تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     22-06-2024

پاکستانی وزارت کے ناقص حج انتظامات

حج ایک مسلمان کی زندگی کا اہم ترین سفر ہوتا ہے۔ خانۂ خدا کی دید کے لیے لاکھوں فرزندانِ توحید عمر بھرتڑپتے رہتے ہیں تب کہیں جا کر وہ مبارک لمحہ آتا ہے جب مکۃ المکرمہ میں اللہ کا گھر اُن کے سامنے ہوتا ہے۔ دیکھئے ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس مقدس لمحے میں دلِ مومن کی کیسی سچی تصویر کشی کی ہے:
سامنے ہے اُس کو آنکھوں میں بسا لے جائیے
عمر بھر اس ایک پل کو مت گزرنے دیجئے
دنیا بھر کی مسلم حتیٰ کہ غیر مسلم حکومتیں بھی حجاج کرام کے سفر کو آرام دہ یا کم تکلیف دہ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ میں گزشتہ کئی سالوں کا چشم دید گواہ ہوں کہ کس طرح دورانِ حج ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ ایران‘ ترکیہ وغیرہ کے اعلیٰ تربیت یافتہ افسران و رضاکاران قدم قدم پر اپنے حجاج کی رہنمائی اور دل جوئی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارتِ مذہبی امور اور اس کے بیورو کریٹ افسران کا تعلق ہے وہ حجاج کرام کو گرم ترین موسم اور بدترین انتظامات کے حوالے کر کے خود اپنے آرام دہ عافیت کدوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کالم میں آگے چل کر میں بتاؤں گا کہ اس بدانتظامی کے حقیقی اسباب کیا ہیں‘ مگر پہلے آپ کو بیچارے پاکستانی حجاج کی کسمپرسی اور پریشان حالی کی کچھ جھلکیاں دکھا دوں۔
یوں سمجھیے کہ سرکاری انتظامات کے تحت حج کرنے والے پاکستانیوں کی منیٰ میں زبوں حالی کی یہ داستاں انہوں نے براہِ راست سنائی۔ کچھ نہایت معزز سفید پوش خواتین و حضرات حکومتی انتظامات کے تحت سفرِ حج کر رہے تھے۔ انہوں نے میدانِ منیٰ سے بتایا: ہم ڈی کیٹیگری میں سفرِ حج کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس کے لیے فی حاجی 12 لاکھ روپے وصول کیے ہیں۔ منیٰ کے جس خیمے میں سرکاری وعدے کے مطابق 40 افراد کا انتظام تھا‘ وہاں بلامبالغہ 100 افراد کو ٹھونس دیا گیا تھا۔ وہاں سونے کی جگہ تھی نہ بیٹھنے کی‘ اور مناسب تعداد میں کولر تھے نہ پنکھے۔ پانی نایاب اور ٹائلٹس کا حال ناقابلِ بیان۔
ایک پریشاں حال اوورسیز پاکستانی حاجی نے وزارتِ مذہبی امور کے فیس بک پیج پر نہایت جامع نوٹ لکھا ہے۔ اُن کی انگریزی سے لگتا ہے کہ وہ امریکہ سے حج پر آئے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اُن کا مبارک سفر ایک بھیانک خواب بن گیا۔ اس کا سبب پاکستانی وزارتِ حج کی بدانتظامی اور غیر ذمہ داری تھی۔ وزارتِ حج نے حجاج کرام کو بے یارو مددگار چھوڑنے کی وڈیو کو بے بنیاد قرار دینے کی کوشش کی ہے جبکہ یہ ایک وڈیو ہی نہیں اور بھی بہت سی وڈیوز اور پیغامات بالکل حقیقی ہیں۔
گزشتہ تین برس سے نئے سعودی سسٹم کے تحت منیٰ میں اے کیٹیگری کے حاجی کو ایک میٹر جگہ فراہم کرنے کے دس ہزار ریال لیے جاتے ہیں جبکہ بی کیٹیگری والے سے ساڑھے سات ہزار ریال‘ سی کیٹیگری سے 5900 اور ڈی کیٹیگری والوں سے 4600 ریال فی حاجی وصول کیے جاتے ہیں۔ اسی اوورسیز پاکستانی نے بتایا کہ ہم نے منیٰ میں سی کیٹیگری کے لیے 15 لاکھ رقم ادا کی تھی مگر ہمیں زبردستی ڈی کیٹیگری میں ٹھونس دیا گیا جہاں اُن کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔
پاکستانی وزارتِ حج کے حکام سعودی حکومت کی منظور کردہ پرائیویٹ کمپنیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ سرکاری انتظامات کے تحت جانے والے حجاج کی قسمت کا سودا کر کے خود فارغ ہو کر الگ تھلگ بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر وہاں حکومتی نمائندے ہوتے اور وہ سعودی کمپنیوں کے ساتھ طے شدہ شرائط کی خلاف ورزیوں کا بروقت نوٹس لیتے اور تین چار روز پہلے سے آ کر خیموں اور انتظامات کا بچشم خود جائزہ لیتے تو شاید صورتِ حال مختلف ہوتی۔ اگر پاکستانی نمائندے 40 کے خیمے میں 41 حجاج بھی نہ ہونے دیتے تو یہ بدنظمی و بدحالی اور حجاج کی پریشان حالی دیکھنے میں نہ آتی مگر وہاں تو پاکستان کا کوئی افسر تھا اور نہ ہی کوئی رضاکار۔ پاکستان سے گئے ہوئے معاون رضاکار اپنا اپنا حج کرنے میں مصروف تھے۔ اگر پاکستانی ڈائریکٹوریٹ حج نے مقاماتِ حج کا پہلے سے عملاً کوئی سروے کیا ہوتا اور ٹریفک پلان کو سمجھا ہوتا تو وزیر مذہبی امور چودھری سالک حسین کو منیٰ سے عرفات پہنچنے میں سات گھنٹے نہ لگتے۔ وہ صرف پندرہ بیس منٹ میں وہاں پہنچ جاتے۔
وزارتِ حج نے رہائش وخوراک کے انتظامات کے بارے میں بھی بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے مگر وزارتِ مذہبی امور کے فیس بک پیج پر بہت سے پاکستانیوں نے پوری ذمہ داری سے بتایا ہے کہ ان سے 3 لاکھ زائد بھی وصول کیے گئے مگر انہیں نہایت ناقص رہائش اور خوراک فراہم کی گئی‘ انہیں کسی ہوٹل میں بھی جگہ نہ ملی بلکہ مقاماتِ حج سے 22 کلومیٹر دور‘ اَن فرنشڈ عمارت میں ڈال دیا گیا جہاں معزز خواتین کو مردوں والے باتھ رومز استعمال کرنا پڑے۔
یہ بات تو میرے لیے ناقابلِ یقین ہے کہ سینکڑوں پاکستانی حجاج نے لکھا ہے کہ انہیں منیٰ سے عرفات‘ وہاں سے مزدلفہ اور میدانِ مزدلفہ سے واپس منیٰ میں جمرات تک طے شدہ شرائط کے مطابق کوئی ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی گئی۔ وہ دھوپ میں ادھ موئے پیاس کی شدت سے تڑپتے ہوئے نجانے کیسے منیٰ سے عرفات پہنچے۔ یہ کھلی کھلی مجرمانہ غفلت ہے‘ جو افسران و دیگر اہلکار اس غفلت کے مرتکب پائے جائیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس حوالے سے بعض ناگفتنی مالی کہانیاں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔ اُن کا کھوج بھی حکومت پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے۔
اس سال حج کے موقع پر شدید ترین گرمی اور سعودی وزارتِ حج کی طرف سے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کی بنا پر 1000 سے زائد حجاج کرام اللہ کو پیارے ہو گئے جن میں 35 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ بعض وڈیوز کے مطابق گرمی کی شدت سے دم توڑ جانے والوں کی لاشیں بہت دیر تک آگ کی طرح تپتی ہوئی سڑکوں پر پڑی رہیں۔ حج کے انتظامات کو خوب تر بنانے کے لیے تین سال قبل سعودی حکومت نے معلمین کے سابقہ نظام کو ختم کر کے اُن کی جگہ بڑی بڑی کمپنیوں کو یہ کام سونپ دیا تھا۔ یوں یہ عظیم کارِ خیر خدمت کے بجائے کمرشل دائرے میں داخل ہو گیا۔ پہلے پاکستان کی وزارتِ حج اور پرائیویٹ ٹور آپریٹرز منیٰ اور عرفات کی خدمات معلمین کے ذریعے لیتے تھے۔ ان معلمین کو اپنی سینکڑوں سال کی بنی ہوئی ساکھ اور شہرت کا بہت خیال ہوتا تھا۔ تین سالہ حج کے معاملات و انتظامات کی خرابی نے ثابت کیا ہے کہ پرانا نظام ہی بہتر تھا۔
اسی طرح دہائیوں سے یہ طریقہ کار رائج تھا کہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز براہِ راست اپنی رقوم مکۃ المکرمہ کے ایک مخصوص بینک میں منگواتے اور پھر وہاں سے ادائیگیاں کرتے تھے۔ اب یہ ساری رقوم پہلے پاکستانی ڈائریکٹر حج کو بھجوائی جاتی ہیں۔ وہ پھر ٹور آپریٹرز کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرتے ہیں۔ اس دوران اربوں کی رقوم کئی روز تک ڈائریکٹر صاحب کے کسی اور بینک اکاؤنٹ میں پڑی رہتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی لین دین کی کئی داستانیں سننے میں آ رہی ہیں جن کی ضرور تحقیق ہونی چاہیے۔
پاکستانی وزارتِ مذہبی امور کے افسران کی انتہائی ناقص حج کارکردگی پر اس کا کڑا محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ آئندہ سال شدید گرمی میں پاکستانی حجاج کرام سڑکوں پر رُلتے رہیں اور نہ ہی خستہ حالی کا شکار ہوں۔
ہماری سعودی حکومت سے بھی یہی درخواست ہو گی کہ وہ بڑی بڑی کمپنیوں کی بجائے معلمین ہی کو خدمتِ حجاج کا کام واپس کر دیں۔ معلمین کے خاندانوں کو صدیوں سے اس کارِ خیر کا وسیع تر تجربہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved