تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-06-2024

جیواں میں کمزوری دے زور اُتے

اس سے پہلے کی چیزیں تو یاد نہیں‘ تاہم گزشتہ چالیس پینتالیس برس کی باتیں ٹھیک طرح یاد ہیں۔ اسی عرصے میں باتوں پر غور کرنا اور تنقیدی جائزہ لینا شروع کیا۔ تجربہ خام تھا اور علم کی کمی کے باعث بہت سی باتوں کا تجزیہ اس طرح نہ کیا جا سکا جس طرح بعد میں حقائق سے آگاہی ہوئی مگر ان چالیس‘ پینتالیس برسوں کے دوران ملک کو ہمہ وقت کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا ہوا پایا۔ کچھ مسائل تو قدرتی اور حقیقی تھے‘ تاہم مسلط کردہ اور از خود پیدا کردہ مسائل بھی کم نہ تھے۔ یہ حکمرانوں کا قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھنے کا تیر بہدف نسخہ تھا اور الحمدللہ‘ یہ نسخہ آج بھی نہ صرف مستعمل ہے بلکہ اس میں تیزی بھی آ گئی ہے اور تنوع بھی پیدا ہو گیا ہے۔ ہر بار ایک نیا سکینڈل‘ نئی پسوڑی اور نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اور قوم اپنے حقیقی مسائل کو بھول کر اس نئے جال میں پھنس جاتی ہے۔ تماش بین قوموں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس عاجز کی پیدائش ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں ہوئی۔ شاید اسی لیے ایسی قباحتوں کی برداشت کا شاک اَبزاربر خاصا مضبوط ہے کہ گھٹی میں شامل مارشل لائی صدمات نے تریاق کا کام دینا شروع کر دیا تھا‘ جس طرح مختلف شرابوں کے ساتھ دیگر اجزا کے امتزاج سے بننے والی کاک ٹیل دو آتشہ ہوتی ہے اور بقول احمد فراز :
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
اسی طرح ایک طرف ہمارے حکمران قوم کو کسی نہ کسی خود ساختہ مسائل اور سکینڈلز میں مصروف رکھتے ہیں خود اسی طرح قوم بھی اپنے تئیں کسی نہ کسی ہوائی مسئلے میں خود کو مصروف رکھنے میں بڑی فرحت محسوس کرتی ہے۔ حکمرانوں کی کاوشیں اور قوم کا شوق مل کر ہمہ وقت مسائل کا ایسا کاک ٹیل تیار کرتے رہتے ہیں کہ کسی کو اس ملک کے حقیقی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کا خیال ہی نہیں آتا۔ ہم ایک عرصے سے اپنے مسائل کے حل کیلئے ہوا میں تیر اور اندھیرے میں تلوار چلا رہے ہیں۔
Conspiracy Theoryیعنی سازشی نظریہ ہماری قوم کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہم ہر حقیقی اور غیرحقیقی مسئلے کے پیچھے کسی نہ کسی کی سازش کا سرا تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔ ہر بندہ دانشور ہے‘ ہر شخص عالمی سیاست کا ماہر ہے‘ ہر بندہ وائٹ ہاؤس کے اندر تک کی خبروں تک رسائی رکھتا ہے اور ہر ایک کو اپنے پیدا کردہ مسائل کے پیچھے یہودی لابی کے ہاتھ کا بخوبی علم ہے۔ علمِ غیب کی اس کثرت نے سچ اور جھوٹ کی پہچان ختم کردی ہے اور حقیقی مسائل اور خود ساختہ جعلی مسائل کے درمیان فرق مٹا کر رکھ دیا ہے۔ اوپر سے سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر نکال کر رکھ دی ہے۔ ہر بندہ اپنی پسند اور خواہش کے مطابق ملنے والی ہر میل کو‘ ہر مسیج کو اور ہر خبر کو بلاتصدیق فارورڈ کرنے کو صدقہ جاریہ سمجھتا ہے اور کوئی بھی افواہ منٹوں‘ سیکنڈوں میں خبر کی صورت اختیار کرکے دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد لاکھوں لوگ اس پر یقینِ کامل لے آتے ہیں۔ بھلے سے آپ پھر تردید کریں یا ثبوت دیں‘ اعتبار کرنے والوں کی اکثریت کسی اور بات پر یقین ہی نہیں کرتی۔ اب سچ وہی ہے جو آپ کو پسند ہے اور کہیں سے بھی دستیاب ہے۔
اس ملک میں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ یا تو پیدا ہوتا رہتا ہے یا پیدا کیا جاتا ہے۔ پیدا کرنے والوں میں کچھ کردار پہلے سے معلوم تھے اور کچھ پوشیدہ مگر اب یہ پوشیدہ والے بھی سامنے آگئے ہیں۔ جو باتیں پہلے لوگ ڈھکے چھپے کہتے تھے اب سرعام کرتے ہیں اور ڈھکے چھپے رہنے والوں کو ابھی تک خوش فہمی ہے کہ وہ اب بھی ڈھکے چھپے ہیں‘ حالانکہ اب یہ بات بچے بچے کو معلوم ہو چکی ہے کہ کون دراصل کون ہے اور کیا کر رہا ہے۔ وہی میر تقی میر والا معاملہ ہے:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی جانے باغ تو سارا جانے ہے
ہر چوتھے دن پیدا ہونے والے ہر نئے مسئلے کے بعد قوم کو امید پیدا ہوتی تھی کہ اب حالات بہتر ہو جائیں گے اور صورتحال قابو میں آ جائے گی مگر ہر بار یہ خیال خام ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں گزشتہ پینتالیس برس سے تو یہ عاجز دیکھ رہا ہے کہ ہر بار ایک نیا سکینڈل‘ نیا مسئلہ اور نئی پسوڑی پردۂ غیب سے عیاں ہوتی ہے اور قوم امید لگا لیتی ہے کہ اب اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکلے گا اور ذمہ داروں کو سزا ملے گی‘ دوسروں کیلئے سامانِ عبرت پیدا ہوگا‘ آئندہ کیلئے اس قسم کے مسائل کا سدباب ہو گا‘ لیکن معاملہ دودھ کے ابال کی طرح اٹھتا ہے اور ایک پنجابی محاورے کے مطابق‘ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
زیادہ دور نہ جائیں۔ پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آیا۔ آٹھ سو کے لگ بھگ لوگوں کے نام سامنے آئے۔ اس میں ہر قسم کے افراد شامل تھے۔ سیاستدان‘ بیورو کریٹ‘ بزنس مین‘ عدلیہ اور دیگر طبقہ ہائے زندگی کے پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل تھے اور قوم کو خواہ مخواہ یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ اب یہ فہرست لیک آؤٹ ہوئی ہے اور یہ آٹھ سو افراد اب نہ صرف قانون کی گرفت میں آئیں گے بلکہ ان کو نشانِ عبرت بھی بنایا جائے گا مگر اس سکینڈل کی ٹوپی تلے سے نکلنے والی آٹھ سو کے لگ بھگ ناموں پر مبنی فہرست میں سے صرف ایک نام چنا گیا اور اس کا سارا ملبہ اس اکلوتے نام پر ڈال دیا گیا۔ یہ اکلوتا نام میاں نوازشریف کا تھا۔ میرا اس سے مطلب یہ نہیں کہ یہ ایک نام غلط منتخب ہوا یا یہی ایک نام کیوں منتخب کیا گیا؟ میرا سوال تو یہ ہے کہ آخر بقیہ آٹھ سو افراد کو اس احتساب اور عدالتی کارروائی سے کیوں معاف رکھا گیا؟ انہیں کیوں محفوظ و مامون قرار دیا گیا؟ وجہ صرف یہ تھی کہ وہ سکینڈل اس وقت مقتدرہ کو اپنے راندۂ درگاہ کو پھنسانے کیلئے آئیڈیل دکھائی دیا اور انہوں نے بقیہ آٹھ سو لوگوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس فہرست میں سے اپنی مرضی کے ایک بندے کا انتخاب کیا اور اسے سزا دلا دی۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کو‘ مقننہ کو‘ عدلیہ کو‘ انتظامیہ کو اور دیگر اداروں کو ملک کے نظام کی بہتری سے ٹکے کا واسطہ نہیں۔ وہ ہر بار ملنے والے موقع کو اپنی ذات اور خاندان کے مفاد لیے استعمال کر لیتے ہیں۔ رہ گئی قوم اور ملک‘ تو گئے جہنم میں۔
اب دبئی لیکس کا غلغلہ ہے بلکہ غلغلہ بھی کب بچا ہے۔ سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے۔ یہ سارے معاملات قوم کی توجہ ہٹانے کے حربے ہیں اور عرصۂ دراز سے مستعمل ہیں۔ قوم ایک طویل عرصہ سے بے یقینی‘ فرسٹریشن اور ذہنی انتشار کا شکار ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اب بے یقینی‘ فرسٹریشن اور ذہنی انتشار جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اچھے بھلے سلجھے ہوئے وہ لوگ جو ایسی باتوں کو پہلے نہ تو ایسی اہمیت دیتے تھے اور نہ ہی مایوس و پریشان ہوتے تھے اب مایوس بھی ہیں اور پریشان بھی۔ بے یقینی اپنی آخری حد پر پہنچ چکی ہے اور لوگوں کو نہ کوئی امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی بہتری کی کوئی صورت نظر آ رہی ہے۔ حالات ناگفتہ حد تک دگرگوں ہیں اور یہ صورتحال تادیر چلتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسے میں عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ حالات عام آدمی کو بھی دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اس پر پریشان اور رنجیدہ بھی ہیں اور فکر مند بھی لیکن جن لوگوں نے یہ صورتحال پیدا کی ہے انہیں اس کا نہ تو احساس ہے اور نہ ہی اسے درست کرنے کی کوئی فکر لاحق ہے۔ میرے منہ میں خاک! لیکن یہ بات طے ہے کہ اس طرح کے حالات میں معاملاتِ سلطنت زیادہ دیر چل نہیں سکتے۔ آگے مالک کون و مکاں مختار کُل ہے اور یہ ملک تو ویسے بھی ایک عرصے سے کرشموں کے زور پر ہی چل رہا ہے۔ بقول پیر فضل گجراتی:
جیواں میں کمزوری دے زور اُتے
لباں تیک نئیں آندی اے جان میری

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved