پارے کی حدت اور گرمی کی شدت کی وجہ سے اس بار حج روٹین سے ہٹ کر پُرمشقت ثابت ہوا۔ افسوسناک خبر حاجیوں کی رحلت کی آئی۔ جس میں سب سے بڑی تعداد مصر کے حجاجِ کرام کی نکلی۔ البتہ ایک واقعہ عرب سوشل میڈیا پر لوگوں کی خاص توجہ اور دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ افریقی النسل مصری حاجی بے پناہ گرمی اور حبس میں شیطان کو کنکریاں مار کر موسم کی سختی کے آگے نڈھال ہو گیا۔ وہ تھوڑا سا آگے چلا تو اُسے کچھ فوجی اکٹھے کھڑے نظر آئے۔ جن کی طرف سے حاجی کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے ہوئے محسوس ہوئے۔ حاجی فوجیوں سے نظر بچا کراُن کے پیچھے ایک بڑے کمرے میں داخل ہو گیا۔ کمرے کے اندر بہت سے اور حاجی اُسے سو تے ہوئے نظر آئے۔ وہ بھی اُن کے ساتھ جا کر لیٹا اور سو گیا۔ مصری حاجی نے میڈیا کو بتایا تقریباً دو گھنٹے بعد شدید سردی کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں باہر نکلا تو ایک فوجی‘ جو دروازے کے سامنے کھڑا تھا‘ اُس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ اُس نے چیخ مار کر دوسرے فوجیوں کو کچھ کہا اور خود بھاگنا شروع کر دیا۔ اُس کے پیچھے پہلے دوسرا‘ پھر تیسرا فوجی بھی بھاگ نکلا۔ میں اُن کے بھاگنے پہ حیران ہوا اور سوچا کہ ایسی کیا بات ہے کہ اُنہوں نے مجھے کمرے سے نکلتا دیکھ کر بھاگنا شروع کر دیا۔ میں نے مُڑ کر کمرے کی طرف دیکھا جس کے باہر بورڈ پر لکھا ہوا تھا: ثلاجہ الموات (ٹھنڈا مردہ خانہ)۔ یہ پڑھ کر میں نے بھی فوجیوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔
میں شاید یہ واقعہ یہاں نقل نہ کرتا اگر ان دنوں اسلام آباد میں قومی اثاثے بیچنے کی ایکسرسائز کا پتا نہ چلتا۔ فی الحال باقی چھوڑ دیتے ہیں‘ دو قومی اداروں کا سُن لیں‘ جن میں سے ایک غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہے اور دوسرا سیاحت کا قومی محکمہ۔ خبر یہ ہے یہ دونوں قومی اثاثے ایک ایسے عرب ملک کو دیے جا رہے ہیں جہاں شریف خاندان‘ اُس کے رشتہ داروں اور دوستوں کے کاروباری مفادات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ کاروباری مفادات کس گہرائی اور گیرائی پر پہنچے ہوئے ہیں‘ اُس پہ شریف خاندان کے ایک سابق سمدھی سیف الرحمن کی پریس ٹاک یاد کر لینا کافی ہے‘ جو اُس وقت سامنے آئی جب نواز شریف کو تیسری دفعہ بٹھانے والوں نے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر لا بٹھایا۔ سیف الرحمن نے کہا کہ میرا اور نواز شریف کا قطر سے متعلق 30 سالہ خواب اب پورا ہوا ہے۔ وہ خواب اُن کو بھی پتا ہے جوغُرفۂ احتساب میں اُس وقت تک خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں جب تک شریفوں کو نیا NRO دینے کا وقت نہیں آ جاتا یا پہلے سے موجود NRO کی ایکسپائری ڈیٹ آن پہنچتی ہے۔
شہرِ اقتدار کے باخبر حلقوں کے مطابق جب غازی بروتھا بیچنے کی شرائط منظر عام پر آئیں گی تو لوگ IPP's کے ریٹ اور بجلی کی قیمتوں والی کہانی کو بھول جائیں گے۔ آپ کو یاد ہی ہے جس طرح ہم نے اپنے ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کے محکمے کو تنصیبات اور اثاثوں سمیت بیچا تھا‘ جس کی پوری قیمت کی ریکوری ابھی تک عدالتوں کی رہداریوں میں گھوم رہی ہے۔ 1450 میگاواٹ کے غازی بروتھا ڈیم کے 30 فیصد شیئرز کو 80 سے90 کروڑ ڈالر کے عوض ایک عرب ملک کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ غازی بروتھا ڈیم سے سالانہ چھ ارب یونٹس سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس بجلی کی فی یونٹ لاگت دو روپے سے بھی کم آتی ہے۔ باخبر سورس نے بتایا کہ NEPRA کو درخواست دی گئی ہے کہ غازی بروتھا ڈیم کی بجلی کا ریٹ 10 روپے فی یونٹ کر دیا جائے۔ جس کا سادہ مطلب دوست نوازی ہے۔ خرید سے پہلے ہی خریدار کو 6.75 روپے فی یونٹ ہدیہ کر دیا جائے۔ بات اتنی سادہ بھی نہیں‘ ذرا آگے چلتے ہیں۔ غازی بروتھا کے اس 6 ارب یونٹ کی لاگت ساڑھے سات ارب روپے سالانہ پڑتی ہے۔ یہی لاگت اس طریقہ فروخت سے سرمایہ کاری کے نام پر بڑھ کر 60 ارب روپے سالانہ ہو جائے گی۔ یوںانویسٹر ملک سے 90 کروڑ ڈالر یعنی تقریباً 250 ارب روپے کی کُل رقم سرمایہ کاری کے نام پر لینے کے بدلے میں قوم پر سالانہ 52.5 ارب روپے کا فاضل بوجھ لادا جائے گا۔ اسی کے نتیجے میں ہمیں سالانہ 55 ارب روپے سے زیادہ کا منافع انویسٹر ملک کو دینا پڑے گا۔ آسان لفظوں میں انویسٹر ملک صرف پانچ سال میں اپنی سرمایہ کاری سے زیادہ منافع لے جائے گا‘ لیکن پاکستانی عوام تاحیات اس سرمایہ کاری کے بوجھ تلے دبے رہیں گے۔ بجلی کے ماہرین کے مطابق اورینج ٹرین‘ میٹرو بس اور IPP's کی طرح یہ سرمایہ کاری بھی ہمیں Debt کے ڈیتھ ٹریپ میں مزیدگرائے گی۔ اگر کوئی تردید کرنا چاہے تو سوال حاضر ہے کہ واپڈا کے ساتھ IPP's کے ایگریمنٹ پرریاستِ پاکستان کے کسی اہلکار کے دستخط ہیں یا ایک نا م نہاد یونین عہدیدار کے؟
دوسرے نمبر پر سرمایہ کاری PTDC کے ہوٹل‘ موٹل‘ ریسٹورنٹس‘ رہائش گاہیں اور انتہائی مہنگے اثاثوں کی فروخت سے آئے گی۔ محض نمونے کے طور پر اتنا سُن لیں کہ اسلام آباد کے دامن ِکوہ میں 1960ء سے چلنے والا واحد ریسٹورنٹ؍ موٹل PTDC کی ملکیت ہے‘ جس کی قیمت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ باقی شہروں میں دیواروں کے کان ہوتے ہیں‘ شہرِ اقتدار میں کانوں کی دکانیں ہیں۔ یہاں کچھ نہیں چھپتا۔
اس وقت ضد‘ اَنا‘ میں نہ مانوں اور نااہلی حکومت کی سٹرٹیجی ہے‘ حالات سدھارنے کے لیے۔ ایسی ہی Sleep Walk ہم نے اداروں کی ڈی نیشنلائزیشن کے وقت کی تھی۔ جس کے نتیجے میں چند گھرانے ساری ری پبلک پر اب تک بھاری ہیں۔ آنکھ جب بھی کھلی ہماری حالت مصری حاجی والی ہو گی۔ مگر فائدہ کچھ نہیں۔
اس ہفتے چینی وزیر Liu Jianchao نے اسلام آباد آ کر ہمیں وارننگ دی‘ بدامنی سے CPEC کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ساتھ بتایا پاکستان کی ترقی کا راستہ یہ ہے: ''political stability, friendly media environment to achieve sustainable development‘‘ مگر شہرِ اقتدار کے مقتدر خوابِ خرگوش کا مزہ لینے کے لیے مصری حاجی والا ٹھنڈا یخ کمرہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
آخر میں سنیے‘ 150کروڑ لوگوں کے ملک کی سپریم پیپلز کورٹ کے سابق چیف جسٹس Zhou Qiang کے نزدیک ریاست بچانے کا راستہ کیا ہے۔ ''میرے اور آپ کے کندھوں پر دو ارب انسانوں کو انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ میری نظر میں کرپشن قتل سے بھی زیادہ سنگین جُرم ہے‘ کیونکہ قاتل صرف ایک شخص یا چند افراد کو ہی قتل کرتا ہے لیکن ایک کرپٹ شخص پورے ملک کے معاشی نظام کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ عمل پورے ملک کوقتل کرنے کے مترادف ہے۔ کسی بلند مقام پر فائز ایک طاقتور اور کرپٹ شخص کو سرعام عبرتناک سزا دینے کا عمل ہزاروں افراد کو کرپشن سے باز رکھتا ہے۔ یہ عمل ملک کی ترقی اور بقا کے لیے بہت ضروری ہے‘‘۔
اپنی ری پبلک میں دیکھیے‘ ہم ریاست بچا رہے ہیں یا کرپشن؟ یہ بھی دیکھیں یہاں سے بھاگ نکلنے والے کون کون ہیں۔
سنکتا ہوا خود فریبی کا بادل
گرجتا ہوا جہل و وحشت کا طوفاں
وہ خانہ بدوشے زِخانہ بدوشاں
وہ آوارہ گردے زِآوارہ گرداں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved