کانگریس ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ لیاقت علی خان کامیاب ہوں۔ لیاقت علی خان خود بھی مضطرب تھے۔ ایک دن وہ اسی کیفیت میں علامہ عثمانی کے پاس دیوبند میں ان کے گھر پہنچے۔ علامہ نے انہیں تسلی دی۔لیاقت علی خان نے یہ بھی کہا کہ کانگریس ووٹوں کی خریداری پر بے دریغ روپیہ خرچ کر رہی ہے لیکن قائداعظم نے ہمارے اجازت نہیں دی ۔خواجہ آشکار حسین نے جناب لیاقت علی خان کی پہلی برسی پر رسالہ نقاد اور روزنامہ پیام 19 اکتوبر 1955ء میں الیکشن کی یہ تفصیل بیان کی تھی جس میں سے محض چند جملے یہاں شامل کر رہا ہوں۔ ''سب سے زیادہ سخت مقابلہ خود لیاقت علی خان کے حلقے میں تھا۔ مقابل امیدوار محمد احمد کاظمی تھے۔ (کاظمی صاحب مولانا ظفر احمد عثمانی کے رشتے دار بھی تھے‘ اس لیے مخالفین توقع کر رہے تھے کہ مولانا ظفر احمد عثمانی اس مہم میں حصہ نہیں لیں گے) ۔ (ووٹروں کی) اکثریت کاظمی کے ساتھ تھی۔ لیاقت علی خان دہلی سے نکل نہیں سکتے تھے کیونکہ انہیں پورے ملک کے انتخابات کی فکر تھی۔ حالات بدتر ہونے لگے تو انہیں سنبھالنے کے لیے علی گڑھ سے طلبہ کی یلغار کی گئی۔ مظفر نگر میں بھی یہی بدحالی تھی۔ لیاقت علی خان کے منیجر سردار اکرم‘ ان کے صاحبزادے امیر اعظم خان اور طلبہ علی گڑھ کے سربراہ پروفیسر عمر سب دم بخود تھے۔ فیصلہ ہوا کہ پروفیسر عمر دہلی جا کر لیاقت علی خان کو لائیں اور دوسری طرف کسی نہ کسی طرح مولانا محمد طیب (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کا فتویٰ اپنی موافقت میں حاصل کیا جائے۔ میں وہاں پہنچا۔ دو دن کے بعد فتویٰ حاصل کیا۔ ہم سہارنپور پہنچے۔ وہاں حامیانِ لیگ نے کہا کہ یہاں مولانا مفتی محمد شفیع کے فتویٰ کے بغیر کام نہ چلے گا۔ میں نے دیوبند جا کر موصوف کا فتویٰ بھی حاصل کیا اور سہارنپور پہنچ کر اس کی طباعت کے انتظامات کرائے۔ 27 نومبر 1945ء کو پولنگ ڈے تھا۔ 24 نومبر کو لیاقت علی خان سہارنپور پہنچے۔ میں فوراً ڈاک بنگلہ پہنچا۔ لیاقت علی خان بڑے جوش سے بغلگیر ہوئے۔ میں نے فوراً مفتی (محمد شفیع) صاحب کا فتویٰ بھی پیش کردیا۔ دیکھ کر اچھل پڑے‘‘۔
پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ان انتخابات کے سلسلے میں لیاقت علی خان سخت مایوسی کی حالت میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے گھر دیوبند پہنچے تھے۔ جمعرات 19 اکتوبر 1972ء کو روزنامہ نوائے وقت میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے سگے بھتیجے زبیر افضل عثمانی (مشہور شاعر عامر عثمانی کے بھائی) نے انتخابات کی تفصیل بیان کی تھی جو سید یعقوب حسن صاحب نے مضمون کی شکل میں شائع کرائی تھی۔ زبیر افضل عثمانی کا بیان طویل ہے اس لیے اس کے چند جملے یہاں نقل کرتا ہوں۔ تفصیل 'حیاتِ عثمانی‘ میں موجود ہے۔ ''قائد ملت کے رخصت ہونے کے بعد علامہ عثمانی نے مجھے اور چھوٹے بھائی‘ مدیرِ تجلی عامر عثمانی کو بلوا کر کہا کہ مرض اور ضعف کی وجہ سے میری جو حالت ہے وہ تم دونوں کے سامنے ہے۔ لیکن میرا تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ اپنا ہر لمحہ نوابزادہ کے انتخاب کی کامیابی کیلئے وقف کر دو؛ چنانچہ ہمارا انتخابی ہیڈ کوارٹر رُڑکی میں قائم کیا گیا تاکہ سہارنپور سے دہرہ دُون تک کام کرنے کا موقع مل سکے۔ ہمارے پاس جیپ تھی نہ کار‘ بیل گاڑیوں پر نکل کھڑے ہوئے۔ اسی انتخابی مہم کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر بھی دیوبند پہنچ گئے اور ان کا قیام علامہ شبیر عثمانی کے یہاں ہوا اور مہمان نوازی کے فرائض ہم جیسے ناشناسِ آداب کے سپرد کر دیے گئے۔ کانگریسی حلقہ اپنی یقینی کامیابی کے زعم میں بینڈ باجے سے لیس نتیجے کے انتظار میں کھڑا ہوا تھا۔ یکایک اعلان ہوا کہ کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کو 221 ووٹ زیادہ پڑے ہیں۔ ہر ہر حلقہ سے قائد ملت اور مسلم لیگ کی کامیابی کی اطلاعات پہنچنا شروع ہو گئیں‘‘۔
لیاقت علی خان بظاہر تین ہزار ووٹوں سے جیتے تھے۔ یہ تعداد بھی سخت مقابلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ان حضرات کی مدد نہ ہوتی تو لیاقت علی خان کا جیتنا مشکل تھا۔ چنانچہ 17 دسمبر 1945ء کو خط نمبر 5050 کے تحت دفتر آل انڈیا مسلم لیگ‘ دہلی‘ سے لیاقت علی خان نے مولانا ظفر احمد عثمانی کو جو خط بھیجا وہ اس کا اعتراف ہے۔ ''مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں اللہ پاک نے ہمیں بڑی نمایاں کامیابی عطا فرمائی اور اس سلسلے میں آپ جیسی ہستیوں کی جدوجہد بہت باعث برکت رہی۔ آپ حضرات کا اس نازک موقع پر گوشۂ عزلت سے نکل کر میدانِ عمل میں اس سرگرمی کے ساتھ جدو جہد کرنا بے حد مؤثر ہوا۔ اس کامیابی پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں‘‘۔ چنانچہ تحریک پاکستان کا معاملہ تو ایک طرف لیاقت علی خان اپنے ذاتی حلقے میں بجا طور پر ان حضرات کے احسان مند تھے۔
علامہ عثمانی اور دیگر علما کے ملک و قوم پر احسانات گنوائے جائیں تو وہ اَن گنت ہوں گے۔ انہی میں سے صوبہ سرحد اور سلہٹ کا ریفرنڈم بھی ہے۔ صوبہ سرحداور سلہٹ مسلم اکثریتی علاقے تھے۔ یہاں ریفرنڈم کا جواز نہیں تھا لیکن نہرو نے مائونٹ بیٹن کے ساتھ ذاتی مراسم کے زور پر ریفرنڈم کا فیصلہ کرا دیا۔ سلہٹ میں جمعیت علمائے ہند کا بڑا حلقہ اثر تھا۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں خان برادران اور سرخ پوش تحریک کانگریس نواز تھی۔ اس لیے کانگریس کو پوری امید تھی کہ یہ علاقے انہیں مل جائیں گے۔ برطانیہ ایک کٹا پھٹا (Truncated) پاکستان دے کرجلد از جلد رخصت ہو جانا چاہتا تھا کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کی اپنی حالت خراب تھی۔ برطانیہ کے انتخابات میں کنزرویٹو رہنما ونسٹن چرچل‘ جو آزادیٔ ہند کا شدید مخالف تھا‘ شکست کھا چکا تھا۔ لیبر پارٹی کا وزیراعظم اٹیلی‘ جو آزادی کا حامی تھا‘ اب برسر اقتدار تھا۔ کابینہ اور شاہِ برطانیہ کی منظوری کے بعد یہ طے تھا کہ اب ہندوستان کو آزادی ملنی ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ کے سامنے ایک سوال یہ تھا کہ جو پاکستان مل رہا ہے اسے قبول کیا جائے یا نہیں۔ دوسرا‘ صوبہ سرحد اور سلہٹ کاریفرنڈم کیسے جیتا جائے۔ چنانچہ ان معاملات پر مشاورت کے لیے مسلم لیگی ارکان اسمبلی کا اجلاس 9 جون 1947ء کو دہلی میں بلایا گیا جس میں شرکت کیلئے مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع کوخاص طور پر مدعو کیا گیا۔ اس اجلاس میں پاکستان کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ریفرنڈم کیلئے تدابیر طے کی گئیں۔ 11 جون کو انہی تینوں علما کی قائداعظم کی کوٹھی پر الگ ملاقات ہوئی۔ قائداعظم نے استقبال اور مصافحے کے بعد پاس بٹھایا۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کے سوا‘ جو ترجمان بھی تھا‘ کوئی اور شخص اس ملاقات میں موجود نہیں تھا۔ پاکستان کی مبارکباد کے جواب میں قائد اعظم نے کہا: مولانا! یہ مبارک آپ کو ہے کہ آپ ہی کی کوششوں سے یہ کامیابی ہوئی ہے۔ یہ ملاقات مولانا ظفر احمد عثمانی نے اپنی تحریر روئیداد میں بیان کی ہے۔ چند جملے پیش ہیں۔ ''چند اشکالات اور ان کے جوابات کے بعد قائداعظم نے از خود کہا:مولانا! مجھے تو اس وقت بڑی فکر سلہٹ اور صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کی ہے۔ اگر پاکستان اس میں ناکام رہا تو بہت بڑا نقصان ہو گا۔ ہم نے کہا: کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس ریفرنڈم میں پاکستان کامیاب ہو جائے۔ اس پر قائداعظم آبدیدہ سے ہو گئے اور فرمایا کہ صوبہ سرحد پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ اور سلہٹ کا علاقہ بھی مشرقی پاکستان کیلئے ایسا ہی ہے۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کو اس کا یقین دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ پاکستان اس میں کامیاب ہو گا۔ بشرطیکہ آپ اس کا اعلان کر دیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام جاری ہو گا اور اس کا دستور اسلامی ہو گا کیونکہ فرنٹیر اور بنگال کا مسلمان سیاسی مصالح کو نہیں جانتا‘ وہ صرف اسلام کو جانتا ہے اور اسی کے نام پر ووٹ دے سکتا ہے۔ کہنے لگے: مولانا! میں تو اس کا بارہا اعلان کر چکا ہوں اور جب پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی تو وہاں اسلامی دستور کے سو ا کون سا دستور ہو سکتا ہے۔ آپ بخوشی تحریر و تقریر میں میرے حوالے سے اس کا اعلان کرتے رہیں اور ان کو پورا اطمینان دلائیں کہ میں نے قوم سے کبھی غداری نہیں کی۔ جو میں نے پہلے بارہا کہا ہے‘ وہ آج بھی کہتا ہوں کہ پاکستان کا نظام حیات اسلامی ہو گا اور اس کا دستور کتاب و سنت کے موافق ہو گا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved