انسان اور انسانی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ آپ کو ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ آپ حیران رہ جاتے ہیں۔ اگر تاریخ میں لڑی گئی جنگوں کو پڑھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہادروں کی ہمیشہ سے عزت کی جاتی رہی‘ چاہے وہ آپ کے اپنے ہوں یا آپ کے دشمن۔ بعض دفعہ بہادر دشمنوں کو بھی جنگ کے بعد قیدی بنا کر اس لیے قتل نہیں کیا گیا کہ وہ بہادر تھے‘ جو اپنی قوم‘ قبیلے یا فوج کے لیے لڑ رہے تھے۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات آپ کو ملتے ہیں۔
یونان کے حملہ آور سکندر اور پوٹھوہار کی دھرتی کے بہادر سپوت راجہ پورس کا یہ قصہ مشہور ہے کہ جب سکندر نے جنگ جیتنے کے بعد پوچھا: اب کیا سلوک کیا جائے تو جواب ملا: جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر نے راجہ پورس کو اس کی سلطنت واپس کر دی تھی۔ اگر ہم انسانی تاریخ کو چھوڑ کر صرف پاکستان اور بھارت کے ایسے چند واقعات کا جائزہ لیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ اب بھی اپنے دشمنوں کو داد دینے کا رواج موجود ہے۔ بہادر دشمنوں کو بھی سراہا جاتا ہے۔
میجر (ر) عامر نے ایک حیران کن واقعہ سنایا۔ وہ عید سے پہلے دبئی گئے ہوئے تھے۔ ان کا داماد عارف کچھ عرصے سے بیمار ہے۔ پہلے پاکستان میں علاج کی کوشش کی گئی لیکن پھر اسے دبئی لے گئے‘ جہاں ان کے داماد اور بیٹی نے کرائے پر ایک فلیٹ لے رکھا ہے۔ اس فلیٹ کی لیز ختم ہو رہی تھی اور اب نئے فلیٹ کا بندوبست کرنا تھا۔ کسی نے کہا کہ علاج لمبا چلے گا‘ لہٰذا بہتر ہے کہ کوئی چھوٹا موٹا اپنا فلیٹ لے لیں۔ جتنا کرایہ دینا ہے‘ وہی قسطیں دیتے رہنا۔ اس پر میجر (ر) عامر کو یاد آیا کہ کراچی کا ان کا ایک دوست دبئی میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے دوست کو فون کیا اور بتایا کہ ان کو داماد کی فیملی کے لیے دبئی میں فلیٹ خریدنا ہے۔ دوست نے کہا کہ میں بندوبست کر دیتا ہوں۔ وقتِ مقررہ پر وہ اکٹھے ہوئے۔ اس دوست نے انہیں بتایا کہ کچھ نئے پروجیکٹس شروع ہوئے ہیں‘ وہاں مناسب قیمت پر فلیٹ مل جائے گا۔ وہ دوست ایسا ہی ایک پروجیکٹ دیکھ رہا تھا۔ دونوں وہاں پہنچے تو رئیل اسٹیٹ والے متعلقہ بندے نے انہیں بٹھایا۔ وہ پہلے تو میجر عامر کو دیکھتا رہا اور پھر بولا: میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔
میجر عامر نے پوچھا: آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ وہ بولا: میں انڈیا سے ہوں‘ آج کل دبئی میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار دیکھ رہا ہوں۔ میجر عامر نے مسکرا کر کہا: اگر آپ انڈین ہیں تو آپ نے پھر ضرور مجھے ٹی وی پر دیکھا ہوگا۔ اچانک وہ بولا: کہیں آپ مشہورِ زمانہ پاکستانی میجر عامرتو نہیں؟
میجر عامر نے جواب دیا: جی میں وہی ہوں۔ اس پر وہ انڈین کرسی سے اٹھا اور میز کی اِس طرف آ کر میجر عامر کو گلے لگا لیا۔ وہ پہلے بھی عزت دے رہا تھا لیکن اب اس کا رویہ زیادہ فرینڈلی ہو گیا۔ وہ بولا: ٹی وی پر آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا اور دیکھا۔ پھر اس نے میجر عامر کو کہا کہ جناب! یہ لیں قسطوں کی ادائیگی کا شیڈول‘ اپنی مرضی سے طے کر لیں‘ آپ کو جو آسانی ہو۔ میں آپ کے لیے یہی کر سکتا ہوں۔ اس پر میجر عامر نے حیرانی سے کہا: آپ کی بہت مہربانی کہ آپ اتنی عزت دے رہے ہیں لیکن مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ میں تو ساری عمر آئی ایس آئی میں اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے آپ کے ملک کے خلاف سرگرم رہا‘ آپ مجھے جانتے ہیں یا میرے بارے کچھ سن یا دیکھ رکھا ہے تو یقینا آپ کو میرے بیک گرائونڈ کا بھی علم ہوگا۔ میں نے تو کبھی اپنے کام کے دوران دشمنوں سے رعایت نہیں برتی‘ ملکی مفاد میں جو کچھ بن پڑتا تھا‘ وہ کیا۔ اس پر اُس انڈین نے کہا: آپ درست کہہ رہے ہیں‘ لیکن میں آپ کو بتائوں کہ ہمارے ہاں بھارت میں اس بات کا بہت پرانا رواج ہے کہ ہم اپنے بہادر دشمنوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ وہ لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے جان تک دے دیں یا پھر بہادری کے جوہر دکھائیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں‘ ہم بھارتی ایسے بندوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔
مجھے میجر عامر نے یہ واقعہ سنایا تو میرے ذہن میں فوراً 1971ء کی جنگ کے پاکستانی کیپٹن احسن ملک کا نام ابھرا جس کے لیے بھارتی فیلڈ مارشل مانک شا نے پاکستانی آرمی کمانڈ کو باقاعدہ خط لکھا تھا کہ اپنے اس بہادر فوجی کو ملٹری کا بڑا اعزاز دیں۔ اسی طرح کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری سے متاثر ہوکر بھارتی افسران نے اس کی جیب میں تعریفی خط رکھ دیا تھا تاکہ جب پاکستان آرمی اپنے شہیدوں کی میتیں کارگل کی پہاڑیوں پہ لینے آئے تو وہ خط بھی اس تک پہنچ جائے۔
کیپٹن احسن ملک‘ جو بعد میں کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے‘ کی کہانی انسان کو ششدر کر دیتی ہے کہ کیسا کمال کا فوجی افسر تھا جس کی بہادری نے بھارتی فوج کو اتنا متاثر کیا کہ جنرل مانک شا نے اس کے لیے خط لکھا۔ یہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کا واقعہ ہے‘ کیپٹن احسن ملک اپنے بہادر فوجیوں کے ساتھ مشرقی پاکستان کے جنگی محاذ پر تھے۔ اس دوران بھارتی افواج ڈھاکہ تک پہنچ گئیں لیکن احسن ملک ابھی تک ڈھاکہ سے دور‘ اپنے فوجیوں کے ساتھ محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے علاقے میں بھارتی فوجیوں کو ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھنے دیا تھا۔ دونوں افواج کے افراد اپنے اپنے بنکرز سے یہ جنگ لڑ رہے تھے اور محاذِ جنگ گرمایا ہوا تھا۔ بھارتی فوج حیران تھی کہ جب باقی دستے ڈھاکہ تک پہنچ چکے ہیں تو یہ ایک محاذ کیوں فتح نہیں ہو رہا۔ اس پر ہائی کمانڈ کو یہ بات رپورٹ کی گئی کہ ایک پاکستانی کیپٹن چند فوجیوں کے ہمراہ ابھی تک ڈٹا ہوا ہے اور ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں‘ وہ ابھی تک لڑ رہا ہے۔ جنرل مانک شا کو بتایا گیا کہ ہم نے اسے میسج بھی بھیجا کہ اب مزید لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جنگ تقریباً ختم ہو چکی ہے لیکن وہ ہتھیار نہیں ڈال رہا۔ اس پر جنرل مانک شا اور ہائی کمانڈ کے دیگر افراد اس پاکستانی فوجی کی دلیری اور حب الوطنی سے بہت متاثر ہوئے اور اس کا نام لکھ کر جنرل مانک شا نے پاکستانی جی ایچ کیو کو خط لکھا کہ ایسے بہادر فوجی کو ڈیکوریٹ کریں۔ کئی برسوں بعد کرنل (ر) احسن ملک کے گھر پر ان سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ واقعہ میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا‘ 2011ء میں انہیں ڈھونڈ نکالا اور پھر ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی کہ اُس جنگی محاذ پر کیا ہوا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جب باقی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی‘ جنرل نیازی سرنڈر ڈاکیومنٹ پر دستخط کر رہا تھا تو آپ اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کو تیار کیوں نہیں تھے اور کیوں لڑ رہے تھے؟ احسن ملک نے جو بات بتائی‘ وہ ایک الگ کہانی ہے؛ البتہ انہوں نے اکیلے اس بات کا کریڈٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سب فوجی لڑنے مرنے کو تیار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی چھوڑیں‘ مجھے ایک میجر نہیں بھولتا۔ چھ‘ سوا چھ فٹ سے اوپر قد‘ خوبصورت کڑیل نوجوان۔ کیپٹن احسن ملک کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ بہادر فوجی نہیں دیکھا۔ اس کی بہادری نے ہی ان سب کو متاثر کیا تھا۔ اس میجر کا تعلق (غالباً) ایبٹ آباد سے تھا‘ وہ جس دلیری سے لڑا تھا اس نے کیپٹن احسن ملک جیسے افسران اور دیگر فوجیوں پر بہت اثر ڈالا۔ اس جنگ میں وہ شہید ہو گیا تھا۔
بارہ‘ تیرہ سال قبل جب میں احسن ملک کے گھر پر انہیں ملا تو ان سے پوچھا کہ جنرل مانک شا کو کس بات نے ان کی تعریف کرنے پر مجبور کیا۔ وہ مگر اپنی تعریف سننے کے بجائے اس میجر کی بہادری کی تعریف کرتے رہے جو جوانمردی سے وہاں لڑا تھا۔ بہادر ہی بہادروں کی عزت کرتے ہیں۔ ایسے ہیروز جو بہادری سے لڑے‘ جو گمنام رہے‘ جنہیں کسی صلے یا انعام کی نہ لالچ تھی نہ پروا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved