فارم 47 رجیم والے قوم کے خرچے پر آسودہ حال ہیں۔ ان کے سہولت کار آسودہ ترین۔ اب تو کابینہ کے شوباز وزیر بھی بول اُٹھے ہیں۔ وزارتِ دفاع کے انچارج منسٹر نے کہا: باجوہ صاحب 2019ء میں ایکسٹینشن ملنے کے ساتھ ہی ہمیں مرکز اور پنجاب کی حکومت دینا چاہتے تھے۔ عمران خان حکومت ختم کرنے اور ہمیں اقتدار میں لانے کی یہ آفر انہوں نے لندن جاکر نواز شریف کو خود کی۔ ان دنوں اقتدار دینے والوں کے خلاف اقتدار لینے والے بینی فشریز کی طرف سے اعترافِ جرائم کی نئی تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے (ن) لیگ کے سابق گورنر سندھ نے بھی اعتراف کیا کہ نواز شریف اور مریم نواز نے انہیں کہاکہ باجوہ صاحب سے بات کرنے جاؤ‘ شہباز شریف کو کچھ مت بتانا۔ قیدی نمبر 804 یہی تو کہہ رہا تھا‘ میری حکومت لندن پلان کے ذریعے ہٹائی گئی۔ اب عمران خان کی بات نہ صرف درست ثابت ہوئی ہے بلکہ اس کے ثبوت رجیم چینج کا باعث بننے والے ٹولے کے اندر سے باہر نکل کر سامنے آرہے ہیں۔ جب خان نے لندن پلان کا ذکر کیا تو میڈیا آرکائیو نکال کر دیکھ لیں کہ درباری راگ الاپنے والوں نے آسمان سر پہ اُٹھا لیا تھا کہ قمر جاوید باجوہ کو رجیم چینج میں غلط ملوث کیا جا رہا ہے۔ ڈیفنس منسٹر کے بیان کو ریکارڈ پر آئے پورا ہفتہ گزر چلا ہے مگر نہ تو اس وزیر سے کسی نے وضاحت مانگی کہ تم نے یہ بیان کیوں دیا‘ نہ ہی کسی نے کہا کہ یہ وزیر کی ذاتی انفارمیشن یا ذاتی رائے ہے۔ بلکہ الٹا کچھ (ن) لیگی رہنماؤں نے اس بیان کی حمایت کر دی‘ کھلی حمایت! وزیراعظم نے دکھاوا کرنے کے لیے بھی اپنے اس وزیر کو ڈی مارش نہیں کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے تیسرے نواز دور میں ہمارے مرحوم دوست مشاہد اللہ خان نے اس سے کم درجے کی بات کی تو اُسے وفاقی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر دفاع کے اس بیان کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ جاننے کے لیے پہلے دیکھ لیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مصطفی ایمیپکس کیس میں جو اصول طے کر رکھا ہے‘ اس عدالتی فیصلہ کے مطابق وزیراعظم سمیت سارے وزیر اور وزیر مملکت ملا کر کابینہ بنتی ہے۔ پاکستان کی دستوری سکیم کے اسی تسلسل میں 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 90 کے مطابق وفاقی حکومت ایک اجتماعی اکائی بتائی گئی جس کے لیے آرٹیکل 90 کی ذیلی شق (1) میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں:The Federal Government, consisting of the Prime Minister and the Federal Ministers۔
اس لیے جب کابینہ کا کوئی ممبر یا وفاقی وزیر بولتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بیان ملک کی ایگزیکیوٹیو اتھارٹی کی طرف سے آیا ہے۔ ایک اور دستوری آرٹیکل میں ساری کابینہ کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی پرفارمنس کے حوالے سے سینیٹ آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے ایوانوں کے روبرو ذمہ دار گرداناگیا ہے۔ ثبوت کے لیے ملاحظہ کریں آرٹیکل 91کی ذیلی شق نمبر(6): The Cabinet, together with the Ministers of state, shall be collectively responsible to the Senate and the National Assembly.
ان حالات میں جب پوری کابینہ منسٹر آف سٹیٹ سمیت قومی ایوانوں کے سامنے اجتماعی طور پر جوابدہ ہے تو پھر وزیر دفاع کا یہ بیان High treason punishmentایکٹ کے تحت بذاتِ خود ایک استغاثہ بنتا ہے۔ بالکل ویسا ہی استغاثہ جیسا ایک اور سابق آرمی چیف کے خلاف انہی وزیر صاحب کی حکومت میں‘ جب ان کے پاس یہی وزارت تھی‘ اسی قانون‘ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا‘ کے تحت ٹرائل کے لیے سپریم کورٹ کو بھیجا تھا۔ تفصیل میں نہ جائیں تب بھی سب جانتے ہیں کہ محض ایک سیاسی جج کو Displaceکرنے کے جرم میں مرحوم جنرل پرویز مشرف کو جو سزا ملی اس سزا کو بعد اَز مرگ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے بنچ نے برقرار رکھا۔ آج ہی میرے دوست سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آفتاب اقبال نے اُردو کے دانشور شاعر افتخار عارف کا شاہکار بھجوایا جو حسبِ حال لگا‘ اسلئے آپ سے شیئر کرتا ہوں۔
جاہ و جلال‘ دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت‘ یہ ڈر‘ یہ خوف
گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ طبل و علم کی دھوم
ذکرِ زوالِ لوح و قلم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں‘ عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت‘ یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خمِ وجود و عدم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو‘ ہم اور کتنی دیر
افتخار عارف کے اور کتنی دیر سے آئی ایم ایف زدہ عوام کُش بجلی کا بل یاد آگیا۔ ان دنوں وہ سوال جو بل ادا کرنے والوں کی طرف سے بل وصول کرنے کے بعد مفت کی بجلی ہتھیانے والوں سے پوچھے جا رہے ہیں‘ وہ بھی اٹھانا ضروری ہیں۔
پہلا سوال: بجلی کی قیمت ادا کردی‘ پھر اس پر کون سا ٹیکس؟
دوسرا سوال: کون سے فیول پر کون سی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟
تیسرا سوال: کس قیمت پر بجلی پہ کون سی ڈیوٹی؟
چوتھا سوال: بجلی کے یونٹس کی قیمت جو ہم ادا کر چکے‘ ان پر Anti Dateکون سی ڈیوٹی اور کیوں؟
پانچواں سوال: ٹی وی کی کون سی فیس‘ جبکہ ہم الگ سے پیسے دے کر کیبل ٹی وی دیکھتے ہیں۔
چھٹا سوال: جب بجلی کا بل ہر مہینے ادا کرتے ہیں تو پھر بل کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟
ساتواں سوال: کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟
آٹھواں سوال: جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر دیا تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟
نواں سوال: کس چیز کے اور کون سے Furtherچارجز؟
دسواں سوال: With Holdingچارجز کس شے کے؟
گیارہواں سوال: میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا‘ اس کا کرایہ کیوں؟
بارہواں سوال: بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟
تیرہواں سوال: گزشہ چھ مہینے میں اگر ایک دفعہ آپ کی استعمال شدہ بجلی یونٹ 200کو ٹچ کر جائے تو اگلے چھ ماہ آپ کے یونٹ کا ریٹ گزرے ہوئے 200+یونٹ والا ہی ہو گا۔ بجلی چاہے کم استعمال کریں پھر بھی۔
چودہواں سوال: ہر مہینے بل کی ادائیگی کرنے پر بار بار ادائیگیاں کس بات کی؟
قارئین وکالت نامہ سے درخواست ہے اپنا بجلی کا بل نکالیں۔ اوپر درج ظلم کے جو ضابطے ہم پر آئی ایم ایف سے اپنا بجٹ بنوانے والے نورے لاگو کر رہے ہیں‘ ان پہ آواز اٹھائیے۔ جو سوال آپ کو غلط نظر آئے‘ اسے حرفِ غلط سمجھ کر مٹا دیں۔ مگر زندہ قوم کی حیثیت سے قوم کو حرفِ غلط سمجھنے والوں کی بد قماشیوں کا خمیازہ ہم کیوں بھگتیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved