پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اگر پچھلے 40 نہیں تو کم از کم 22‘ 24 برس سے دہشت گردی کے خلاف کوئی نہ کوئی فوجی آپریشن چل رہا ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں آپریشنز کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن ماضی میں بلوچستان میں کیے گئے آپریشنز کا مقصد مختلف تھا۔ آج بھی بلوچستان میں یہ آپریشن جاری ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ کبھی رُکے ہی نہیں۔ بلوچستان کی حد تک تو اَب یہ بات کہنا ہی بند کر دی گئی ہے کہ وہاں کوئی آپریشن ہو رہا ہے۔
جب بھی کوئی ایسا آپریشن شروع کیا جاتا ہے تو حکومت کی طرف سے بتایا جاتا ہے کہ اب کی دفعہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی جائے گی‘ ملک کو امن کا گہوارا بنادیا جائے گا۔ جب دو تین سال بعد یہ آپریشن ختم ہوتا ہے تو اعلان کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا سر کچل دیا گیا ہے‘ اُن کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ اور پھر کچھ ہی دنوں بعد پتا چلتا ہے کہ دہشت گردی نئے سرے سے سر اٹھا رہی ہے۔ پھر سے ہمارے فوجی جوان اور شہری شہید ہو رہے ہیں۔ تب پھر سے وہی بیانات دہرائے جاتے ہیں کہ کمر توڑ دیں گے‘ سر کچل دیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ 20‘ 22 برسوں میں اب تک سات فوجی آپریشنز ہو چکے ہیں جو پرویز مشرف‘ اشفاق پرویز کیانی‘ راحیل شریف اور قمر جاوید باجوہ کے ادوار میں کیے گئے تھے۔ 'عزمِ استحکام‘اس نوعیت کا آٹھواں آپریشن ہو گا۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے دور میں شروع کیے گئے آپریشن کو ''ردالفساد‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے بعد جو دلچسپ کام ہوا وہ عمران خان کا بطور وزیراعظم کالعدم ٹی ٹی پی کے اُن ہزاروں جنگجوؤں اور ان کے اہلِ خانہ کو افغانستان سے واپس پاکستان لانا تھا جو اس آپریشن میں پاکستان چھوڑ کر افغانستان چلے گئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان طالبان کو راضی کرکے پاکستان واپس لانے اور یہاں بسانے سے وہ پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی حملوں کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ پہلے ان طالبان کو افغانستان کے اندر ہی بسانے کا منصوبہ تھا جس کا تقریباً 30 ارب روپے خرچہ بھی پاکستانی حکومت برداشت کرنے کو تیار تھی‘ لیکن پھر انہیں پاکستان واپس لا کر یہاں بسانے کا منصوبہ بن گیا۔ جنرل(ر) باجوہ اور ان کی ٹیم کا خیال تھا اس طرح سارا مسئلہ حل ہو جائے گا اور پاکستان پُرسکون ہو جائے گا۔یوں دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا کام کیا گیا۔اُس وقت عمران خان وزیراعظم‘ قمر باجوہ آرمی چیف اور فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ ان سب نے مل کر یہ پلان ترتیب دیا اور بتایا جاتا ہے کہ 35 ہزار طالبان اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے لا کر سوات اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں بسایا گیا۔ اس ڈیل کے تحت پاکستان افغان سرحد پر لگی باڑ‘ جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے تھے‘ اسے کاٹ کر طالبان کو پاکستان میں لایا گیا۔ جب یہ خبر سامنے آئی تب سوات کی مقامی آبادی نے طالبان کو ان کے علاقوں میں لا کر بسانے کے خلاف مظاہرے کیے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں سوات سے پی ٹی آئی ہی الیکشن جیتی تھی لہٰذا سوات کے لوگوں نے اپنے علاقے میں طالبان کی آباد کاری کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان تک اپنے تحفظات پہنچائے کہ اس سے علاقے کا امن اور سیاحت متاثر ہو گی اور لوگ شدید مالی اور سماجی مسائل کا شکار ہوں گے۔ جس پر عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ سوات کے لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو وہاں بسانے سے ان کیلئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ان کی پرانی دشمنیاں ہیں جو دوبارہ جنم لیں گی‘ لیکن کیا کریں ہمیں ان طالبان کو واپس پاکستان لانا ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی لایا گیا تھا جس پر سب سے زیادہ احتجاج محسن داوڑ اور علی وزیر نے کیا تھا۔ باقی کی پارلیمنٹ کو جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید نے یہ کہانی سنائی کہ آپ ایک دفعہ ان طالبان کو واپس آنے دیں پھر دیکھیں پاکستان میں کیسا امن آتا ہے۔ یوں وزیراعظم عمران خان‘ جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید سے لے کر پارلیمنٹ تک سب اس عمل میں شریک ہوئے۔ سوات کے لوگوں کا احتجاج بیکار گیا۔ سوات کے لوگوں نے آٹھ فروری کے الیکشن میں بھی عمران خان کی پارٹی کو ہی ووٹ دیا جو طالبان کو واپس لانے میں پیش پیش تھے۔
طالبان کی واپسی کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا میں دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھایا۔ عمران خان اور جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کے جاتے ہی دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدت آئی۔ پشاور کی ایک مسجد میں ہونے والے حملے میں سو سے زیادہ افراد شہید ہوئے۔ فوجی قافلوں پر حملے اور افسران شہید ہونے لگے۔ جب اس پر شور مچا تو پی ٹی آئی کے لیڈر کہنا شروع ہو گئے کہ جب تک عمران خان وزیراعظم تھے دہشت گردی کنٹرول میں تھی۔ جنرل (ر) فیض حمید ان طالبان کو کنٹرول کررہے تھے۔ ان کو ہٹانے کے بعد دہشت گردی کی لہر دوبارہ چل پڑی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان اور دہشت گردی کنٹرول کرنے کے لیے عمران خان کو تاحیات وزیراعظم اور جنرل (ر) فیض حمید کو تاحیات ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا جاتا؟ یہ کیا جواز ہے کہ جب تک عمران خان اور جنرل (ر) فیض حمید طاقت میں تھے تو طالبان خوش تھے اور ان کے جانے کے بعد وہ ناراض ہوگئے اور دہشت گرد کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس جواز سے تو پی ٹی آئی کی لیڈر شپ پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا طالبان کو پاکستان میں لانے کا مقصد ریاست اور اداروں پر ایک طرح کا سیاسی دباؤ رکھنا تھا کہ اگر عمران خان اور فیض حمید کو ہٹایا تو پھر ہمارا معاہدہ ختم سمجھو اور ہم ہتھیار اٹھا لیں گے؟
ویسے ہمیں ان پالیسی میکرز کی عقل کی داد دینی چاہیے جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جو لوگ ساری عمر جنگ و جدل کرتے رہے وہ سب کچھ چھوڑ کر آرام سے گھر بیٹھ جائیں گے؟ اس سے زیادہ ہمارے پالیسی میکرز کو اس بات پر بھی داد دیں کہ 30 سال تک افغان طالبان کی ہم حمایت کرتے رہے کہ وہ کابل میں اقتدار میں آکر پاکستان کو مضبوط کریں گے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ہم یہ کیسے بھول گئے کہ افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے حوصلے مزید بلند ہوں گے کہ اگر افغان طالبان امریکہ سے افغانستان واپس لے کر اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں تو ہم پاکستان میں یہ کام کیوں نہیں کر سکتے؟ اور یہی ہوا‘ امریکہ کی افغانستان سے واپسی اور طالبان کی کابل میں واپسی کے بعد پاکستان میں دہشت گردی نے زور پکڑا۔ ہمارے بڑے یہ کیسے سمجھ بیٹھے کہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو روکیں گے کہ جو لڑائی افغانستان پر قبضے کے لیے افغانوں نے لڑی تم پاکستان میں مت لڑو؟ جو کام افغان طالبان خود کرتے رہے وہ ٹی ٹی پی کو اس سے کیسے منع کر سکتے تھے اور بھلا کیوں کرتے؟ اور عمران خان طالبان کی کابل واپسی پر فرما رہے تھے کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں اور ہمارے ذہین قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید سرحد پر لگی باڑ کاٹ کر طالبان کو پاکستان لا رہے تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کو پاکستان واپس لانے کے حیران کن فیصلے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی نے سر اٹھایا اور سینکڑوں سویلین اور فوجی افسران طالبان کے حملوں میں شہید ہوئے‘ ان کا لہو ہم کس کے ہاتھوں پر تلاش کریں؟ ہمیں چھوڑیں‘ ان فوجیوں اور سویلینز کے بچے‘ ماں باپ اور بہن بھائی کن لوگوں کو اپنے بچوں کے لہو کا ذمہ دار سمجھیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved