سیالکوٹ‘ جڑانوالہ‘ سرگودھا اور اب سوات میں جو کچھ ہوا اس سے ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ اس عفریت کے خاتمے کے لیے ریاست سے امید رکھنا سادہ لوحی ہے اور کم عقلی!! ریاست نے آج تک اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیا! یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ریاست بے بس ہے؟ یا ریاست اس سلسلے میں کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ آئیے! تلاش کرتے ہیں! اس تلاش سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم جب ریاست کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں حکومت‘ عدلیہ‘ پارلیمان‘ مقتدرہ‘ بیورو کریسی‘ سب اعضا شامل ہیں۔
ایسے واقعات کے سد باب کے لیے مؤثر ترین عمل عبرتناک سزا ہوتی ہے۔ آج تک کسی بھی ایسے سفاک قتل کے مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ سری لنکن شہری والے واقعہ کی سزا سنائی گئی‘ دی نہیں گئی۔ سزا سنانے اور سزا دینے میں فرق ہے۔ اگر کسی بھی ایسے وحشیانہ قتل کی سزا دی گئی ہے تو ریاست کا فرض تھا کہ اس کی تشہیر کرتی۔ اس سے پہلے سیالکوٹ ہی میں دو بھائیوں منیب اور مغیث کو ہجوم نے بے دردی سے ہلاک کر دیا تھا۔ ان کے قاتلوں کو کیا سزا ملی؟ بینک کے منیجر کو جس گارڈ نے گولی ماری تھی کیا اسے سزا ملی؟ کسی کو کچھ معلوم ہے تو ہمیں بھی بتائے۔ آج کے دور میں جب تصاویر‘ آوازیں‘ وڈیو کلپس‘ وَٹس ایپ‘ سب اوزار میسر اور عام ہیں تو ہجوم میں سے اصل مجرموں کو پِن پوائنٹ کرنا ہر گز ناممکن نہیں! یہ معلوم کرنا کہ کس کس نے گھسیٹا تھا‘ کس نے پٹرول چھڑکا تھا‘ کس نے آگ لگائی تھی‘ مشکل نہیں۔ چونکہ آج تک کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی خاص کر مثالی اور عبرتناک سزا‘ تو مطلب واضح ہے کہ ریاست ایسا کرنا چاہتی ہی نہیں! اس عفریت کے استیصال میں اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ یا پھر ریاست عوام کو اعتماد میں لے کہ رکاوٹیں کیا کیا ہیں؟ اور مانع کیا کیا ہے؟؟
یہ تو سزا کا معاملہ ہے۔ پیشگی اقدامات میں سے بھی کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ عام طور پر لوگوں کو اکٹھا کرنے اور مشتعل کرنے کے لیے مساجد کے لاؤڈ سپیکر استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی افواہ پھیلتی ہے لاؤڈ سپیکروں سے اعلانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مسجد کے نام سے اعلانات کے اعتبار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ریاست کے لیے اس استعمال پر مؤثر پابندی لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ریاست کو طے کرنا چاہیے کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر کی چابی کس کے پاس ہو گی یا لاؤڈ سپیکر کا انچارج کون ہو گا؟ خطیب یا امام یا مؤذن؟ یا مسجد کمیٹی کا صدر یا مسجد کمیٹی کا سیکرٹری؟ یہ طے کرنے کے بعد اگر لاؤڈ سپیکر ایسے کسی موقع پر استعمال ہو تو انچارج کو پکڑنا اور عبرت ناک سزا دینا مشکل نہیں! اس پہلو کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی گئی تھی۔ مگر ریاست کو کوئی پروا نہیں کہ ایسا آسان قدم ہی اٹھا لے۔ اگر یہ اقدام کیا جائے تو علما کرام سمیت کوئی بھی اس اقدام کی مخالفت نہیں کرے گا۔ تاہم ریاست چاہتی ہی نہیں تو کیا ہو سکتا ہے! سوات کے حوالے سے دو متضاد خبریں ہیں۔ ایک کی رو سے لاؤڈ سپیکر استعمال کیے گئے۔ دوسری خبر کے مطابق‘ نہیں استعمال کیے گئے۔ بہر طور اس خبر کی تردید نہیں کی گئی کہ ایک گاڑی پر لاؤڈ سپیکر نصب کیے گئے اور یوں گاڑی کی مدد سے شہر بھر میں اشتعال پھیلایا گیا۔ گاڑی کا نمبر معلوم کرنا‘ گاڑی اور اس کے مالک اور اعلان کرنے والوں کا کھوج لگانا مشکل نہیں۔ لیکن نیت ہی نہ ہو تو اور بات ہے۔
ان واقعات کو روکنے کے لیے مقننہ میں قانون سازی لازم ہے۔ ایسا قانون پاس کیا جائے جو پولیس کو بے قابو ہجوم پر گولی چلانے کی اجازت دے۔ یہ اجازت صرف پاؤں پر گولی چلانے کی بھی ہو سکتی ہے۔ یقینا ایسے قانون کی مخالفت کی جائے گی۔ مگر دو ہی آپشن ہیں۔ پولیس بے قابو اور مشتعل ہجوم کے سامنے بے بس ہو کر ہتھیار ڈالتی رہے یا راہِ فرار اختیار کرتی رہے اور ہجوم انسانوں کو کچلتا رہے اور کچل کر نذرِ آتش کرتا رہے یا پولیس کو اختیار دیا جائے کہ اس بر بریت کو ہمیشہ کے لیے روکنے کی خاطر گولی چلائے۔ گولی چلانے کا فعل مجسٹریٹ کی اجازت سے بھی مشروط ہو سکتا ہے۔ گمانِ غالب یہ ہے کہ اس انتہائی قدم کی ضرورت ایک دو بار ہی پڑے گی! مگر مقننہ میں ایسا کوئی بل پیش نہیں کیا جائے گا! پورے معاملے میں ہی سنجیدگی‘ قوتِ ارادی اور عزم و استقلال کا فقدان ہے! اگر کسی سر پھرے نے ایسا بل پیش کر بھی دیا تو اس کا انجام اس بل سے مختلف نہیں ہو گا جو کچھ سال پہلے ''غیرت قتل‘‘ پر پیش کیا گیا تھا!!
جو کچھ سیالکوٹ‘ جڑانوالہ‘ سرگودھا اور سوات میں ہوا اور اس سے پہلے اَن گنت جگہوں پر ہو چکا‘ بدترین قسم کی دہشت گردی ہے! جن افراد کو عرفِ عام میں ہم دہشت گرد کہتے ہیں‘ انہیں ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہماری ریاست کو ان کے خفیہ ٹھکانے بھی‘ کم و بیش‘ معلوم ہیں۔ ان کا طریقِ واردات بھی معلوم ہے۔ ان سے نمٹنے کے لیے ہماری ریاست نے کئی بار آپریشن کیے۔ کبھی آپریشن ضربِ عضب‘ کبھی ردالفساد اور اب عزمِ استحکام! مگر افسوس! جو دہشت گردی زیادہ خطرناک ہے اس کے خلاف کوئی آپریشن نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی آپریشن کے آثار ہیں!
اب جب یہ بات پختہ ہو چکی کہ ریاست ان واقعات کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی‘ نہ ہی مستقبل میں اس کا اس حوالے سے کوئی ارادہ ہے نہ منصوبہ بندی! تو پھر کیا کیا جائے؟ کیا اسے مقدر سمجھ کر قبول کر لیا جائے؟ ایسا کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا اس لیے کہ ایسا واقعہ‘ خدا نخواستہ‘ کل ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ بس میں بیٹھے ہیں۔ آپ کی نشست کے بالکل ساتھ‘ نیچے‘ کسی کو کاغذ کا کوئی ٹکڑا نظر آتا ہے جس پر عربی میں کچھ لکھا ہے۔ اگر وہ شور مچا دے کہ یہ مقدس کاغذ ہے اور آپ نے اسے پھاڑ کر‘ نیچے پھینک کر اس کی توہین کی ہے تو آپ کے بچنے کا امکان صفر سے کم ہو گا کیونکہ آپ کو بس سے اترنے کوئی نہیں دے گا! اچھرہ میں عبا والی لڑکی کے ساتھ تقریباً یہی ہوا تھا۔ اس کی عبا پر عربی رسم الخط میں ''حلوہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ پڑھی لکھی عالم فاضل قوم نے اسے مقدس لفظ سمجھا۔ خاتون خوش قسمتی سے بچ گئی۔ یوں کہیے قدرت نے اسے نئی زندگی دی ورنہ اس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف بال برابر فاصلہ رہ گیا تھا۔ کسی جگہ‘ کسی وقت‘ کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اشیائے خورو نوش میں ملاوٹ کرنے والے کسی حاجی صاحب کو شرم دلاتے ہیں کہ متشرع چہرے کے ساتھ غلط کام کر رہے ہو تو متشرع کا لفظ آپ کے لیے مصیبت بن سکتا ہے۔ حاجی صاحب اگر چلا کر کہیں کہ آپ نے شریعت کی توہین کی ہے تو آن کی آن میں ہجوم جمع ہو کر آپ کی جان کو آسکتا ہے۔ تو پھر کیا حل ہے؟ کیا کچھ لوگوں کا ایک گروہ اقوام متحدہ سے یا کسی دوست ملک سے سفارش کرائے؟ کیا عجب ہماری ریاست اقوام متحدہ یا کسی دوست ملک کی بات مان لے اور اس عذاب سے نمٹنے میں سنجیدہ ہو جائے!
ہم میں سے ہر شخص کو اپنی جگہ یہ احتیاط ضرور کرنی چاہیے کہ کسی سے بھی مذہب یا مسلک پر بحث نہ کریں۔ عام گفتگو میں بھی مذہبی الفاظ اور اصطلاحات کے استعمال سے پرہیز کریں! مکمل پرہیز!! مذہبی شعائر‘ عبادات‘ عقائد پر کبھی بات نہ کریں! اپنے بچوں کو‘ احباب اور اعزہ کو بھی سمجھائیں کہ ہر ممکن احتیاط کریں!! شعلہ بھڑکنے میں دیر نہیں لگتی!!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved