تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     22-06-2024

سپریم کورٹ میں پیش کردہ موقف…( 4)

ٹرائل کورٹ میں ابھی شہادتیں پیش کی جا رہی ہیں‘ ملزم کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہوا اور یہ بحث بھی باقی ہے کہ شہادتوں کی روشنی میں 298C کا جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ پس اگر سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ کرنا تھا تو اس پہلو پر سپریم کورٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ انصاف کے اس واضح تقاضے کے باوجود سرسری طور پر یہ کہہ کر یہ دفعہ حذف کرنے کا حکم دے دیا گیا کہ اگر قرآنی احکام اور آئین کو مدنظر رکھا جاتا تو مقدمہ درج ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نیز ایف آئی آر؍ چالان اور فردِ جرم میں ایسے کسی فعل کا ذکر نہیں جو مذکورہ دفعہ کے تحت جرم بنتا ہو‘ حالانکہ تینوں جگہ ایسے افعال کا ذکر ہے جو بظاہر 298C کے تحت آتے ہیں۔ یہی معاملہ 295B کے ساتھ بھی ہوا کہ ایف آئی آر سے لیکر فردِ جرم تک‘ ہر جگہ اس کا ذکر ہے‘ دفعہ کے الفاظ یہ ہیں: ترجمہ: ''جو شخص جان بوجھ کر قرآن پاک کے نسخے یا اس میں سے کسی اقتباس کی تحریف کرتا ہے‘ اسے نقصان پہنچاتا ہے یااس کی بیحرمتی کرتا ہے یا اسے کسی توہین آمیز طریقے سے یا کسی غیر قانونی مقصد کیلئے استعمال کرتا ہے‘ اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی‘‘۔
اس دفعہ کو حذف کرنے کیلئے بھی اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت تھی کہ ایک ایسی کتاب کو قرآن مجید کہہ کر پڑھانا جس کے ترجمے میں تحریف کی گئی ہو اور اس کے ٹائٹل پر ایک غیر مسلم کو ''خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ‘‘ کہہ کر مترجِم قرار دیا گیا ہو‘ جبکہ خلیفۃ المسیح اور ''رضی اللہ عنہ‘‘ اسلامی اصطلاحات ہیں‘ آیا اس دفعہ کے تحت قرآن کریم کی تحریف یا بیحرمتی یا اسے غیر قانونی مقصد کیلئے استعمال کرنا کہلائے گا یا نہیں‘ لیکن اس کی تشریح میں فیصلہ بالکل خاموش ہے ۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں: مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب تمہارے پاس دو اشخاص فیصلہ کرنے کیلئے آئیں تو پہلے شخص کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک دوسرے کی بات نہ سُن لو‘ پھر تمہیں پتا چلے گا کہ کیسے فیصلہ کرو‘‘ (جامع ترمذی:1331)۔ اس حدیث میں مقدمے کے فیصلے کیلئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ فریقین میں سے ہر ایک کو ٹھنڈے دل سے سُنا جائے۔ صرف وکیل سرکار سے کوئی مُبہم جملہ نکلوا کر فیصلہ کر دینا اس حدیث کے خلاف ہو گا ‘ اس کے بجائے اصل شکایت کنندہ سے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اُس نے کن وجوہات کی بنا پر الزام عائد کیا‘ شکایت کنندہ کے وکیل کو اس تکنیکی وجہ سے نہ سننا کہ یہ مقدمہ بنام سرکار ہے‘ خاص طور پر ایک ایسے مسئلے میں جس کی حسّاسیت کا اعتراف تمام اعلیٰ عدالتوں نے کیا ہے‘ نامناسب معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بات قابلِ ذکرہے: جن مقدمات کا تعلق عقیدے سے ہو‘ ان کے بارے میں زیر نظر فیصلے کے پیراگراف 16 میں کہا گیا: (مفہومی ترجمہ) ''جن جرائم کا تعلق مذہبی عقائد سے ہو‘ ان میں چونکہ کسی فرد یا اس کی نجی جائداد کا معاملہ نہیں ہوتا‘ اس لیے انہیں مقدمہ دائر نہیں کرنا چاہیے‘ بلکہ صرف سرکار ہی اس کی حقدار ہے‘‘۔ یہاں گزارش یہ ہے کہ بنیادی مذہبی عقائد ایک مسلمان کیلئے مال ودولت اور جائداد سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں‘ لہٰذا اگر کوئی قانون کسی عقیدے کی خلاف ورزی کو جرم قرار دیتا ہے‘ تو یہ ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ سرکاری مشینری کو اس کی طرف متوجہ کرے اور اگر اس میں پس وپیش ہو رہی ہو‘ تو براہِ راست عدالت میں جائے۔ کسی مسلمان کے اس فعل کو غیر قانونی کہا جا سکتا ہے اور نہ قابلِ افسوس قرار دیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے الفاظ چونکہ تمام عدالتوں کیلئے رہنما ہوتے ہیں‘ اس لیے یہ پیراگراف انتظامیہ اور ماتحت عدالتوں کو اس قسم کے معاملات میں انفرادی شکایتیں قبول کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ پولیس میں ایف آئی آر درج کرانا کتنا مشکل بن چکا ہے‘ اس کا اندازہ خود زیر نظر مقدمے کے ریکارڈ سے ہو سکتا ہے‘ اب انفرادی شکایتوں کا دروازہ بند کر دینا ایک طرح سے ان جرائم کے خلاف مقدمات کے خاتمے پر ہی منتَج ہو سکتا ہے۔ اگر دینی جذبات کے تحت کسی قانون کے مطابق کارروائی کے راستے بند کیے جائیں گے تو لوگوں کیلئے قانون کو ہاتھ میں لینے کا دروازہ کھلے گا‘ جو ہمارے نزدیک ہرگز جائز نہیں‘ بلکہ معاشرے کیلئے نہایت خطرناک ہے۔ لہٰذا گزارش ہے کہ اس فقرے کو بھی حذف کر دیا جائے۔اسی طرح زیر نظر فیصلے میں مذکورہ بالا دفعات کو خارج کرکے Criminal Law Amendment Act 1932 کی دفعہ 5 کے تحت الزام کو کسی درجے میں تسلیم کرکے ملزم کی ضمانت منظور کی گئی۔ ہمیں بعض ماہرین قانون نے بتایا: یہ ترمیمی ایکٹ جس قانون کا حصہ تھا‘ وہ 1960ء میں منسوخ ہو چکا‘ ہمیں بذات خود اس کی تفصیلات کا علم نہیں‘ عدالت خود اس کی تحقیق کر سکتی ہے‘ لیکن اگر یہ بات درست ہے تو اس دفعہ کے تحت جو فیصلہ دیا گیا وہ لازماً نظرثانی کا محتاج معلوم ہوتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو یہ بھی باریک بینی سے دیکھنا چاہیے: اگر کوئی قانون بعد میں بھی بنا ہے‘ لیکن اُس سے ماقبل جس جرم کا ارتکاب ہوا تھا‘ وہ اس نئے قانون کے بننے کے بعد بھی بدستور جاری ہے‘ تو اس مابعد قانون کا اُس پر بھی اطلاق کیا جانا چاہیے‘ کیونکہ بعض جرم وقتی ہوتے ہیں‘ لیکن بعض جرم ایسے ہوتے ہیں جو جاری رہتے ہیں اور ان کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا مخلصانہ مطالبہ ہے: زیر نظر فیصلے کو واپس لیا جائے‘ قرآن کریم کی جن آیات کا حوالہ دیکر انہیں موجودہ مقدمے پر منطبق کیا گیا‘ انہیں حذف کیا جائے‘ کیونکہ اسی سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ قادیانیوں کے بارے میں جو معاملات آئین اور قانون میں قطعی طور پر طے کر دیے گئے ہیں‘ انہیں از سرِنو چھیڑا جا رہا ہے۔ پس اس غیر متعلق حصے کو نہ صرف عام لوگ بلکہ نیچے کی عدالتیں بھی غلط طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ نیز ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ وہ سپریم کورٹ کے 6 فروری 2024ء کے فیصلے اور جج صاحبان کے تبصروں اور مشاہدات سے کسی بھی طرح متاثر ہوئے بغیر حقائق کی بنیاد پر تمام متعلقہ دفعات کے تحت مقدمے کی کارروائی پوری کرکے فیصلہ دے۔ الغرض اگر ٹرائل کورٹ کی کارروائی کی تکمیل سے پہلے سپریم کورٹ کسی مقدمے کے بارے میں کوئی تبصرہ کرے گی‘ کوئی رائے دی گی یا کوئی مشاہدہ بیان کرے گی‘ تو ماتحت ٹرائل کورٹ کا اُس سے متاثر ہونا ناگزیر ہے‘ پس اعلیٰ عدالتوں کا یہ رویہ ماتحت عدالتوں کی شفاف تحقیقات اور بے لاگ انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ ہم ایک بار پھر عرض کرتے ہیں: ہم نے خالی الذہن ہو کر اور جذبات سے بالاتر ہو کر یہ سطور لکھی ہیں‘ ہمارے منصِب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی بھی حالت میں احتیاط کے دامن کو نہ چھوڑیں۔ لیکن یہ بھی گزارش ہے: اگر ایک طرف مذہبی حساسیت کو ابھارناحکمت کے منافی ہے‘ تو دوسری طرف مذہبی حساسیت کو یکسر نظر انداز کر دینا بھی حکمت کے منافی ہے‘ کیونکہ ایسا رویہ عوام میں حساسیت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا اس حساسیت کا ادراک لازم ہے۔
سپریم کورٹ کو بخوبی معلوم ہے کہ وطنِ عزیز پہلے ہی سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی سے دوچار ہے‘ قوم بوجوہ منقسم ہے‘ اس تقسیم میں سیاسی رہنمائوں اور قائدین کی بے تدبیری کا بھی بڑا دخل ہے‘ پس ایسے حالات میں عدالتِ عظمیٰ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر ایسے فیصلے سے اجتناب کیا جائے جو قوم کو ایک سنگین بحران‘ خلفشار اور انتشار میں دھکیل دے۔ عہدِ جاہلیت کا ایک عربی شاعر میدانِ جنگ میں مصروفِ پیکار اپنے گھوڑے کی تعریف میں لکھتا ہے: مفہومی ترجمہ: ''میرا گھوڑا (جنگ کے دوران) موقع ومحل کی مناسبت سے بیک وقت دشمن پر بڑھ چڑھ کر حملے بھی کرتا ہے اور جنگی حکمتِ عملی کے پیشِ نظر پیچھے بھی ہٹتا ہے اور جب وہ حملہ کرتا ہے تو اس قوت سے کرتا ہے کہ گویا پتھر کی مضبوط چٹان سیلاب کے زور پر بلندی سے گر گئی ہو‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved