاموشی تھی اس فقرے کے بعد۔ کیسی رضا مندی تھی جو سرجھکا کر خاموشی سے ظاہر کی گئی۔ پھر اس کے بعد یہ پورا علاقہ ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ سے گونجنے لگا۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ‘ بموں کی گونج اور گولیوں کی آوازیں آنے لگیں اور اللہ کا گھر کھنڈربن گیا اور بچیوں کا مدرسہ ملبے کا ڈھیر۔ پھر طویل سناٹا چھا گیا۔ کئی سالوں کے بعد جب پرویز مشرف پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مقدمے کی آوازیں گونجیں تو اس’’ شیر کے بچے‘‘ نے کمال’’جرأت‘‘ اور ’’ بہادری‘‘ سے کہا: ’’میںنے کب یہ ایکشن کیا؟ یہ تو اسلام آباد کی انتظامیہ کا فیصلہ تھا۔ اب بھلا کیا صدر مملکت تھانے کے ایس ایچ او کو حکم دیتاہے؟ کیا وہ ایک ڈپٹی کمشنر کو کہتا ہے کہ اپنی مدد کے لیے ضابطۂ فوجداری کے تحت فوج کوطلب کرو؟‘‘ کیا منطق ہے اس ’’شیر‘‘ کی جس کی اپنی جان پربنی ہے تو وہ ایسی دلیلیں پیش کر رہا ہے۔ وہ جو مدتوں اس آپریشن کا دفاع کرتا رہا۔ لوگوں سے کہتا رہا کہ وہاں ایک بھی بچہ یا عورت نہیں مری۔ چلو اسے تو مقدمے کا ڈر ہے، موت کا خوف ہے، لیکن وہ جو اس کا سا تھ دے رہے تھے؟ وہ‘ جن کی زبانیں نہیں تھکتی تھیں، آج سب کے سب خاموش ہیں۔ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی سینہ پھُلا کر جرأت کے ساتھ نہیں کہتا کہ مشرف پر غلط مقدمہ چلا یا جا رہا ہے۔ کوئی انسانی حقوق کا ترجمان، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا دشمن، عورتوں کے حقوق کا محافظ، آزادیٔ رائے کا علمبردار، فیشن زدہ سول سوسائٹی کا مشعل بردار ہاتھوں میں پلے کارڈ لے کر اسلام آباد کی سڑکوں پر نہیں نکلا کہ مشرف پر مقدمہ غلط ہے‘ اس آپریشن کی تو ہم سب نے حمایت کی تھی‘ یہ آپریشن تو پاکستان کے وقار کی حفاظت کرنے کے لیے تھا۔سب اپنے اس ’’محسن‘‘ کو بھول گئے ہیں جو اس وقت چک شہزاد کے فارم ہائوس میں بیٹھا‘ بزدلی کے ساتھ اپنے گناہوں سے انکار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ سیاست دان تو چلو وقت کی ہوا دیکھ کر بدل جاتے ہیں لیکن دانشوروں اور سول سوسائٹی کے کرتا دھرتا لوگوں کا یہ ٹولہ تو اپنے آپ کو اصول پرست اور راست گو کہتا ہے۔ آج ان کے منہ سے سچ نہیں نکل رہا۔چلو ‘میرے جیسے لوگ تو اس وقت معتوب تھے، ہم فرسودہ اور دقیانوسی لوگ تھے۔ میں ان دنوں ایران میں ایک بین الاقوامی ادارے میں مقابلے کے امتحان کے بعد ایک اہم عہدے پر تعینات تھا، جب یہ سانحہ رونما ہوا۔ میرے لیے رزقِ حلال سے معاشی حالات بہتر بنانے کا یہ اچھا ذریعہ تھا‘ لیکن اللہ نے اس معاشی استحکام کو بھی میری کمزوری نہ بننے دیا، مجھے ہمت دی ۔میں نے لکھا اورپھر ڈھائی ماہ کے اندر ہی مجھے زبردستی ایران سے واپس بلا لیا گیا حالانکہ میری پوسٹنگ چار سال کے لیے تھی۔ ایک طویل انکوائری کا آغاز ہوا۔ حیرت کی بات یہ کہ اس پورے معرکے میں میرا ساتھ میرے ایرانی باس نے دیا جس نے لکھ کر دیا کہ یہ اگرچہ سفارتی ذمہ داری پر تھا‘ لیکن ہماری اجازت سے حق لکھ رہا تھا۔ اللہ نے توفیق دی اور بہترین اجر بھی اسی کے ہاں ہے۔ میں آج بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں اور ظلم کو ظلم کہتا ہوں۔لیکن ظلم کو جائز قرار دینے والے آج کیوں خاموش ہیں؟ اور ظلم کرنے والا اپنے آپ کو اس سارے واقعے سے بے خبر کیوں قرار دے رہا ہے؟ اسی ’’عظیم ‘‘ سپہ سالار کا ایک اور کارنامہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کا قتل تھا۔ اکبر بگٹی سے میرا تعلق تیس سال پرانا تھا اور میں انہیں ایک عظیم محبِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے جانتا تھا۔ ان کے سانحے پر لکھا جانے والا میرا کالم میرے لیے عذابِ جاں بنا دیا گیا تھا۔ صمد لاسی‘ جو اس وقت ڈیرہ بگٹی میں ڈپٹی کمشنر تھا، ایک زمانے میں میرا ماتحت رہا تھا۔ میں نے اس واقعے سے پہلے کئی بار اسے کہا کہ تم اصل صورت حال ان لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟ تم جانتے ہو کہ یہ آگ سے کھیل رہے ہیں اوراس کے بعد لگنے والی آگ بجھے گی نہیں۔ اس کا جواب یہی تھا کہ میری سنتا کون ہے۔ پھر وہ بھی ان کے رنگ میں رنگ گیا۔ سانحہ ہو گیا اور بلوچستان آگ اور خون میں نہلا دیا گیا۔ بگٹی قبیلے کے وہ لوگ‘ جو بلوچ علیحدگی پسندوں کو روس اور بھارت کا ایجنٹ کہتے تھے‘ خو د ان طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ اس سانحے کی سب سے زیادہ مصیبت وہاںصدیوںسے رہنے والے پنجابیوںپر ٹوٹی۔ پاکستان میں پہلی دفعہ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے کا واقعہ بولان کے علاقے پیر غیب میں ہوا۔میرے لیے کس قدر دکھ کا دن تھا کہ مرنے والے بھی اور زندہ چھوڑ دیئے جانے والے بھی بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں میرے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔سب ایک ساتھ وہاں پکنک منانے گئے تھے۔ پکنک منانے والے ان بلوچوں، بروہیوں، پشتونوں اور پنجابیوں کو کیا خبر تھی کہ اس سانحے نے حالات کو کیسے بدل دیا ہے۔ لیکن’’ بہادر سپہ سالار‘‘ جب اس ملک سے دور اپنی آرام گاہ میں جاکر آباد ہوا تو اس نے دیدہ دلیری سے اس جرم سے بھی انکار کردیا۔کہنے لگاوہاں گورنر تھا،وزیراعلیٰ تھا، چیف سیکرٹری تھا، ڈپٹی کمشنر تھا۔ کیا میں نے ان کو حکم دیا تھا کہ جا کے ماردو؟۔ کبھی صدر بھی ایسے احکامات دیتا ہے۔یہ ہے جرأت اور بہادری کی زندہ مثال۔عز م و ہمت کی جیتی جاگتی داستان۔ موت کا رقص بھی عجیب چیز ہے۔ آنکھوں کے سامنے دکھائی دے تو جنہیں اللہ اور روز قیامت پر یقین تک نہ ہو‘ ان کے پائوں تلے سے بھی زمین نکل جاتی ہے۔جب قوت و اقتدار کا حامل تھا‘ تو امریکہ نے نیک محمد کو ڈرون حملوں سے مارا اور یہ کہتا پھرتا تھا کہ ہم نے مارا ہے۔ ڈمہ ڈولہ میں وضو کرتے ہوئے نوجوان بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑے اور ڈرون کی آوازیں تک لوگوں نے سنیں تو سینہ پھلا کر کہا کہ ہم نے حملہ کیاہے‘ یہ سب کے سب دہشت گرد تھے۔ اس وقت تو امریکہ کے قتل بھی اپنے کھاتے میں اور آج اپنے قتل بھی مقامی انتظامیہ کے کھاتے میں۔ لیکن وہ جو آج منہ موڑے‘ اس کے گناہوں سے دور کھڑے ہیں‘ وہ جو اس جرم کے ارتکاب پر اسے اُکساتے رہے۔اسے’’ شیربن شیربن‘‘ کی تلقین کرتے رہے‘ آج مہر بہ لب ہیں اور کچھ دیر کے بعد یہ لوگ ڈرون حملوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ ان کے دل پسند مغربی دانشوروں نے ان کو ظلم قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان ڈرون حملوں کو ابابیل کہتے تھے اور ان کی زد میں آکر مرنے والے معصوم بچوں کو ابرہہ کالشکر قرار دیتے تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved