قراردادِ مقاصد کا متن آپ نے پڑھ لیا۔ اس کی منظوری کے بعد اسمبلی میں کیا کارروائی ہوئی‘ ذرا ایک نظر اس پر بھی ڈالیے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد اسمبلی میں ایک پرنسپل کمیٹی بنائی گئی جس نے قرارداد کی روشنی میں پہلی دستوری تجاویز دینی تھیں۔ اس کمیٹی میں کون لوگ تھے؟ ظفر اللہ خان ‘ غلام محمد‘ سردار عبد الرب نشتر‘ جناب فضل الرحمن‘ جوگندر ناتھ منڈل ‘ مولانا شبیر احمد عثمانی‘ ڈاکٹر عمر حیات ملک‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ جناب کمینی کمار دتہ ‘ بیگم جہاں آرا شاہنواز‘ فیروز خان نون‘ سرس چندرا چٹوپادھیائے‘ ممتاز محمد خان دولتانہ‘ مولانا محمد اکرم خان‘ میاں محمد افتخار الدین‘ سردار بہادر خان‘ ڈاکٹر محمود حسین‘ بیگم شائستہ چودھری‘ پریم ہری برما ‘ چودھری نذیر احمد خان‘ شیخ کرامت علی اور لیاقت علی خان۔ اس وقت کے ایوان کو دیکھیں تو یہ بہت متوازن کمیٹی تھی۔ آپ ذرا ان ناموں میں موجود غیرمسلم ناموں پر بھی غور کیجیے۔
ذرا اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جب یہ دعویٰ کیا جائے کہ قائد اعظم محمد علی جناح سمیت بڑے مسلم لیگی رہنما تو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے لیکن مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر علما ایسا نہیں چاہتے تھے تو اس کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے‘ کون کون سی چیز متنازع بن کر نہیں رہ جاتی؟ ہم تو ان قائدین کو ایسے تمام الزامات سے بری سمجھتے ہیں اور ان کی شخصیات کھری سمجھتے ہیں لیکن دعویٰ کرنے والوں کی بات مانی جائے تو یہ سیدھا سیدھا قومی رہنماؤں پر سنگین الزام ٹھہرتا ہے۔ نیز یہ بھی لازم ٹھہرتا ہے کہ قائدین چار و ناچار مولانا شبیر احمد عثمانی کی بات ماننے پر مجبور ہو گئے تھے۔ میں نے اوپر ذکر کیا کہ ایوان میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے علاوہ مولانا عبداللہ بھی موجود تھے۔ کیا اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ صرف دو افراد نے ایوان کی خواہشات کے برعکس یہ قرارداد منظور کروا لی ہو؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا اگر قائدِ ایوان اور ایوان کی اکثریت کی اپنی یہی خواہش نہ ہوتی۔
کسی قوم کی بڑی بدنصیبی ہوتی ہے اگر وہ اپنے محسنوں کو نہ صرف فراموش کر دے بلکہ محسن کشی پر اُتر آئے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی بلاشبہ پاکستانی قوم کے محسن ہیں۔ ان کی شخصیت پر بے سروپا الزامات دراصل اسی ذہنیت کا ایجنڈا ہے جو ہر غیرمتنازع رہنما کو متنازع بنانا چاہتی ہے۔ اس ذہن کے ہدف علامہ اقبال‘ قائداعظم‘ لیاقت علی خان بھی ہوا کرتے ہیں۔ اسی صف میں مولانا عثمانی بھی وہ قابلِ احترام‘ غیر متنازع‘ بے مفاد عالم اور رہنما ہیں جنہیں داغدار کرنا اس ایجنڈے کا حصہ ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی کی سوانح اور علمی و سیاسی زندگی پر کئی کتب لکھی گئیں لیکن اسلامیہ کالج لائل پور (فیصل آباد) کے پروفیسر مولانا انوار الحسن شیر کوٹی کی متعدد تصانیف ان میں بہت ممتاز ہیں۔ تجلیاتِ عثمانی (1957ء) علمی سوانح پر مشتمل ہے‘ مکتوباتِ عثمانی (1966ء) علامہ کے خطوط پر مشتمل ہے‘ خطباتِ عثمانی (1972ء) تقاریر‘ مکالموں‘ بیانات اور پیغامات پر مشتمل ہے۔ حیاتِ عثمانی (1972ء۔ اشاعت 1985ء) مولانا شبیر احمد عثمانی کی تفصیلی سوانح تھی جو 1946ء کے واقعات تک پہنچی تھی کہ مولانا شیرکوٹی کا انتقال ہو گیا۔ بہرحال ان کتابوں کا ذخیرہ نہایت گرانقدر ہے کہ یہ مولانا شبیر احمد عثمانی کی شخصیت پر جامع ترین کتب ہیں۔ ان سے مولانا شبیر احمد عثمانی کی بے لوث‘ دین‘ ملک اور قوم کیلئے مسلسل قربانیاں دینے والی‘ محسن شخصیت سامنے آ جاتی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کیسی ثابت قدمی سے کئی اطراف کی مخالفتوں کا سامنا کیا تھا۔
تاریخ پڑھنے والے کو پتا ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تربیت یافتگان میں سے تھے۔ تحریک پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی کا کردار ناقابلِ انکار بھی ہے اور تاریخ میں درج بھی۔ وہ مولانا تھانوی‘ جو بہت سی ایسی تحریکوں سے عملاً کنارہ کش رہے‘ جن کے بار ے میں ان کے تحفظات تھے‘ مطالبۂ پاکستان کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے تربیت یافتگان کو اس طرف متوجہ کیا اور قائداعظم اور مسلم لیگ کے اکابرین کے پاس پے درپے وفود بھیجے۔ ان وفود میں مولانا شبیر احمد عثمانی کا نام بھی شامل تھا اور میرے عظیم المرتبت دادا‘ جناب مفتی محمد شفیع کا بھی۔ دیگر نامور علمائے کرام بھی تھے۔ ان کی مسلسل ملاقاتیں ہوئیں۔ ان حضرات کی پُر زور حمایت ہی سے ہوا کا رُخ بدلا اور مسلم لیگ کو عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ مولانا تھانوی کی رحلت کے بعد تحریک پاکستان نے اور زور پکڑا اور وہ علما جن میں سے اکثر دارالعلوم دیوبند سے وابستہ تھے‘ پُرزور طور پر اس تحریک میں شریک ہو گئے۔ یہ حضرات اپنے سیاسی نظریے کی وجہ سے مدرسے میں تقسیم اور تنازع نہیں چاہتے تھے؛ چنانچہ یہ دارالعلوم سے مستعفی ہو کر مسلم لیگ کی حمایت میں آئے۔ مولانا شبیر احمدعثمانی صدر دارالعلوم کے منصب اور مولانا مفتی محمد شفیع صدر مفتی کے منصب سے علیحدہ ہوئے۔ یہ دونوں مناصب ایک عمر کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتے ہیں اور اپنی مادرِ علمی سے علیحدہ ہونا الگ آزمائش تھی۔ اسی آزمائش کا ایک رُخ اپنے ہم مسلک علما کے نظریے کی مخالفت تھی۔ علما بھی وہ جن میں کئی ایک اساتذہ کے درجے میں تھے۔ مدارس سے وابستہ لوگ ان اداروں میں استاد شاگرد کے رشتے سے واقف ہیں۔ یہ حضرات اپنی دلی رائے کے مطابق اس مشکل مرحلے سے پوری استقامت کے ساتھ گزرے۔ ان حضرات کو نظر آتا تھا کہ علمائے دیوبند کی جماعت‘ جو ان کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی قائم کردہ جمعیت العلمائے ہند سے منسلک ہے‘ کانگریس کے نظریے کی پوری طرح تائید کر رہی ہے۔ ضرورت تھی کہ پاکستا ن کے حامی علما کی ایک الگ جماعت ہو جو اپنے مؤقف کا اظہار کر سکے؛ چنانچہ 1945ء میں جمعیت العلمائے اسلام کی بنیاد ڈالی گئی اور کلکتہ میں اس کا پہلا اجلاس ہوا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی علالت کی وجہ سے اس میں شریک نہ ہو سکے لیکن 29 صفحات کا پیغام بھیجا جو وہاں پڑھ کر سنایا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے جمعیت العلمائے اسلام کی صدارت بھی قبول فرمائی۔ یہ واضح رہے کہ علما کی ان دونوں جماعتوں میں کسی کا مقصد انتخابی سیاست میں حصہ لینا نہیں بلکہ اپنے مؤقف کے مطابق کانگریس یا مسلم لیگ کی سیاسی حمایت تھا۔
تحریک پاکستان پر مولانا شبیر احمد عثمانی اور انکے رفقا کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنے بیانات کے ذریعے مسلم لیگ کے حق میں بڑی لہر پیدا کر دی۔ وہ مسلمان جو تذبذب کی حالت میں تھے‘ مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے اور فضا بدلنا شروع ہو گئی۔ 1946ء میں مسلم لیگی اراکین کو مسلم ووٹ ملنا اسی بدلی ہوئی فضا کا اثر تھا۔ لیکن یہ تنہا کارنامہ نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا انتخابات میں کامیاب ہونا بھی ان حضرات کے تعاون کی وجہ سے تھا۔ اس کی تفصیل بتانی اس لیے ضروری ہے کہ 78 سال پہلے کا یہ انتخابی معرکہ اب زمانے کی گرد میں چھپ گیا ہے۔کُل ہند مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل لیاقت علی خان 1946ء کے انتخابات میں ضلع سہارنپور سے امیدوار تھے۔ اسی ضلع میں دیوبند کا شہر بھی آتا ہے۔ یہ پورا ضلع مسلم اکثریتی ووٹروں پر مشتمل تھا‘ لیکن یہ وہ علاقہ تھا جس میں مولانا حسین احمد مدنی کا بہت طاقتور حلقۂ اثر تھا اور وہ کھل کر کانگریس کی حمایت میں تھے۔ کانگریس کی طرف سے ان کے قدیم اور مقبول سیاسی لیڈر محمد احمد کاظمی امیدوار تھے جن کی کانگریس سے وفاداریاں ضرب المثل تھیں۔ خود نہرو اور سردار پٹیل سمیت کانگریس کے بڑے رہنما حلقے کا مسلسل دورہ کر رہے تھے اور ان کے پاس انتخابی مہم کیلئے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ کانگریس ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ نوابزادہ لیاقت علی خان یہاں سے کامیاب ہوں۔ لیاقت علی خان ان مایوس کن حالات سے مضطرب تھے اور ایک دن اسی ملال کی کیفیت میں علامہ شبیر احمد عثمانی کے پاس دیوبند میں انکے گھر پہنچے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved