تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     23-06-2024

Welcome to Wild West

لگتا ہے اب سب کچھ نارمل ہے‘ بلکہ انگریزی میں اسے New Normal کہا جاتا ہے۔ اب لوگوں کو زندہ جلانا یا انہیں قتل کر دینا کوئی جرم نہیں رہا۔ جہاں دل کرے آپ کسی بندے پر کوئی الزام لگا دیں‘ شور مچا دیں‘ بندہ اگر پولیس بھی لے جائے تو بھی آپ بندے اکٹھے کر کے تھانے پر حملہ کر دیں‘ تھانہ جلا دیں‘ بندہ تھانے سے گھسیٹ کر نکالیں‘ اسے باہر لے جا کر آگ لگا کر جلا دیں ‘ اس کی جلتی لاش کی اپنے فون کیمرے سے ویڈیو کلپس بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیں اور فخر سے بتائیں کہ آپ نے اس بندے کو قتل کیا ہے۔ آپ کو نہ کوئی کچھ کہے گا‘ نہ کوئی آپ سے پوچھے گا۔
یہی سب کچھ دو دن پہلے سوات میں ہوا ۔ آپ کو کہیں کسی ردِعمل سے لگا کہ اتنا بڑا سانحہ ہوگیا ہے کہ ایک انسان کو محض شک پر تھانے سے چھڑا کر سڑک پر جا کر آگ لگا دی گئی ؟ایسے واقعات اب اتنے تسلسل سے ہونے لگے ہیں کہ اب یہ کوئی خبر نہیں رہی۔ پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا تھا کسی نے کوئی بات نہ کی۔ کسی پرائم ٹاک شو میں اس ایشو کو نہیں اٹھایا گیا۔ایک وقت تھا جب دہشت گردی ہوتی تھی‘ کہیں بم چل جاتا تو لوگ ڈسٹرب ہو جاتے تھے۔ مجھے خود یاد ہے کہ لال مسجد آپریشن کے بعد جب خودکش حملے شروع ہوئے اور اسلام آباد بھی ان حملوں کی زد میں آیا تو شروع میں یار دوستوں اور رشتہ داروں کے فون آنا شروع ہو جاتے تھے۔ پورا خاندان پریشان ہو جاتا تھا۔ کوئی مسیج بھیج کر خیر خیریت دریافت کررہا ہوتا۔ پھر یہ دھماکے اور خودکش حملے ہر جگہ تسلسل کے ساتھ ہونے لگے تو کوئی میسج یا فون نہ آتا۔ اب یہ سب کچھ ہمارے لیے نارمل ہو چکا تھا۔
ایک دور تھا جب ہم عراق اور افغانستان کے بارے پڑھتے تھے کہ وہاں خودکش حملے ہورہے ہیں یا وہاں سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں تو ہمیں حیرانی ہوتی تھی کہ وہ لوگ کیسے اپنی زندگی گزارتے ہوں گے۔ اور پھر وہی دن اسلام آباد میں دیکھے۔ ہر جگہ چیک پوسٹیں اور گاڑی کی تلاشی۔ اسلام آباد کے لوگ گاڑیاں روکنے یا ان کی تلاشی دینے کے عادی نہ تھے ‘ شروع میں ان کی پولیس فورس یا دیگر فورسز کے لوگوں سے تکرار بھی ہوجاتی تھی۔ دھیرے دھیرے سب لوگ تلاشی کے عادی ہوتے گئے اور گاڑی چیک پوسٹ پر رکتے ہی ان کا ہاتھ بونٹ اور ڈگی کے پوائنٹس پر جاتا۔ کوئی بحث نہیں۔ یہ تھا نیو نارمل۔ سب لوگ عادی ہو جاتے ہیں۔
یہی کچھ ہمارے ساتھ دہشت گردی میں ہوا۔ جب روز دس‘ بیس افراد مرنا شروع ہوئے تو دھیرے دھیرے بے حسی ہمارے اوپر طاری ہونے لگی۔ پھر اس وقت تک خبر نہ بنتی یا لوگ ٹس سے مس نہ ہوتے جب تک پچاس‘ سو بندہ دہشت گردی میں نہ مارا جاتا۔ اور پھر سو بندوں کے مارے جانے کی خبر بھی خبر نہ رہی۔ پھر اس وقت خبر بنی جب اے پی ایس سکول پشاور میں 140سے زائد بچے انتہائی ظالمانہ انداز میں شہید کر دیے گئے تو پوری قوم کو پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ ظلم ہوا ہے۔ تب بھی اس قوم میں بڑی تعداد اُن طالبان کا دم بھرتی تھی جو معصوم لوگوں کو مار رہے تھے۔ انہیں وہ بھٹکے ہوئے بھائی کہہ کر میڈیا میں ان کے دفاع کا مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں ان کی پارلیمنٹ اور میڈیا میں ترجمان بن چکی تھیں کہ ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے لہٰذا طالبان اگر پاکستانیوں کو مار رہے تھے تو ان کا کوئی قصور نہیں ۔ یعنی قصور مرنے والا کا تھا‘ مارنے والا کا نہیں۔حالانکہ کسی مارکیٹ میں اپنے بچوں کی روزی روٹی کماتے ایک غریب ریڑھی والے کا امریکی جنگ سے کیا لینا دینا۔ یوں یہ بھی ایک نیا نارمل بن گیا کہ طالبان کی پاکستان اور اداروں کے خلاف جنگ جائز تھی کیونکہ وہ امریکیوں کا غصہ ہم پر نکال رہے تھے۔
خودکش حملے کم ہوئے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ شاید لہو بہنا کم ہوگیا ہے لہٰذا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ لیا گیا۔ کسی بھی بندے سے آپ کا لین دین کا جھگڑا ہے‘کسی سے آپ اُلجھ پڑے ہیں‘ کسی کا نام‘ شکل یا مسلک یا حکومت پسند نہیں تو اس پر توہین کا نعرہ لگا دو۔ باقی کا م ہجوم خود کر لے گا۔ میرا خیال تھا سوات کے لوگوں نے خود بہت ظلم سہا ہے۔ طالبان نے ان کی خوبصورت وادی کو لہو لہان کر دیا تھا۔ جب لوگوں کا جینا حرام ہو گیا تو وہاں فوجی آپریشن کیا گیا۔ سوات کے لوگوں کو گھر چھوڑ کر دور کیمپوں میں رہنا پڑا۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم اور بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمود اکٹھے چھوٹا لاہور گئے تھے تاکہ مشکل میں گھرے لوگوں کا حوصلہ بلند کیا جائے۔ ان کی مدد کی جائے۔
کون سوچ سکتا تھا کل کے سوات کے مظلوم‘ جو طالبان کے مظالم کا شکار تھے‘ وہ خود اتنے ظالم نکلیں گے کہ ایک انسان کو یوں زندہ جلا دیں گے۔ سوات میں کسی نے اس انسان کے اس طرح جلائے جانے پر کوئی احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا تاکہ سوات کے عوام کا پیغام پوری دینا کو جائے کہ یہ حرکت چند لوگوں کی تھی۔ اب جب یہ کالم لکھا جارہا ہے تو اب تک کہیں سے کوئی احتجاجی آواز بلند نہیں ہوئی۔ الٹا اس علاقے کے لوگ اس پورے قصے میں ''سازش‘‘ تلاش کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سوات کے لوگوں خلاف سازش کی گئی ہے۔ مطلب جو سب لوگ اس ہجوم میں شامل تھے‘ جنہوں نے تھانے سے بندے کو نکال کر آگ لگا دی اور بعد میں تھانہ بھی نذرِآتش کر دیا یہ سب باہر سے آئے تھے۔ یہ مقامی لوگ نہیں تھے۔ ان سب کو کچھ پتا نہیں تھا کہ کون کہاں سے آیا اور سب کچھ جلا کر چلا گیا۔ چلیں مان لیا باہر کی سازش تھی تو کیا سوات کے عوام باہر نکلے تاکہ اپنے اوپر لگے ان دھبوں کو دھو سکیں؟
میں ایک پولیس آفسر کو سُن رہا تھا جو اس پورے واقعے کی تحقیق کررہا تھا۔ اس کے مطابق مقتول سلمان‘ جس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا‘ اٹھارہ جون کو اس ہوٹل میں ٹھہرا۔ اس کے قریب کمروں میں بھی کچھ لوگ موجود تھے۔ انہوں نے کمرے کی بالکونی کے ایک کونے میں قرآنی اوراق پھٹے ہوئے دیکھے تو شور ڈال دیا کہ یہ اس بندے کی حرکت ہے۔ ہوٹل مالک نے پولیس بلائی۔ پولیس والے اس شخص کو ساتھ لے گئے۔ تھانے میں سلمان نے پولیس کو بار بار کلمہ سنایا اور بتایا اس نے تو ابھی کچھ دیر پہلے نماز پڑھی ہے۔ وہ ایسی گستاخی کا سوچ تک نہیں سکتا۔کوئی گواہ نہیں‘ کوئی ثبوت نہیں۔ اب آپ خود جج‘ جیوری اور جلاد ہیں۔ موقع پر ہی عدالت لگائیں‘ فیصلہ سنائیں اور بندے کو وہیں آگ لگا کر جلا دیں۔
انسانوں کو جلانے کا کام قدیم یورپ میں ہوتا تھا جسے ڈارک ایجز کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی پر شک ہوتا کہ وہ جادو ٹونے کرتا یا کرتی ہے تو اسے فوراً جلا دیا جاتا تھا۔ اس وقت جادو ٹونے کے نام پر لوگوں کو مارا اور جلایا جاتا تھا۔ اب یہی کام ہمارے ہاں کیا جاتا ہے۔ مجھے ملک بھر میں بڑھتے ہوئے ان خوفناک واقعات سے میل گبسن کی شاہکار فلم The Maverick کا ایک سین یاد آرہا ہے۔ میل گبسن ایک امریکن گورے کو وائلڈ ویسٹ کے دنوں میں کہتا ہے: آپ مجھے ڈالرز دیں تو میں آپ کو ریڈ انڈین ڈھونڈ کر دوں گا جسے آپ گولی سے شکار کر کے مزہ لیں گے۔ وہ گورا پوچھتاہے کیا ان ریڈانڈین کا شکار قانونی طور پر جائز ہے؟ میل گبسن جواب دیتا ہے: گورے ان ریڈانڈینز کو برسوں سے مارتے آئے ہیں (مطلب اسے اب قانون ہی سمجھیں)۔ یہی کچھ اب ہمارے ہاں ہورہا ہے۔ اب کسی کو مارنا‘ جلانا کوئی جرم نہیں رہا۔ جہاں دل کرے آپ ایک نعرہ ماریں اور بندہ جلا دیں‘ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔
Welcome to Wild West

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved