اس لیے یہاں قرآن وسنت اور آئین کے تحت قانون کی دفعات کو ازسرِ نو زیرِ بحث لانے کا مطلب یہ ہو گا کہ سالہا سال پارلیمنٹ اور ہر سطح کی عدالتوں میں جو عرق ریزی کی گئی اور دلائل کے انبار لگائے گئے ہیں‘ یہ اس ساری مشق کوکالعدم اور مشتبہ قرار دینے کے مترادف ہے‘ جو کسی بھی صورت میں درست اور قابلِ قبول نہیں ہے۔ لہٰذا اس مقدمے میں اصل سوال یہ ہے: قانون کی جن دفعات کے تحت ملزم پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے‘ وہ دفعات ملزم پر ثابت ہوتی ہیں یا نہیں۔ اِس اصل سوال پر زیر نظر فیصلے میں یا تو گفتگو ہی نہیں کی گئی یا نامکمل کی گئی ہے اور آیات قرآنی اور آئین کی غیر ضروری بحث چھیڑ کر پوری قوم بالخصوص مذہبی طبقات کے جذبات کو برانگیختہ کیا گیا ہے۔ یہ بات ہم جذبات میں نہیں کہہ رہے‘ بلکہ فیصلے کا ٹھنڈے دل سے پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد عرض کر رہے ہیں‘ پس ان گزارشات پر غور فرما کر زیرِ نظر فیصلے کو درست کیا جائے۔اگر کسی فیصلے میں غیر متعلق وعظ ونصیحت کا کوئی اسلوب اختیار کر کے مقدمے کے زیر نظر پہلوئوں پر اس کومنطبق نہ کیا جائے تو اسے گوارا کہا جا سکتا ہے‘ لیکن اگر غیر متعلق نصیحت خود فیصلے پر اثر انداز ہونے لگے‘ تو وہ یقینا قابل اعتراض ہو گی۔ زیر نظر مقدمے میں ایسا ہی ہوا ہے‘ اس لیے کہ آیات کریمہ اور آئین کی دفعات ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا گیا ہے:
If only the functionaries of the state had heeded the Holy Quran, considered the constitution and examined the law, then the FIR would not have been registered in respect of the above mentioned offences. Therefore, criminal petition for Leave to Appeal no. 1054-L of 2023 is converted into an Appeal and allowed by setting aside the impugned order and by deleting section 7 read with section of the Punjab Holy Quran (Printing and Recording) Act 2011 and section 298-C and 295-B of the PPC from the charge framed against the petitioner. (Para 10)
اس کا جوترجمہ عدالت کی طرف سے بھیجا گیا ہے‘ وہ یہ ہے:
اگرریاست کے حکام صرف قرآن شریف پر عمل اور آئین پر غور کرتے اور قانون کا جائزہ لیتے تو مذکورہ بالا جرائم کے متعلق ایف آئی آر درج نہ کرائی جا سکتی‘ اس لیے فوجداری پٹیشن برائے استدعا نمبر 1054 ایل بابت 2023 کو اپیل میں تبدیل کرتے ہوے منظور کیا جاتا ہے اور معترضہ حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے درخواست گزار کے خلاف عائد کی گئی فردِ جرم سے پنجاب (طباعت وضبطِ قرآن کریم کے) قانون 2011 کی دفعہ 7 مع دفعہ 9 اور مجموعہ تعزیرات کی دفعات 298C اور 295B کو حذف کیا جاتا ہے۔ یہاں ان دفعات کو حذف کرنے کے لیے ایک بار پھر قرآنِ کریم پر عمل اور آئین پر غور کا حوالہ دیا گیا ہے‘ حالانکہ جیسا اوپر عرض کیا گیا ہے: جن آیات کا حوالہ دیا گیا ہے‘ مقدمے کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آئین کی تشریح مذکورہ بالا طریقے پر طے شدہ ہے۔ 298C اور 295B کو حذف کرنے کے لیے اس جملے کے علاوہ فیصلے کے پیراگراف نمبر 4 اور 5 میں فرمایا گیا ہے: ایف آئی آر‘ چالان اور فردِ جرم میں ملزم کے کسی ایسے عمل کا ذکر نہیں ہے‘ جس سے ان دفعات کے تحت جرائم تشکیل پاتے ہیں‘ حالانکہ ایف آئی آر میں یہ الفاظ موجود ہیں:
ان اداروں کے پرنسپل؍ مہتمم (مبارک احمد) تحریف شدہ ترجمہ قرآن پاک تفسیر صغیر (مع ترجمہ قرآن مرزا طاہر احمد و میر محمد اسحاق) سادہ لوح بچوں کو پڑھا کر ان کی ذہن سازی اپنے گھنائونے مقاصد کی تکمیل کی جانب کر رہے ہیں۔ چالان میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں‘ نیز مبارک احمد ملزم کے خلاف فردِ جرم میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں :
On the same day, time and place you accused along with your co accused distributed and facilitated the distribution of the distorted translation of Holy Quran and Tafseer-e-Saghir, the book banned by Government of Punjab In this way you accused posed yourself to be a Muslim which is punishable u/s 298 C PPC
تعزیرات کی دفعہ298C کے الفاظ یہ ہیں:
Any person of the Quadiyani group of the Lahori Group (who call themselves Ahmadi or by any other name) who Directly or indirectly poses himself as a Muslim or calls or refers to his faith as Islam, or preaches or propagates his faith or invite others to accept his faith by words either spoken or written or by visible representations or in any manner whatsoever outrages the religious feelings of Muslims shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years and shall also be liable to fine.
اس دفعہ میں قادیانیوں کیلئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اور اپنے مذہب یا عقیدے کی تبلیغ یا تشہیرِ عام اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر‘ چالان اور فردِ جرم میں ان کے جن افعال کا ذکر ہے‘ اُن میں من مانی تفسیر کے ذریعے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا اور اپنے عقائد کی تبلیغ وتشہیر شامل ہے۔اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے (poses himself as a Muslim) کے الفاظ پر نہایت تفصیلی بحث ظہیر الدین بنام سرکار (1993ایس سی ایم آر 1718) میں مذکور ہے‘ (پیرا گراف نمبر 23 جسٹس شفیع الرحمن اور جسٹس عبدالقدیر چودھری کا فیصلہ KK) موخر الذکر فیصلے میں تبلیغ اور تشہیر کی وضاحت بھی موجود ہے۔ تفسیرکے نام سے جن تین کتابوں کا ذکر ہے‘ وہ متفقہ طور پر قادیانیوں کی ہیں‘ جن میں قرآن کریم کے اصل متن کے ساتھ خودساختہ ترجمہ اور تفسیر کرکے معنوی تحریف کی گئی ہے‘ مثلاً: آخرت کے معنٰی مسلمانوں کے مسلمہ عقیدے کے مطابق واضح ہیں‘ یہاں تک کہ اس کے ترجمے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی‘ لیکن نام نہاد تفسیرصغیر (بعنوان: قرآنِ مجید) میں اس کی تشریح ''آئندہ ہونے والی (موعود باتوں)‘‘ سے کی گئی ہے‘ جس سے اپنے اس عقیدے کو قرآن کریم پر تھوپنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی (نعوذباللہ) مسیح موعود تھا۔
یہاں اصل مسئلہ یہ تھا: ان تحریف شدہ نام نہاد تفسیروں اور ترجموں کو پڑھانا دفعہ 298C میں بیان کردہ جرائم‘ خاص طور پر خط کشیدہ جملوں کے تحت داخل ہیں یا نہیں‘ شکایت کنندہ کے نزدیک یہ اعمال دفعہ 298C کے تحت آتے ہیں‘ کیونکہ قرآن کریم کے عربی متن کے ہمراہ تحریف شدہ ترجمہ اور من مانی تفسیر دوسروں کو پڑھانا اور اس کیلئے مدرسۃ الحفظ کے نام سے مدرسہ قائم کرنا جو مسلمانوں کے مدرسے کو کہاجاتا ہے‘ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اور قادیانی عقائد کی تبلیغ اور تشہیر میں داخل ہے۔ پس ضروری تھا کہ زیر نظر مقدمے میں اس پہلو پر بحث کی جاتی۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved