بجلی بنیادی ضروریات میں شامل ہونے کی وجہ سے ہر شہری کی ضرورت ہے‘ سو باقی صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا کے عوام کا بھی حق ہے کہ انہیں اس بنیادی ضرورت سے محروم نہ رکھا جائے۔ خیبرپختونخوا کی آبادی چار کروڑ سے زائد ہے۔ ان سادہ لوح عوام کو صوبے اور وفاق کے اختیارات و اختلافات سے کوئی سروکار نہیں‘ نہ ہی عوام کی اکثریت پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ باقی صوبوں میں لوڈشیڈنگ کی وہ صورتحال نہیں جس کا انہیں سامنا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب میں رہنے والے کئی افراد کیلئے شاید یہ تعجب کی بات ہو کہ جون کی شدید گرمی میں بھی خیبرپختونخوا کے متعدد علاقوں میں 24گھنٹوں میں صرف دو‘ چار گھنٹے ہی بجلی دستیاب ہوتی ہے‘ وہ بھی ایسی کہ وولٹیج انتہائی کم۔ ایسی صورتحال میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا عوام کی آواز بنے اور انہوں نے وفاقی حکومت کو بجلی کا مسئلہ حل کرنے کا عندیہ دیا اور عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں فیڈرز کو زبردستی بحال کرنے کی دھمکی دی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا انداز جارحانہ ہو سکتا ہے لیکن یہ تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ صوبے کے عوام طویل لوڈشیڈنگ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ جب ایک صوبے کے عوام مشکل میں گھرے ہوں تو کیا وفاق مشکل کی گھڑی میں انہیں تنہا چھوڑ دے گا؟2022ء میں سندھ اور پنجاب کو بدترین سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لیا تو وفاقی حکومت دونوں صوبوں کی حکومتوں کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دی‘ ایسے رویے کا اظہار باقی صوبوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔
علی امین گنڈا پور نے بطور وزیراعلیٰ اپنے تئیں عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے‘ یہ ان کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں‘ مگر انہیں جو کام کرنا چاہیے وہ کرنے کے بجائے وہ تصادم کی راہ پر چلتے نظر آتے ہیں جس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘ الٹا اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ عوام قائدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جارحیت میں ان سے دو قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نو مئی کے واقعات ایسے ہی بیانات کا نتیجہ تھے‘ اس لیے سیاسی قائدین کو اپنے منصب کا خیال کرتے ہوئے ایسے رویے سے گریز کرنا چاہیے جو قومی مفاد کے خلاف ہو۔ تلخ رویہ اپنانے کے بجائے صوبائی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضروری ہے کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) بجلی چوری اور 37فیصد لائن لاسز کے ساتھ سرفہرست ہے۔ حکومت کی طرف سے طے شدہ فارمولے کے تحت جس علاقے میں زیادہ لائن لاسز ہوں گے‘ وہاں پر زیادہ لوڈشیڈنگ ہو گی۔ صوبائی حکومتیں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کی نگرانی کی ذمہ دار ہیں جس میں بجلی چوری کے خلاف ضروری اقدامات بھی شامل ہیں۔ صوبائی حکومتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بجلی چوروں کو پکڑنے اور ان پر مقدمہ چلانے میں مدد فراہم کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ عوام میں بجلی چوری کے خطرات اور اس کے مضمرات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مہم چلانا وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کو چاہیے کہ کم از کم بجلی چوری پر تو کنٹرول کرے تاکہ ریکوری کی شرح بہتر ہوتی اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہو‘ مگر گیارہ سالہ اقتدار کے باوجود صوبے میں بجلی چوری روکنے کیلئے صوبائی حکومت نے کوئی قدم اٹھایا‘ نہ ہی عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے کوئی مہم چلائی۔
عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بجلی چوری ایک غیرقانونی اور غیراخلاقی عمل ہے جو نہ صرف بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے مالی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ یہ بجلی کے گرڈ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ لائن لاسز کا ہے۔ لائن لاسز بجلی کی ترسیل کے بوسیدہ نظام کے ذریعے ضائع ہونے والی بجلی کی مقدار کو ظاہر کرتے ہیں۔ لائن لاسز بھی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں اور بجلی کے گرڈ کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ ٹرانسفارمرز‘ تاروں اور دیگر بنیادی ڈھانچے میں مزاحمت‘ غلط کنکشنز اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کا 30فیصد لائن لاسز کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بجلی کے ترسیلی نظام میں موجود نقائص کو دور کرے تاکہ بلاوجہ بجلی ضائع نہ ہو۔ پاکستان میں بجلی کی کل پیداواری صلاحیت تقریباً 45ہزار میگا واٹ ہے۔ تھرمل پاور ملک میں بجلی پیدا کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ تھرمل ذرائع سے ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 59فیصد حصہ پیدا کیا جاتا ہے۔ ہائیڈرو پاور بجلی کی پیداوار کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے جس سے بجلی کی مجموعی پیداوار کا 25فیصد حصہ پیدا کیا جاتا ہے۔ بجلی کی کل پیداوار میں قابلِ تجدید توانائی اور نیوکلیئر پاور کا حصہ فی الحال بہت کم ہے لیکن مستقبل میں ان ذرائع سے بجلی کی پیداوار بڑھنے کی توقع ہے۔
خیبرپختونخوا میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ٹیسکو اور پیسکو کے ذمہ واجبات کی ادائیگی کا تخمینہ فروری 2024ء تک 335ارب روپے ہے۔ خیبرپختونخوا میں رواں سال پاور سیکٹر کا مالیاتی خسارہ 124ارب روپے ہے۔ ٹیکس کی مد میں فروری 2024ء تک پیسکو کے واجبات 246ارب جبکہ ٹیسکو کے 89ارب روپے بنتے ہیں۔ ان واجبات کی عدم ادائیگی کی بنیادی وجہ بلوں کی عدم ادائیگی ہے۔ بجلی کی پیداواری صلاحیت اور حقیقی پیداوار میں فرق کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ پیداواری صلاحیت کا مطلب ہے کہ مجموعی طور پر ملک میں کتنی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ حقیقی پیداوار مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے‘ جیسا کہ ایندھن کی دستیابی‘ پلانٹ کی دیکھ بھال اور طلب وغیرہ۔ ہمارے ہاں بجلی کی پیداوار اکثر طلب سے کم ہوتی ہے۔ اس وقت بھی ملک میں صلاحیت سے ہزاروں میگاواٹ کم بجلی پیدا کی جا رہی ہے جبکہ نجی پاور ہاؤسز(آئی پی پیز) کو ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس مئی اور جون کے دوران ملک میں بجلی کی کل طلب تقریباً 28ہزار میگا واٹ تھی جبکہ اس سال یہ طلب کم ہو کر تقریباً 25 ہزار میگاواٹ تک آ چکی ہے جبکہ بجلی کی پیداوار ساڑھے 19 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے‘ یعنی بجلی کا شارٹ فال پانچ ہزار میگا واٹ سے زائد ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بجلی کی کل پیداواری صلاحیت 45ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے تو اس سے آدھی سے بھی کم بجلی کیوں پیدا کی جا رہی ہے؟ پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق نہ سہی‘ اس سے کچھ کم بجلی پیدا کرکے عوام کو گرمی کے موسم میں سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہ خالصتاً وفاقی معاملہ ہے۔ وفاق جب صوبوں کو ریلیف دیتا ہے تو اس کے اثرات عوام تک بھی پہنچتے ہیں۔ سو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو لوڈشیڈنگ کے معاملے پر موردالزام ٹھہرانا درست نہیں۔ کون صحیح‘ کون غلط کے چکر سے نکل کر وفاق اور صوبے دونوں کو ہی اپنی ذمہ داریوں کا ادارک کرنا ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved