ہماری دلعزیز بشریٰ انصاری نے کہیں کہا ہے کہ 1970ء کی دہائی میں کراچی بڑا ماڈرن شہر ہوا کرتا تھا‘ کلب وغیرہ تھے اور وہ اپنے خاوند اور دیگر دوستوں کے ساتھ ایسی جگہوں پر جایا کرتے تھے۔ جینز اور سکرٹ خواتین کا پسندیدہ لباس ہوا کرتا تھا اور امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہم بھی جب کبھی باؤلے ہو جاتے ہیں تو اسی لیے کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں بہت کچھ اچھا دیکھا جا سکتا تھا‘ آج کل کی جو سوشل قدغنیں ہیں انہوں نے تب جنم نہیں لیا تھا۔ پاکستان اگرچہ مثالی جگہ نہ تھی لیکن یہ جو آج کل کی افراتفری‘ لاقانونیت‘ دہشت گردی اور بات بات پر نعرے لگ جانے اور بندوں پر ہاتھ ڈال دینا ایسی چیزیں تب نہ تھیں۔ جس کراچی کا ذکر بشریٰ انصاری کرتی ہیں اس میں مساجد بھی تھیں‘ نمازجمعہ ادا کی جاتی تھی‘ مسلمان رمضان کی پابندی کرتے تھے‘ حج کی پروازیں چلتی تھیں۔ کراچی میں اگر کچھ ماڈرن علاقے بھی تھے‘ تو ایسے علاقے بھی تھے جہاں لوگوں کا لباس روایت پسندی کا مظہر ہوا کرتا تھا۔ اینگلو انڈین علاقے تھے جہاں خواتین اور دیگر لوگوں کا اپنا کلچر تھا اور اس پر کسی کا اعتراض نہ اٹھتا۔ میمنوں کی اپنی آبادیاں تھیں‘ اونچے اور نیچے درجے کے پارسی اپنی زندگیاں گزارتے تھے۔ رواداری تھی‘ ایک دوسرے کا کچھ لحاظ تھا اور زندگی چلتی رہتی تھی۔
اس معاشرے کی بدنصیبی سمجھیے یا اسے کوئی نظرِبد لگ گئی کہ وہ پرانا ماحول سارا ماضی کا حصہ لگتا ہے‘ اب تو کچھ اور ہی روایات نے جنم لے لیا ہے۔ بات کچھ ہوتی نہیں اور نعرہ لگ جاتا ہے‘ پھر لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں‘ کسی کا خون ہو جاتا ہے یا جیسے ہم نے سوات کے شہر مدین میں دیکھا‘ برہنہ جسم کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ پولیس کی حراست میں ایک انسان کو دے دیا گیا ہے لیکن اعلانات ہوجاتے ہیں اور ایک بپھرا ہجوم تھانے پر دھاوا بول دیتا ہے۔ حسبِ روایت پولیس بھاگ جاتی ہے اور پھر زیر حراست بندے کو باہر نکال کر عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک واقعہ ہو تو ہم کہیں کہ یہ تو بس ویسے ہی ہو گیا لیکن کچھ دن پہلے سرگودھا میں ایسا واقعہ ہوا‘ وہاں کے کوئی بیچارے کرسچین تھے جن پر الزام لگ گیا۔ اتنا مارا کہ ہسپتال میں کچھ دن بعد زخموں کی تاب وہ انسان نہ لا سکا۔ سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے جب کسی ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر کو ایسے ہی کسی الزام کی پاداش میں مار مار کے ہلاک کر دیا گیا۔ وہاں بھی شاید جلانے کی نوبت تک بات پہنچی۔ اسی نوعیت کے گوجرہ اور جڑانوالہ میں حملے ہو چکے ہیں۔ لاہور کی سینٹ جوزف کالونی میں ایک ایسا ہی حملہ ہوا اور کچھ سال پہلے قصور میں ایک بیچارے کرسچین میاں بیوی کو بھٹے کی آگ میں جھونک دیا گیا۔
یہ کس قسم کا معاشرہ ہم نے بنا دیا ہے؟ دکھاوے اور نعرے پارسائی کے‘ لیکن حقیقت وحشیانہ پن کی انتہا کو پہنچی ہوئی۔ ریاست کی رِٹ کا تو ویسے ہی ستیاناس ہو چکا ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ ریاست کا کام رہ گیا ہے کہ فارم 45کے اعداد و شمار کو فارم 47کے مقناطیسی اعداد و شمار میں کیسے تبدیل کیا جائے۔ پولیس اور انتظامیہ اور دیگر حکام کوکوئی پروا نہیں کہ لاؤڈ سپیکروں پر کس قسم کے نعرے لگائے جا سکتے ہیں۔ پولیس تو بالکل ہی ناکارہ ہو چکی ہے‘ کسی نعرے کی آڑ میں ہجوم اکٹھا ہو جائے تو یا تو آنکھیں بند کر کے کاغذی کارروائی ہو جاتی ہے یا پولیس بھاگنے کا سوچتی ہے۔ کسی میں ہمت ہے نہیں کہ ان جیسے واقعات کی کوئی چھان بین کر لے کہ اصل میں ہوا کیا ہے اور جو کہا جا رہا ہے وہی سچ ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور فضول قسم کی کہانی ہے۔
مزے کی بات یہ بھی ہے کہ جو منظم گروہ ایسے واقعات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں ہوا دیتے ہیں ان کا ماضی دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان پر تو ریاستی مہربانیاں ہوتی رہی ہیں۔ مضموم مقاصد کے لیے ایسے گروہوں کو استعمال کیا جاتا ہے‘ سویلین حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ایسی تنظیموں کو آلہ کار بنایا جاتا ہے۔ ان رویوں کے نتیجے میں ایسے منظم گروہ طاقت پکڑتے جاتے ہیں اور پھر اوروں کے ایجنڈوں سے ہٹ کر اپنے مقاصد سامنے رکھ لیتے ہیں۔ اور پھر جب نعرے پارسائی کے لگنے لگتے ہیں اور ان کی زد میں کوئی مظلوم یا بے گناہ آ جاتا ہے تو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پاکستان کی جگ ہنسائی ہو تی ہے‘ ہمارا چہرہ مزید خراب ہو جاتا ہے۔ ویسے ہی ہمارا بین الاقوامی امیج کوئی زیادہ اچھا نہیں لیکن ہر ایسے واقعے کے بعد باہر کی دنیا کہتی ہے کہ اس ملک کے لوگ لاعلاج ہیں۔ اور پھر ہمیں دیکھیے‘ ہم کہتے ہیں کہ باہر سے انویسٹمنٹ آنی چاہیے‘ دیگر دنیا کو چھوڑ کر دنیا ڈالر اور ریال اٹھائے اس طرف کا رُخ کرے۔ عجیب قوم ہیں ہم‘ ہمیں کوئی سمجھ ہی نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پر کیسے دیکھا جاتا ہے۔
یہ جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما لیو جیان چاؤ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں‘ ان کی باتوں پر ہم نے غور نہیں کیا؟ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ سی پیک منصوبوں میں تیزی لانے کے لیے پاکستانی میں سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے۔ قومی اتفاقِ رائے جس میں تمام سیاسی پارٹیاں شامل ہوں۔ اس کے بغیر استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔ان کی باتیں بڑے پتے کی تھیں اور ہماری طرف سے بے معنی اورلایعنی قسم کی گفتگو ہوتی رہی اور وہ اس لیے کہ ہمارے پاس کہنے کو کچھ ہے نہیں۔ چین سے ہمارے دوستی کے تعلقات ہیں لیکن چین ہمارے بارے میں فکرمند ہے کیونکہ یہاں توہمہ وقت کوئی نہ کوئی تماشا لگا رہتا ہے۔ لیوجیان چاؤ نے یہ بھی کہا کہ سی پیک منصوبوں کو سب سے زیادہ خطرہ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ہے۔ ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے‘ دہشت گردی کے واقعات زوروں پر ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ دنیا کے وسائل ہماری مدد کو آئیں گے۔یہ جو داسو کے قریب چینیوں پر حملہ ہوا تھا جس میں متعددچینی انجینئر مارے گئے‘ اس کا کتنا برا اثرچین پر پڑا ہوگا۔ سکیورٹی صورتحال ہمارے کنٹرول میں نہیں اور کوئی ہماری باتیں سنے۔اندازہ کیجیے کہ کچھ عرصہ پہلے داسو میں بھی چینی انجینئروں کے حوالے سے کچھ نعرے لگ گئے تھے۔وہاں کسی چینی نے کہا تھا کہ نماز ضرور پڑھو لیکن اپنا کام بھی مکمل کرو۔ یہ کہنا تھا کہ نعرے لگ گئے۔یہ تو چینیوں کی خوش قسمتی کہ پولیس اور دیگر حکام موقع پر پھرتی سے پہنچے‘ نہیں تو وہاں کوئی سیالکوٹ یا سوات جیسا واقعہ ہو جاتا توسی پیک کا پھر جنازہ پڑھنا ہی باقی رہ جاتا۔ کیا اس ملک کا ہم نے کردیا ہے؟
ایک اور واقعہ سن لیں‘ لاہور میں سپریم کورٹ کی رجسٹری ہائیکورٹ کے احاطے میں ہے۔ اس پرانی تاریخی عمارت میں دراڑتیں پڑنے لگی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹری میں کچہری لگائی تووہاں اُنہوں نے ان دراڑوں کا نوٹس لیا اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا اور پوچھا گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ نوکرشاہی کے افسروں نے اوٹ پٹانگ کی باتیں کیں کہ جی یہ تو بارشوں اور نکاسی آب کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہے‘ وغیر وغیرہ۔ یہ حکام کیسے کہتے کہ اورینج لائن ٹرین قریب سے گزرتی ہے اورجب ٹرین چلتی ہے تورجسٹری کی عمارت میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے اورمحسوس بھی کی جاتی ہے۔ یہ پراجیکٹ شہبازشریف کا فیورٹ پراجیکٹ تھا‘ اس لیے موجودہ نوکرشاہی نے اوٹ پٹانگ کی باتیں ہی کرنی تھیں کیونکہ سچ بولتے تو مارے جاتے۔ بات یہ ہے کہ جب یہ فضول کی اورینج لائن ٹرین بن رہی تھی توایسے اعتراضات کی کوئی کمی نہ تھی کہ حضور اس پراجیکٹ کی وجہ سے لاہور کے متعدد تاریخی عمارات کو خطرہ لاحق ہوگا۔کیسے راہنما ہم نے پائے ہیں۔ انہیں کسی بات کی سمجھ نہیں آتی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved