سٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال میں ملکی تجارتی خسارے کی تفصیلات جاری کی ہیں‘ جن کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 11ماہ میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 24ارب 81کروڑ 90لاکھ ڈالر رہا۔ اس عرصے میں پاکستان کی برآمدات کا حجم 27ارب 87کروڑ 60لاکھ ڈالر رہا جبکہ پاکستان کی درآمدات کا حجم 52ارب 69کروڑ 50لاکھ ڈالر تھا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ بین الاقوامی تجارت میں پاکستان خسارے میں رہا ہے۔ یہ عمل گزشتہ کئی برسوں بلکہ کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ میکرو ٹرینڈز کی ایک رپورٹ کے مطابق 1960ء میں پاکستان کا ٹریڈ بیلنس منفی 0.23 ارب ڈالر تھا‘ یعنی تب بھی ہماری دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت خسارے کی تجارت تھی۔ یہ خسارہ 1970ء میں تھوڑا سا بڑھا‘ لیکن بس تھوڑا سا اور منفی 0.27ارب ڈالر ہو گیا‘ یعنی ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہا۔ 1980ء میں یہ بیلنس منفی 2.53ارب ڈالر تک بڑھ گیا یعنی ہم جتنی مالیت کی چیزیں دوسرے ممالک کو بھیج رہے تھے‘ اس سے 2.53ارب ڈالر زیادہ مالیت کی چیزیں درآمد کر رہے تھے۔ 1990ء میں پاکستان کا ٹریڈ بیلنس منفی 2.18ارب ڈالر ہو گیا یعنی 1980ء کی نسبت کم۔ 2000ء تک بھی صورتحال کنٹرول میں تھی‘ تب پاکستان کا تجارتی توازن منفی 2.19 ارب ڈالر تک رہا۔ لیکن اس کے بعد تو اس بیلنس کا توازن ایسا بگڑا کہ پھر کبھی قابو میں نہ آیا۔ 2010ء میں پاکستان کا تجارتی توازن بڑھ کر منفی 13.21ارب ڈالر ہو چکا تھا جو 2020ء میں مزید بڑھ کر منفی 24.39ارب ڈالر ہو گیا۔ کیا ہمارے معاشی اربابِ بست و کشاد نے کبھی سوچا کہ 2000ء کے بعد ایسا کیا ہو گیا کہ تجارتی توازن بگڑتا ہی چلا گیا اور پھر کبھی متوازن ہو ہی نہ سکا۔
تھوڑا سا گہرائی تک جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ملک میں کرپشن بھی اسی زمانے میں بڑھی جب تجارتی توازن بگڑا‘ ورنہ اس سے پہلے اتنی زیادہ لوٹ مار نہیں تھی۔ تو کیا یہ Hypothesis قائم کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں بڑھنے والی کرپشن کا درآمدات میں اضافے اور اس کے ساتھ پاکستان کی بین الاقوامی تجارت میں پیدا ہونے والے عدم توازن کے ساتھ گہرا تعلق ہے؟ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ کرپشن کا پیسہ بغیر کسی محنت کے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے پیدا کیا جاتا ہے‘ اس لیے اس کو خرچ کرنے میں کسی کو کسی قسم کا کوئی دریغ نہیں ہوتا۔ تو کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ملک میں کرپشن کم ہو جائے تو ہماری بین الاقوامی تجارت کا توازن بہتر ہو جائے گا؟ میرا خیال ہے‘ ایسا ممکن ہے‘ لیکن اس کے لیے کرپشن کے سوتے خشک کرنے کا کام سنجیدگی سے کرنا ہو گا‘ لیکن یہاں تو نیب کا ادارہ ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور تازہ خبر یہ ہے کہ کرپشن کے 179کیسز میں سے اب تک نیب کی جانب سے بیشتر میگا کرپشن کیسز کا باب بند کر دیا گیا۔ ان میں نصف سے زائد کیسز بند کر دیے گئے یا ان کے فیصلے سنا دیے گئے۔ ان کیسز کا باب بند ہونے سے نواز و شہباز شریف سمیت ملکی اشرافیہ مستفید ہوئی۔ ان 179مقدمات میں سے اب تک صرف 10میں سزا سنائی گئی ہے۔ نیب کی جانب سے معلومات میں تجدید کیے جانے کے بعد اب بریت کے کیسز 19ہو چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کی ہدایت پر نیب کی جانب سے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر شیئر کی گئی معلومات کے مطابق مئی 2015ء میں سپریم کورٹ میں 179میگا کرپشن کیسز کی فہرست جمع کرائی گئی۔ اس وقت ان 179میگا کرپشن کیسز میں 81انکوائریاں‘ 52انویسٹی گیشنز اور 46عدالتی ریفرنسز شامل تھے۔
معاملہ کچھ دوسری طرف چلا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ایک کنزیومر سوسائٹی ہے۔ ہم خود کچھ پیدا نہیں کرتے یا خود کچھ پروڈیوس نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی تیار کردہ اشیا استعمال کرتے ہیں اور اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں آج سربلند کھڑی نظر آتی ہیں جو خود اشیا تیار کرتی ہیں‘ ان اشیا کو خود استعمال کرتی ہیں اور سرپلس پیداوار دوسرے ممالک کو برآمد کرکے بھاری زرِ مبادلہ کماتی ہیں۔ اور سرپلس پیداوار بھی فنشڈ پروڈکٹس کی شکل میں۔ ہم جنہیں ترقی یافتہ ممالک کہتے ہیں‘ وہ ترقی یافتہ اس لیے ہیں کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک سے خام مال سستے داموں خرید کر لے جاتے ہیں‘ اس خام مال سے فنشڈ پروڈکٹس تیار کرتے ہیں اور پھر یہ تیار شدہ پروڈکٹس انہی تیسری یا دوسری دنیا کے ممالک کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک اور قومیں خود ویسی ہی اشیا تیار کرنے کے بجائے تیار شدہ چیزیں خرید کر استعمال کرتے ہیں‘ چاہے اس کے لیے پوری معیشت ہی سٹیک پر لگ جائے۔ ترقی یافتہ ممالک کی پروڈکٹس کا جو معیار آج ہمیں نظر آتا ہے‘ وہ ظاہر ہے اس وقت نہیں تھا جب انہوں نے شروع شروع میں یہ اشیا تیار کرنا شروع کی تھیں‘ چنانچہ اگر آج ہم چیزیں تیار کرنا شروع کریں گے تو چند برسوں میں ہوتے ہوتے ان کا معیار خود ہی اچھا ہو جائے گا؟
یورپ اور امریکہ تو الگ‘ اس خطے کے ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کی تجارت ہمارے ملک کے حق میں نہیں ہے۔ پچھلے مالی سال میں پاکستان نے بھارت سے 627ملین ڈالر کی اشیا درآمد کیں اور محض 20ملین ڈالر کی اشیا بھارت کو برآمد کیں۔ افغانستان کے ساتھ ہماری اچھی خاصی تجارت ہوتی تھی‘ جو اب سکڑتے سکڑتے نہایت محدود ہو چکی ہے۔ آج کے اس جدید دور میں کوئی بھی ملک بین الاقوامی تجارت کے بغیر نہیں رہ سکتا‘ لیکن دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ کون سی اشیا منگوائی جانی چاہئیں اور کون سی اشیا کے بغیر گزارا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہاں شاید یہ فیصلہ ٹھیک طرح سے نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور ملک کو مسلسل تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حکومت اگر ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرنا چاہتی ہے اور بین الاقوامی تجارت میں توازن بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے دو معاملات پر توجہ دینا پڑے گی۔ پہلا‘ ملک کو کنزیومر سوسائٹی کے زمرے سے نکالنے کی کوشش کرے‘ دوسرا‘ خام مال کو برآمد کرنے کے بجائے فنشڈ پروڈکٹس کی برآمد پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس طرح نہ صرف تجارتی خسارہ کم ہو گا اور ادائیگیوں کے توازن کو متوازن بنایا جا سکے گا بلکہ وہ بھاری زرِ مبادلہ بھی بچایا جا سکے گا جس کے حصول کے لیے ہم بعد ازاں کشکول بدست ملک ملک گھومتے اور بھیک مانگتے ہیں۔
ہمارے ملک میں برسرِ اقتدار آنے والی ہر حکومت نے درآمدات کم اور برآمدات زیادہ کر کے تجارت کے توازن کو بہتر بنانے کی باتیں کیں‘ لیکن اس سلسلے میں کوئی ٹھوس فیصلہ یا اقدام نہ کیا جا سکا‘ یہی وجہ ہے ہم آج بھی خسارے کی تجارت میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے ہمیں اپنے طرزِ کہن کو تبدیل کرنا پڑے گا۔صرف قوم کو نہیں‘ حکمرانوں کو بھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved