تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-06-2024

محاورے ایسے ہی نہیں بنتے …(1)

میری اخبار سے وابستگی تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنی' بچوں کی دنیا‘ یا 'تعلیم و تربیت‘ سے۔ جیسے ہی حرف و لفظ کی پہچان شروع ہوئی بچوں کی کہانیوں والے رسائل‘ جو پہلے ہی گھر آتے تھے‘ سے رشتہ جُڑ گیا۔ کہانی سے آشنائی اور چسکے کے مرحلے تو اس سے قبل ہی گزر گئے تھے۔ ماں جی سے کہانیاں درجنوں بار سننے کے بعد نئی کہانیوں کی ہڑک نے اپنے دیگر ہم عمر بچوں سے کہیں پہلے حرف شناسی سے متعارف کرا دیا۔ اب بچوں کے رسائل تھے اور ہم تھے۔ پھر اخبار میں ہفتہ وار بچوں کے ایڈیشن سے رشتہ جُڑ گیا۔ بھلا ایک ہفتہ کون انتظار کرتا؟ ہفتے کے باقی دنوں میں اخبار کو سرسری سا دیکھنا‘ بلکہ پڑھنا شروع کردیا۔ یہ پڑھنا بہرحال خبروں سے محبت ہرگز نہ تھی بلکہ اس کا واحد مقصد اپنے پڑھنے کی استعداد کو بڑھانا اور مشکل الفاظ کو ہجے کرکے جوڑنا اور پڑھ کر فخر سے سینہ پھلانا تھا۔ ابا جی روزانہ صبح پانچ سات منٹ مجھ سے اخبار سنتے اور پیٹھ ٹھونکتے کہ اس کی حرف شناسی‘ پڑھنے کی رفتار اور ہجے کرنے کی صلاحیت میں روز بروز بہتری آ رہی ہے۔ یہ لگ بھگ 1964ء‘ 1965ء کا زمانہ تھا۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر پانچ چھ سال کی عمر میں اچھی طرح منہ دھونا نہ بھی آیا ہو مگر اخبار پڑھنا آ چکا تھا۔
1966-67ء میں محمد علی کلے میرا ہیرو بن چکا تھا اور اس کے طفیل بچوں کے علاوہ اخبار کا کھیلوں کا صفحہ بھی ہماری قلمرو میں شامل ہو چکا تھا۔ چند روز قبل بابر چیمہ اور اسد اسماعیل سے لوئی ویل بات ہوئی کہ میں ایک ڈیڑھ ماہ بعد دوبارہ امریکہ آؤں گا تو اس بار ہر حال میں لوئی ویل آؤں گا‘ محمد علی کی قبر پر جاؤں گا‘ فاتحہ پڑھوں گا اور ممکن ہوا تو محمد علی کی بیوہ سے ملوں گا۔ اگر اجازت ملی تو اس کے پاؤں دباؤں گا‘ مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آتی کہ اپنے بچپن کے ہیرو جو آج بھی میرا ہیرو ہے‘ سے اپنی محبت کا اظہار کس طرح کروں؟ محمد علی کلے نہ سہی‘ بیگم محمد علی ہی سہی۔ وہی چچا غالب والا شعر:
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
اس قسم کی صورتحال کیلئے ایک فارسی کہاوت بھی ہے کہ ''گندم اگر بہم نہ رسد بھس غینمت است‘‘ کسی اور جگہ یہی کہاوت تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دیکھی ''گندم اگر بہم نہ رسد جو غنیمت است‘‘۔ اس کنفیوژن سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی فارسی دان سے رابطہ کروں اور دونوں میں سے درست ضرب المثل کو پلے باندھوں کہ میں خود تو فارسی سے نابلد ہوں اور اپنی اس نالائقی پر نہ صرف از خود شرمندہ ہوں بلکہ ابا جی مرحوم‘ جو بی اے آنرز فارسی تھے‘ اس پر مجھے بارہا ڈانٹ ڈپٹ بھی کر چکے تھے۔ درمیان میں مرزا عبدالغنی مرحوم اور ڈاکٹر بشیر صاحب نے‘ جو ہمارے بزرگ دوست اور ابا جی مرحوم کے دوست تھے‘ مجھے کئی بار کہا کہ میں خانۂ فرہنگ ملتان میں آکر یہ زبانِ شیریں سیکھ لوں جو نہایت ہی آسان ہے مگر برا ہو اس پاؤں کے چکر کا جس نے نہ تو ملتان میں چین سے بیٹھنا نصیب کیا اور نہ ہی خانۂ فرہنگ میں جا کر سعدی‘ حافظ‘ نظامی‘ عمر خیام اور سب سے بڑھ کر جناب علامہ اقبال کے فارسی کلام سے براہِ راست اکتساب نصیب ہوا۔ اسے بھلا بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
اس ضرب المثل میں ''بھس‘‘ اور ''جو‘‘ سے بات تو سمجھ آ جاتی ہے کہ اگر گندم میسر نہ ہو تو اس سے کمتر شے (بھس یا جو) سے کام چلایا جا سکتا ہے مگر طبیعت اس معمولی فرق کو بھی دور کرنے کے درپے تھی‘ سو اَب سوچا کہ کس صاحبِ علم کو فون پر تکلیف دی جائے۔ ذہن میں کئی نام تھے۔ فارسی کے بے مثل عالم اور درویش استاد معین نظامی یاد آئے اور صرف وہ خود ہی یاد نہ آئے‘ ان کی نظمیں بھی یاد آئیں۔ نظمیں یاد آئیں تو ان کی کتاب ''طلسمات‘‘ یاد آئی جو میں نے اپنے فون میں ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہے اور کبھی ایئرپورٹ پر اسے کھول لیتا ہوں اور کسی رات ہوٹل میں نیند روٹھ جائے تو اس میں گم ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر شاعرِ بے بدل اور اپنے مہربان اظہار الحق یاد آئے‘ لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ جہاں میں اس وقت ہوں اگر اس کے ٹائم زون کا حساب لگاؤں تو ابھی پاکستان میں صبح ہونے میں کئی گھنٹے باقی ہیں۔ سو فیصلہ کیا ہے کہ جہاں یہ ضرب المثل گزشتہ اتنے عرصے سے زیرِ تحقیق ہے‘ دو چار گھنٹے مزید بھی رہ گئی تو کون سی قیامت آ جائے گی۔ لہٰذا کالم مکمل کرتے ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی ایک دوست کو چند گھنٹے بعد تکلیف دوں گا‘ تاہم یہ طے ہے کہ آج یہ مسئلہ جسے پنجابی محاورے میں ''کٹا کٹی نکالنا‘‘ کہتے ہیں‘ طے کرکے چھوڑوں گا۔
سو لوئی ویل محمد علی کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھنی ہے اور محمد علی کی بیوہ (اماں جی) سے پاؤں دبانے کی درخواست کرنی ہے‘ کیا خبر قبول ہی ہو جائے کہ محمد علی ابا جی مرحوم کے بعد میری زندگی کا دوسرا ہیرو تھا‘ جو صرف اپنے مرتے دم تک بلکہ میرے مرتے دم تک میرا ہیرو رہے گا۔
1964ء وہ زمانہ تھا جب محمد علی نے 22سال کی عمر میں تب کے ہیوی ویٹ چیمپئن سونی لسٹن کو ہرا کر دنیا کو حیران کردیا۔ مجھے تب بھی محمد علی کے رِنگ سے باہر اور رِنگ کے اندر مخالف باکسروں پر کسے جانے والے جملے‘ تبصرے اور بیانات پڑھ کر مزا آتا تھا۔ محمد علی نے لسٹن کو ساتویں راؤنڈ میں ٹیکنیکل ناک آؤٹ کر کے دنیا کو حیران کردیا۔ محمد علی نے فائٹ سے قبل سونی لسٹن کو The Big Ugly Bear یعنی ''بڑا بدصورت ریچھ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے گندے ریچھ جیسی بدبو آتی ہے اور وہ ہرانے کے بعد اسے مقامی چڑیا گھر کو عطیہ کر دے گا۔ یہ ایسی باتیں تھیں جو کسی بھی بچے کو مسحور کر سکتی تھیں۔ 1966ء میں جب اس نے اسلام قبول کیا تو وہ سارے عالمِ اسلام کا ہیرو بن گیا مگر وہ میرا خاص ہیرو تھا۔ محمد علی کو خط لکھنے کا واقعہ میں تفصیل سے اپنے ایک کالم میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔
اگلے کئی سال محمد علی کے کیریئر کے عروج کے سال تھے۔ اس دوران اس نے فلائیڈ پیٹرسن‘ جارج شوالو‘ ہنری کوپر‘ برائن لنڈن‘ ارنی ٹیرل اور زورا فولی جیسے باکسروں کو شکست دے کر اپنا ٹائٹل برقرار رکھا۔ بعد ازاں اس کو ویتنام جنگ میں جبری بھرتی اور جنگ پر جانے سے انکار پر نہ صرف ہیوی ویٹ چیمپئن کے اعزاز سے محروم کردیا گیا بلکہ پانچ سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔ ہیوسٹن کے ملٹری کیمپ میں تین بار نام پکارنے کے باوجود آگے آنے سے انکاری ہونے پر اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے روز اس کا باکسنگ لائسنس کینسل کر دیا گیا۔ 1967ء سے 1971ء تک محمد علی باکسنگ رِنگ سے باہر رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ باکسنگ رِنگ1967ء سے 1971ء تک محمد علی جیسے شاندار اور تاریخ ساز باکسر سے محروم رہا۔ یہ باکسنگ کی بدقسمتی تھی۔ قبولِ اسلام کے بعد محمد علی کی رنگ میں واپسی‘ جو فریزیئر سے شکست اور فتح‘ جارج فورمین کا ناک آؤٹ اور پارکنسن کے بعد کیریئر کا غیر متوقع اختتام۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کی ہاکی اپنے عروج پر تھی۔
1960ء میں روم اولمپکس سے شروع ہونے والا سنہری دور ہمارے بچپن اور لڑکپن تک جاری رہا۔ اس دوران یہ عاجز بچوں کے صفحے سے کھیلوں والے صفحے پر پہنچا اور پھر خبروں سے ہوتا ہوا اخبار کے ادارتی صفحہ تک پہنچ گیا۔ بطور قاری اخبار کے ادارتی صفحے پر پہنچنے کا مرحلہ شاید سب سے آخری ہوتا ہے اور اپنی ذات سے قطع نظر‘ میرا خیال ہے کہ اخبار کے ادارتی صفحات کے قاری ذہنی بلوغت کے اعتبار سے دیگر عام اخباری قارئین سے آگے ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایک انگریزی کے محاورے Bull in a China shop والا معاملہ بھی درپیش آ جاتا ہے۔ محاورے ایسے ہی نہیں بنتے۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved